سنا تھا کہ وہ آئیں گے انجمن میں سنا تھا کہ ان سے ملاقات ہو گی۔ ہمیں کیا پتہ تھا‘ ہمیں کیا خبر تھی‘ نہ یہ بات ہو گی نہ وہ بات ہو گی۔کرائے کے دانشور‘ بھاڑے کے تجزیہ کار‘ بہت دنوں سے بلکہ جب سے الیکشن کمیشن نے ممنوعہ رقوم کا فیصلہ سنایا‘ تب سے خود کو سہارا‘ نواز شریف کو تسلی‘ جعلی حکومت کو خوشخبری دے رہے تھے کہ اس مزاحیہ فیصلے کے نتیجے میں عنقریب عمران خاں نااہل ہو کر نواز شریف کے برابر کھڑے ہونے والے ہیں‘ مگر نواز شریف اس بات سے خوش کیسے ہو سکتے تھے کہ حکومت کی لوٹ ان بھائی کے ہاتھ لگے اور وہ دور بیٹھے عمران خاں کی نااہلی پر خوش ہوتے رہیں‘ چنانچہ نواز شریف کے ماتھے پر بل دیکھ کر انہوں نے اپنے لکھے مضامین کے حاشیے میں کچھ اضافہ کر کے یوں بنا دیا کہ‘ جب عمران خاں کو بھی حکومت سازی کے لئے نااہل اور ناکارہ بنا کر نواز شریف کے برابر کر دیا جائے گا‘ پھر اسٹیبلشمنٹ بروئے کار آئے گی اور دونوں کے اتفاق رائے سے نئی قانون سازی کر کے انہیں پھر سے اہل بنا دیا جائے گا‘ اس حاشیے میں جہانگیر ترین کے لئے سامان راحت فراہم کر دیا گیا تھا یہ فسانہ جس نے بھی لکھ بھیجا وہ کوئی زیادہ ذہین نہیں تھا‘ کیا عمران خاں کو نااہل کرنا‘ ٹی وی چینل کے بند کرنے جیسا ہے کہ وزارت داخلہ کے ایک نوٹیفکیشن سے اس کا لائسنس منسوخ ہو جائے گا‘ حالانکہ وہ نوٹیفکیشن بھی بصد سامان رسوائی واپس لینا پڑے گا۔ فسانے میں حقیقت کا رنگ بھرنے کے لئے نظر کا ایک زاویہ ادھر کو تھا‘ کدھر کو؟ جہاں سے ایک دفعہ ٹھنڈی اور مربوط ہوا کے جھونکے نے پی ڈی ایم کی خشک کھیتی کو ہرا بھرا کر دیا تھا یہ الگ بات مرطوب ہوا بھی ان کی کھیتی میں برگ و بار نہ لاسکی‘ ان بے چاروں کے مرجھائے چہروں پر یوست کے سائے گہرے اور گہرے ہوئے جاتے ہیں‘ ادھر کے اشارے‘ خلائی مخلوق کے سہارے کس کام کے‘ خلائق مخلوق کی اپنی سانسیں اکھڑنے کو ہے‘انہیں تھوڑی اور آسان زندگی کے لئے پرویز الٰہی کی ضرورت پڑنے والی ہے‘ نواز شریف واپس آنے کا ہے نہ ہی عمران خاں نااہل ہونے والا ہے‘ نااہلی ‘ اس میں راہ دوچار بہت سخت مقام آتے ہیں… البتہ ایک اور بات کہے دیتا ہوں‘ سنبھال رکھئے کام آئے گی۔ یہ کہ وزیر اعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی کی ضرورت اور اہمیت روز بروز بڑھتی جائے گی‘ شجاعت حسین اور پرویز الٰہی دونوں مل کر ایک یونٹ بنتے تھے‘ شجاعت حسین کی سرد مہری اور بیماری کی وجہ سے پرویز الٰہی کا بیٹا‘ باپ کے ساتھ جڑ گیا نتیجہ یہ کہ یونٹ مکمل ہو گیا‘ شجاعت حسین اکیلا پڑنے سے عضو معطل بن گئے‘ بھائی بھی ساتھ چھوڑ گیا‘ بیٹے‘ طارق بشیر چیمہ کے بہکاوے میں راہ بھٹک کر اپنا سیاسی مستقبل گنوا بیٹھے‘ ہاں تو بات ہو رہی تھی وزیر اعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی کی اہمیت دوچند ہونے کی‘ پہلی بات یہ کہ وہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ ہیں‘ سارے ملک کا 62فیصد وسائل‘ آبادی‘ انتظامیہ پر مکمل کنٹرول‘ اس کے بغیر مرکز محض عضوِ معطل ہے‘ مرکز کے ہر وزیر کو ایک خوف دامن گیر ہے‘ سب بھاگ کے اسلام آباد میں پناہ گزین ہیں۔نواز شریف کی واپسی میں بہت سی رکاوٹیں رہی ہوں گی لیکن پرویز الٰہی کی وزارت اعلیٰ سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔نواز شریف کی واپسی سے زیادہ مریم نواز کے نکل کر لندن پہنچنے کے امکانات زیادہ ہیں‘ اگر شہباز شریف اپنے ساتھ جہاز میں بٹھا کر لندن چھوڑ آئیں، جس طرح وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اسحق ڈار کے لئے نکل بھاگنے کا وسیلہ بنے تھے۔پرویز الٰہی جاٹ ہیں گجرات کے‘ گزشتہ چند برس سے سب سے طاقت ور ‘ پاور بروکر‘ کچھ بے اثر ہونے لگا ہے‘ لاہور‘ برادری‘ علاقے کی قربت‘ پرانی شناسائی اور چودھریوں کا اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بہت پرانا اور بھروسے کا تعلق ہے‘ یہی نہیں امریکہ کیساتھ بھی ۔ امریکی سینیٹر جو آج کل امریکہ کے صدر بھی ہیں‘ ان کے گھر میں بیٹھ کر بے نظیر بھٹو کی خاطر برضا و رغبت الیکشن ہار جانے کی بات بھی سہولت سے کر سکتے ہیں ۔وہ بات جو پاکستان کے صدر مشرف کہتے ہوئے شرماتے تھے وہ ’’جوبائیڈن‘‘ نے کہہ دی‘ اس کی تفصیل گزشتہ دنوں ایک انٹرویو میں پرویز الٰہی خود بیان کر چکے ہیں‘ عمران خاں اس وقت کم از کم 70فیصد عوام کی نمائندگی کرتے ہیں مستقبل قریب میں ان کی مقبولیت میں زوال کے کوئی آثار نہیں ہیں‘عمران خاں اپنی شعلہ بیانی اور مقبولیت سمیت پرویز الٰہی کی پشت پر ہیں‘ اس طرح ان کی بیٹے اورچچیرے بھائی وجاہت سمیت سب کا سیاسی مستقبل بھی محفوظ ہے۔وہ جن کی طاقت اور اہمیت تیزی سے کم ہو رہی ہے‘ ان کی بے چینی بڑھتی جا رہی ہے ’’سائفر‘‘ یعنی امریکہ سے آئی سفارتی دستاویزات پر سپریم کورٹ کی خاموشی ہر وقت بے قرار رکھتی ہے‘ انہیں اس کا کوئی حل چاہیے اور امریکنوں کو پاکستان کی مقبول ترین قیادت سے تعلقات بحال کرنا ہے کہ there is no exit from pkچنانچہ سب کو ایک قابل اعتماد سہارا چاہیے جو پردہ بھی رکھے اور عمران خاں تک پہنچنے اور اسے منانے میں ان کی مدد کرے‘ چند دنوں کی وزارت اعلیٰ میں امریکی سفارت کاروں کا ایک پھیرا تو لگ ہی چکا ہے اور دیکھیے‘ دیکھتے جائیے ‘ کون کون درِ دولت پر حاضر ہوتا ہے‘ حاضری دیتا ہے‘ پرویز الٰہی اسٹیبلشمنٹ اور امریکیوں کے لئے کارآمد ہونگے لیکن ان کا کارآمد ہونا نواز شریف‘ شہباز شریف اور پی ڈی ایم کے لئے بھاری پڑنے والا ہے۔رہ گئے سیاسی یتیم تو انہیں بھی اپنی ’’پنڈ‘‘ چھڑانا ہے‘ اس میں پرویز الٰہی ان کے لئے کارآمد نہیں ہو سکتے الٹا ڈرائونا خواب ہے۔اگر عمران خاں نے جلد الیکشن کروانے کی رٹ چھوڑ کر نومبر تک خاموشی اختیار کر لی اور صوبائی اسمبلیوں کو برقرار رکھ کر نومبر کے بعد قومی اسمبلی پر دبائو بڑھایا تو سب کے چھکے چھوٹ جائیں گے۔بڑی مصیبت یہ ہے کہ اس وقت ملک میں کوئی شخصیت نہیں جو متحارب گروہوں کے درمیان مصالحتی کردار ادا کر سکے حتیٰ کہ وہ ادارے کبھی موثر طور پر یہ کام کر سکتے تھے‘ شریفوں کے ساتھ پارٹی بن جانے اور امریکیوں کی سہولت کاری کے الزام کی وجہ سے کچھ بھی کرنے سے قاصر ہیں‘ سیاستدانوں کے درمیان بات چیت کا ڈول ڈالنے کے لئے صدر پاکستان عارف علوی کی پیش کش قبول کرنا ہو گی‘ اگرچہ عارف علوی‘ عمران خاں کے دوست اور تحریک انصاف کے کارکن رہے ہیں پھر بھی نقطہ آغاز ضرور بن سکتے ہیں اس کے علاوہ غیر سیاستدانوں میں اگر کسی پرنظر پڑتی ہے تو وہ معروف صحافی‘ دانشور اور تجزیہ کار ’’مجیب الرحمن شامی‘‘ ہو سکتے ہیں‘ اگرچہ ان کے ہاں بھی وہی خرابی ہے جو علوی صاحب کے ساتھ لگی ہوئی ہے کہ وہ عمران خاں قبیلے کے ساتھ ہیں تو یہی خرابی شامی صاحب کے ساتھ ہے کہ وہ نواز شریف گروپ کے غیر مشروط دوست‘ حامی اور مددگار ہیں لیکن ان میں ایک بڑی خوبی یہ بھی ہے کہ وہ بے دھڑک اور بڑی بے تکلفی کے ساتھ عمران خاں سے بھی بات کہہ سکتے ہیں اور ضرورت پڑنے پر نواز شریف کی سرزنش کر گزرنے کی جرأت بھی کر لیتے ہیں‘ اگر ان کے ہاتھ میں انصاف کا ترازو تھما دیا جائے تو پھر ’’ڈنڈی‘‘ نہیں مارتے ‘ عین پورا پورا تول دیں گے‘ یہ ضرور ہے کہ راز‘ راز نہیں رہے گا‘ سیاست کی دنیا میں راز ہے بھی کیا‘ سب کھلی کتابیں ہیں‘ ایک اور غیر سیاسی شخصیت جو بروئے کار آ سکتی ہے‘ وہ ہیں ’’اخوت کے جناب ڈاکٹر امجد ثاقب‘‘ وہ بھی بھروسے کی شخصیت اور جناب کے دیکھے بھالے ہیں لیکن شامی صاحب کی بے دھڑک دبنگ اور بے تکلف نہیں ہیں وہ انصاف کر سکتے ہیں‘ شامی صاحب کی طرح دلائل کے انبار نہیں لگا سکیں گے!