لاہور ہائیکورٹ نے سابق صدر جنرل پرویز مشرف کو سنگین غداری کے جرم میں سنائی گئی سزائے موت کو کالعدم قرار دیدیا ہے۔ عدالت عالیہ نے سابق صدر کو سزا سنانے والی خصوصی عدالت کی تشکیل کو بھی غیر قانونی قرار دیا ہے۔ جنرل پرویز مشرف کی جانب سے خصوصی عدالت کے قیام کو چیلنج کیا گیا تھا جس پر لاہور ہائیکورٹ نے فیصلہ سنایا۔ معزز عدالت عالیہ نے کہا کہ کسی شخص کی غیر حاضری میں اسے سزا دینا غیر اسلامی ہے۔ جنرل پرویز مشرف 1999ء میں نواز شریف حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار میں آئے۔ انہوں نے منتخب حکومت کو ہٹانے کی جو وجوہات بیان کیں وہ طیارہ سازش اور بدعنوانی کے سنگین الزامات وغیرہ پر مشتمل تھیں۔ بعد ازاں قانونی عمل کا سامنا کرنے کی بجائے مسلم لیگ ن کا سربراہ خاندان جنرل پرویز مشرف سے سمجھوتہ کر کے سعودی عرب چلا گیا۔ بے نظیر بھٹو نے جنرل پرویز مشرف کے ساتھ این آر او کیا ۔ بے نظیر بھٹو کی واپسی کے بعد نواز شریف خاندان وطن واپس آیا اور 2008ء کے عام انتخابات میں حصہ لیا۔ اس وقت جنرل پرویز مشرف ملک کے صدر تھے۔ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن نے مخلوط حکومت بنائی جو بہت جلد باہمی کشمکش کی نذر ہو گئی۔ جوں جوں وقت گزرا مسلم لیگ ن کا رویہ جارحانہ اور دونوں جماعتوں کے درمیان پائے جانے والے عمومی افہام و تفہیم کے برعکس نظر آنے لگا۔ پیپلزپارٹی نے اپنے اقتدار کے آخری دو برس نواز شریف اور ان کے رفقا کی عدالتی چارہ جوئیوں کا مقابلہ کرتے گزارے۔ پیپلزپارٹی نے کسی خرابی کے بغیر جنرل پرویز مشرف کو ایوان صدر سے رخصت کیا۔ سن 2013ء میں مسلم لیگ ن مرکز میں برسراقتدار آ گئی۔ مسلم لیگ ن کی حکومت نے جنرل پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی کا مقدمہ درج کرا دیا۔ اس مقدمے کی سماعت کے لیے خصوصی عدالت قائم کی گئی۔ مقدمے کے فیصلے تک اس خصوصی عدالت کے چار سربراہ تبدیل ہوئے۔ خصوصی عدالت نے جنرل پرویز مشرف پر فرد جرم عائد کی تو وہ خود عدالت میں حاضر ہوئے۔ بعد ازاں مارچ 2016ء کو جنرل پرویز مشرف علالت کی بنیاد پر بیرون ملک روانہ ہو گئے۔ یاد رہے کہ ان کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے مسلم لیگ ن کی حکومت نے ہٹایا۔ 17دسمبر 2019ء کو خصوصی عدالت کے تین رکنی بنچ نے پشاور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ کی سربراہی میں پرویز مشرف کو آئین شکنی اور سنگین غداری کا مجرم قرار دے کر سزائے موت سنا دی۔ یہ سزا ملک میں ایمرجنسی پلس نافذ کرنے کے مقدمہ میں دی گئی۔ بنچ کے ایک رکن جسٹس نذر اکبر نے اپنے اختلافی نوٹ میں لکھا کہ استغاثہ اپنا کیس ثابت کرنے میں ناکام رہا ہے۔ خصوصی عدالت کے فیصلے میں کہا گیا کہ استغاثہ کے شواہد کے مطابق ملزم مثالی سزا کا مستحق ہے اور اسے ہر الزام میں الگ الگ سزائے موت دی جاتی ہے۔ فیصلے میں خصوصی عدالت کے سربراہ جسٹس سیٹھ وقار کا حکم قانونی حلقوں کی فوری توجہ کا باعث بنا جس میں انہوں نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ہدایت کی کہ وہ جنرل پرویز مشرف کو گرفتار کرنے اور سزا پر عملدرآمد کی ہر ممکن کوشش کریں اور اگر جنرل پرویز مشرف مردہ حالت میں ملیں تو ان کی لاش اسلام آباد کے ڈی چوک میں لا کر تین دن تک لٹکائی جائے۔ خصوصی عدالت کے فیصلے پر جنرل پرویز مشرف نے مایوسی کا اظہار کیا ترجمان پاک فوج نے فیصلے کو ایک سابق آرمی چیف کی حب الوطنی پر سوال اٹھانے کے مترادف قرار دیا۔ قانونی حلقوں نے اپنے ردعمل میں کہا کہ کسی ملزم کو سنے بغیر اس کی غیر موجودگی میں سماعت کیسے کی جا سکتی ہے، اس سلسلے میں اسحاق ڈار اور حسین و حسن نواز کے خلاف مقدمات کی سماعت ان کی وطن میں عدم موجودگی کے باعث روکنے کی مثال پیش کی گئی۔ آئی ایس پی آر کے سربراہ میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ ’’جنرل پرویز مشرف نے 40سال سے زیادہ پاکستان کی خدمت کی۔ جنرل پرویز مشرف نے ملک کے دفاع کے لیے جنگیں لڑی ہیں۔ وہ کسی صورت بھی غدار نہیں ہو سکتے‘‘ جنرل پرویز مشرف، پاک فوج اور عوامی حلقوں نے خصوصی عدالت کے فیصلے پر متعدد قانونی و اخلاقی سوال اٹھائے۔ جنرل پرویز مشرف نے خصوصی عدالت کے فیصلے کے خلاف لاہور ہائیکورٹ میں اپیل دائر کی۔ ان کی 86صفحات پر مشتمل درخواست میں کہا گیا کہ خصوصی عدالت کا فیصلہ بے ضابطگیوں اور متضاد بیانات کا مرکب ہے۔ درخواست میں فیصلے میں استعمال اصطلاحات کا ذکر کرتے ہوئے خصوصی عدالت کے سربراہ کی ذاتی وابستگی، تعصب، بدگمانی، مس کنڈکٹ، صوابدیدی اختیارات کے غیر قانونی اور نا مناسب استعمال اور حلف سے روگردانی کے معاملات کی نشاندہی کی گئی۔ درخواست میں کہا گیا کہ خصوصی عدالت وفاقی حکومت کی منظوری کے بغیر تشکیل دی گئی تھی۔ لاہور ہائیکورٹ نے ان اعتراضات کو تسلیم کرتے ہوئے خصوصی عدالت کے قیام اور جنرل پرویز مشرف کو دی گئی سزا، دونوں کو کالعدم قرار دے کر اداروں میں کشمکش کا خدشہ ختم کر دیا ہے۔ عدالتی فیصلوں کو سیاسی مفادات کے لیے استعمال کرنے کے خواہاں حلقوں کو لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے سے یقینا مایوسی ہوئی ہو گی اور انہیں ملکی معاملات میں جس ارتعاش کی امید تھی وہ پیدا نہ ہو سکا۔ سنگین غداری کا مقدمہ کوئی فرد واحد نہیں بلکہ ریاست دائر کرنے کا اختیار رکھتی ہے۔ حکومت ریاستی اختیار استعمال کرنے کی مجاز اتھارٹی ہے۔ لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف حکومت یا خود جنرل پرویز مشرف اپیل میں نہیں جائیں گے لہٰذا اس معاملے میں یہی فیصلہ حتمی ہونے کا امکان ہے تا ہم ایک ذمہ داری پارلیمنٹ کی ہو گی کہ وہ آئین کے آرٹیکل 6پر ازسرنوغور کرے تا کہ ملک آئندہ کسی آئینی بحران سے محفوظ رہے۔