سابق فوجی صدر جنرل پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی اور سنگین غداری کے مقدمے کی سماعت کرنے والی خصوصی عدالت نے انہیں سزائے موت کا حکم دیا ہے۔ جسٹس سیٹھ وقار، جسٹس نذر اکبر اور جسٹس شاہد کریم پر مشتمل خصوصی عدالت نے ایک کے مقابلے میں دو ججوں کے مختصر اکثریتی فیصلے میں سزا سنائی۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ جنرل(ر) پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی کا جرم ثابت ہوتا ہے اس لیے آئین کی شق چھ کے تحت انہیں سزائے موت دی جاتی ہے۔ آئین کی شق چھ کے تحت ایسا شخص جس نے 23مارچ 1956ء کے بعد آئین توڑا ہو یا اس کے خلاف سازش کی ہو، اس کے عمل کو سنگین غداری قرار دیا جائے گا اور اس کو عمر قید یا سزائے موت سنائی جائے گی۔ قانونی طور پر جنرل پرویز مشرف کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ خصوصی عدالت کے فیصلے کے خلاف آئندہ 30روز میں سپریم کورٹ میں اپیل دائر کر سکیں تا ہم اس کے لیے انہیں وطن واپس آ کر عدالت کے سامنے پیش ہونا ہو گا۔ جنرل پرویز مشرف پر عائد فرد جرم کے مطابق انہوں نے 3نومبر 2007ء کو ملک میں ایمرجنسی لگا کر چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کو نظر بند کرنے کا حکم دیا۔ مسلم لیگ(ن) 2013ء میں برسراقتدار آئی تو حکومت نے سابق صدر کے خلاف مقدمہ درج کرا دیا۔ اسلام آباد کی خصوصی عدالت نے 31مارچ 2014ء کو غداری کے مقدمے میں پاکستان کے سابق فوجی صدر پر فرد جرم عائد کی۔ 21نومبر 2014ء کو خصوصی عدالت کے سربراہ جسٹس فیصل عرب نے اپنے فیصلے میں اس وقت کے وزیر اعظم شوکت عزیز، وزیر قانون زاہد حامد اور سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر کو بھی مقدمے میں شامل کرنے کا حکم دیا۔ ستمبر 2015ء میں حکومت کی جانب سے یہ کہا گیا کہ وہ پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی کے مقدمے میں ان کے سہولت کاروں کے خلاف تفتیش کرنے کے لیے تیار ہے۔ 18مارچ 2016ء کو جنرل پرویز مشرف علاج کے لیے دبئی چلے گئے جہاں وہ شدید علیل اور تاحال مقیم ہیں۔ مارچ 2016ء میں خصوصی عدالت نے مسلم لیگ ن کی وفاقی حکومت سے تحریر وضاحت طلب کی کہ عدالت سے پوچھے بغیر ملزم کو بیرون ملک کیوں جانے دیا گیا۔ یاد رہے کہ سنگین غداری کیس میں جنرل پرویز مشرف کا نام اپریل 2013ء کو ای سی ایل پر ڈال دیا گیا تھا۔ 27نومبر کو اسلام آباد ہائیکورٹ نے عدالت کو فیصلہ سنانے سے روکتے ہوئے حکم دیا تھا کہ فیئر ٹرائل کے تقاضے پورے کرتے ہوئے فریقین کو سن کر فیصلہ دیا جائے۔ جس کے بعد خصوصی عدالت نے تین مزید سماعتیں کیں۔ جنرل پرویز مشرف کے خلاف مقدمے کا فیصلہ یقینا پاکستان کی عدالتی تاریخ میں ایک اہمیت رکھتا ہے۔ پاکستان میں جتنے فوجی آمر آئے انہوں نے جمہوری نظام کی بساط لپیٹی اور اپنے دور اقتدار کے آخری دنوں میں ایسا جمہوری ڈھانچہ کھڑا کرنے کی کوشش کی جو ان کی آمرانہ حکومت کی حمایت کرتا۔ جنرل پرویز مشرف کی شخصی خوبیوں اور خامیوں کا معاملہ الگ ہے مگر یہ سچ ہے کہ انہوں نے ایک منتخب حکومت کا تختہ الٹ کر آئین شکنی کا ارتکاب کیا۔ جنرل پرویز مشرف کے خلاف اگر کوئی ترجیحی مقدمہ تھا تو وہ 12اکتوبر کے اقدام پر ہو سکتا تھا تا ہم میثاق جمہوریت اور این آر او کے بعد پیپلزپارٹی و مسلم لیگ ن نے سول ملٹری تعلقات میں پیدا بگاڑ درست کرنے کی خاطر اس معاملے کو نظرانداز کر دیا۔ نومبر 2007ء میں ایمرجنسی لگانے کا فیصلہ جنرل پرویز مشرف کے وکلاء کے مطابق وزیر اعظم شوکت عزیز سے مشاورت کا آئینی تقاضہ پورا کرنے کے بعد کیا گیا۔ بہر حال خصوصی عدالت نے ایک مشکل مقدمے کا مشکل حالات میں فیصلہ سنا کر پیغام دیا ہے کہ پاکستانی عدلیہ آئین کی بالادستی کو نظریہ ضرورت کی جگہ آئینی ضرورت کے تحت رواج دینا چاہتی ہے۔ ممکن ہے شدید علیل بتائے جانے والے جنرل پرویز مشرف اپیل کا حق استعمال کریں، ایسا ہوا تو انہیں خود اپنا مؤقف زیادہ صراحت کے ساتھ بیان کرنے کے ساتھ سابق وزیر اعظم شوکت عزیز کو بھی اپنے حق میں بیان کے لیے تیار کرنا ہو گا۔ اس صورت حال میں ملزم کا مؤقف نہ سنے جانے کی شکایت دور ہو سکتی ہے۔ عدالت نے کسی شخص کی غیر حاضری میں مقدمہ چلانے کی نظیر قائم کی ہے حالانکہ قبل ازیں سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار اور میاں نواز شریف کے بیٹوں حسین اور حسن نواز پر مقدمہ کی سماعت اس بنا پر روکی جا چکی ہے کہ وہ ملک میں موجود نہیں۔ اس فیصلے کا دوسرا توجہ طلب پہلو یہ ہے کہ یہ فرد واحد کے خلاف چلایا گیا۔ معاملے کے سہولت کاروں اور شریک جرم قرار دیئے جانے والوں کو شامل نہ کیا گیا۔ سب سے اہم بات کہ یہ فیصلہ ایسے وقت آیا جب حاضر سروس آرمی چیف کے متعلق سپریم کورٹ کا فیصلہ آئے ابھی ایک روز ہوا تھا۔ خدشہ ہے کہ اس سے کوئی ایسا مطلب نہ لیا جائے جو اداروں میں کشمکش کا سبب بنے۔ پاکستان کے بہت سے داخلی مسائل کا تعلق آئین سے انحراف سے جڑا ہوا ہے۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے، انتظامی و سیاسی ادارے اگر آئین میں طے کیے گئے اصولوں کے پابند ہونا سیکھ لیں تو ملک میں سیاسی و معاشی استحکام لایا جا سکتا ہے۔ جنرل پرویز مشرف سے قبل اعلیٰ عدلیہ جنرل یحییٰ کو غاصب قرار دے چکی ہے تا ہم وہ فیصلہ جنرل یحییٰ کی رخصتی کے بعد آیا تھا اس لیے اس کا فائدہ سقوط مشرقی پاکستان کے دکھ کے ساتھ بے اثر ہو گیا۔ امید کی جانی چاہیے کہ آئین کی خلاف ورزی پر عدلیہ اور دیگر اداروں کا عزم برقرار رہے گا اور ملک قاعدے قانون کے مطابق چلانے کی روایت مضبوط کرنے کے لیے پارلیمنٹ اپنا کردار زیادہ بہتر بنانے پر توجہ دے گی۔