پروین عاطف اور فہمیدہ ریاض دونوں ایک دوسرے کے آگے پیچھے ہی عدم کے سفر کو چل دیں۔ چند دن پہلے پروین عاطف کے جانے کی خبر آئی۔ میں ابھی سوچ رہی تھی کہ ان کے حوالے سے اپنے تاثرات لکھوں کہ چند دوسرے موضوعات اس طرف در آئے کہ کالم حالات حاضرہ کی نذر ہو گیا۔فہمیدہ ریاض کے جانے کی خبر تو آج ہی آئی ہے۔ دونوں خواتین پروگریسو‘ لیفٹیسٹ نظریات کی حامل تھیں۔ معاشرے کے مروجہ رسم و رواج اور طور طریقوں سے بغاوت کا عنصر دونوں کی طبیعت میں موجود تھا۔ لیکن اظہار رائے کے لیے پروین عاطف نے نثر کو چنا اور فہمیدہ ریاض نے شعر کو اپنا اوڑھنا ’ بچھونا بنایا۔ ہمارے گھر میں پروین عاطف کی موجودگی دو کتابوں کی صورت میں ہے۔ ’’پہلی ٹپرواسنی‘‘ جو انہوں نے آنٹی افضل توصیف کو خود دی تھی اور دوسری افسانوں کا مجموعہ’’گاڈ تسی گریٹ او‘‘ جو پروین عاطف نے مجھے بطور خاص دی۔ میرا نام لکھ کر نیک خواہشات کے ساتھ، وہ آنٹی افضل توصیف کی دوست بھی تھیں۔ اور سماج کی بہتری کے حوالے سے دونوں ایک دوسرے کے نظریات کی شریک کار بھی۔ اس لیے جب بھی ملتی خوب گاڑھی چھنتی۔ انہیں یہ خبر بھی نہ تھی کہ افضل توصیف نے اپنی خاکوں کی کتاب’’کیا زمانے تھے کیا لوگ تھے‘‘ میں ان پر بھی ایک خوب صورت خاکہ تحریر کیا ہے۔ آنٹی توصیف کی خواہش تھی کہ وہ اپنی سہیلی کو یہ کتاب خود دیں لیکن پھر ان کی بگڑتی ہوئی صحت نے اتنی اجازت نہ دی۔ سو ان کی اس خواہش کے احترام میں نوید اور میں پروین عاطف صاحبہ سے ملنے ان کے گھرگئے ان دنوں وہ اپنے بیٹے کے ساتھ عسکری ٹین میں رہائش پذیر تھیں بیمار تھیں۔ بہت کمزور۔ لیکن بہت محبت سے ملیں دیر تک باتیں کرتی رہیں۔ زندگی کے بارے میں اس وقت بھی بہت مثبت اور پر امید لگیں۔ کہتی ہیں مٹھی بھر گولیاں روز پھانکتی ہوں پھر بھی ہر روز شکر کرتی ہوں کہ رب نے مجھے ایک اور نیا دن دیکھنا نصیب کیا۔ کمزوری اور بیماری کے باوجود اپنی سوانح حیات لکھ رہی تھیں۔ اپنے بیٹے اور بہو سے ملواتے ہوئے کہنے لگیں’’یہ میرے امی ابو ہیں‘‘ پھر خود ہی ہنستے ہوئے کہنے لگیں کہ ظاہر ہے اس عمر میں یہ میرا جس محبت اور پیار سے خیال رکھتے ہیں وہ تو والدین ہی بچے کا رکھ سکتے ہیں‘‘ ان کی اس بات سے ان کے بیٹے اور بہو کی سعادت مندی کا اندازہ ہوا۔ وہ اپنی زندگی کو اپنی سوچ اور نظریات کے مطابق بہترین انداز میں گزار کر اپنے رب کے حضور حاضر ہو گئی ہیں۔ اللہ کریم ان کی مغفرت کرے۔ فہمیدہ ریاض کے بارے میں کسی کو خبر نہ تھی کہ وہ لاہور میں اپنی بیٹی کے پاس زندگی کے آخری دن گزار رہی ہیں۔ یہ خبر ان کے مرنے کے بعد آئی تو سب کو حیرت ہوئی کہ ہم اس بات سے کیسے بے خبر رہے۔ فہمیدہ ریاض سے میری پہلی ملاقات کرشن چندر کی صد سالہ تقریبات کے سلسلے میں منعقدہ ایک سیمینار میں ہوئی۔ وہ فاطمہ حسن کے ہمراہ کراچی سے لاہور آئی تھیں ظاہر ہے میرے جیسا ادب اور صحافت میں نو آموز انہیں بہت چاہ سے ملا اور بتایا کہ میں شعر کہتی ہوں نظمیں لکھتی ہوں۔ بڑی محبت سے غلافی آنکھوں والی فہمیدہ ریاض نے مجھے اپنے گلے لگایا اور کہا ’’ہمیں اور کیا چاہیے کہ ہماری لڑکیاں نظمیں لکھیں اپنی ذات کا اظہار کریں‘‘ اس ایک جملے سے ان کی زندگی کا نظریہ آشکار ہوتا ہے۔ ذات کا اظہار اور کھل کر ہر قسم کے دبائو‘ رکاوٹ سے بالاتر ہو کر۔ خواہ رسموں رواجوں اور معاشرے کے طے شدہ اقدار پر کہیں زد بھی پڑتی ہو۔ ساری زندگی وہ اسی پر کار بند رہیں۔ضیاء کے مارشل لاء میں بھی نہ دبی نہ جھکیں۔ اپنے مصنف اور سیاسی ورکر شوہر ظفر علی کے ساتھ مل کر طاقت وروں کو للکارنے والا میگزین نکال ڈالا۔ ظاہر ہے پھر زیر عتاب رہیں۔ جلا وطن ہونا پڑا۔ سات سالہ بن باس بھارت میں کاٹا۔ اور وہاں کی پردھان مصنفہ امرتا پریتم کی آشیر باد حاصل رہی۔ سات برس کے بعد واپسی ہوئی تو بھٹو کی بیٹی بے نظیر کی دعوت ولیمہ کے روز۔ بے نظیر کے دور حکومت میں ٹی وی پر بھی آتی رہیں ان کی نظموں کی ڈکشن‘ خیال‘ استعارے اور تشبہیں بہت بولڈ ہیں۔ کچھ حلقوں کی جانب سے تنقید کا سامنا بھی کیا لیکن جی داری سے زندگی جی۔ ہاں ایک دکھ نے اس مضبوط اور جی دار تخلیق کار کو ریزہ ریزہ کر دیا۔ جب ان کا جواں سال اکلوتا بیٹا کبیر امریکہ میں پکنک کے دوران ڈوب گیا۔ اس کی عمر صرف 27برس تھی۔ وہ اپنی تعلیم مکمل کر کے وطن واپس آنے والا تھا اور ہر ماں کی طرح فہمیدہ ریاض بھی اپنے بیٹے کے سر پر سہرا سجانے کا خواب آنکھوں میں سجائے بیٹھی تھیں کہ تقدیر کا ایسا الٹا پھیر ہوا کہ اکیلی اپنے بیٹے کی میت وصول کرنے امریکہ گئیں اور اپنے ہاتھوں اپنے خواب دفنا دیے۔ اکتوبر 2007ء میں یہ المیہ ہوا پھر اس کے بعد وہ ٹوٹ پھوٹ گئیں۔ چند سال پیشتر معروف شاعرہ خالدہ انور کو کراچی ایئر پورٹ پر ملیں تو اپنے مرحوم بیٹے کبیر کا ذکر کر کے انتہائی رنجیدہ ہو گئیں پھر بولیں کہ کوئی اور بات کرو۔ اس دکھ پر مجھ سے بات نہیں ہوتی: بدن دریدہ کیا تم پورا چاند نہ دیکھو گے سب لعل و گہر ‘ یہ خانہ آب و گل‘ آدمی کی زندگی ان کی چند کتابوں کے نام ہیں۔اردو شاعری کے سفر میں فہمیدہ ریاض ایک الگ باب کا نام ہے۔ ان کی جرات‘ بے باکی‘ بہادری اور جی داری۔ صرف ان ہی کا خاصہ ہے۔ پروین عاطف اور فہمیدہ ریاض۔ دو تخلیق کار۔ آگے پیچھے ہی سفر کے اگلے پڑائو پر روانہ ہو گئیں۔ رب ان کے ساتھ رحمت اور کرم کا معاملہ کرے۔آمین