مجھے کسی بزرگ نے مشورہ دیا تھا کہ اپنے کالموں میں کتابوں پر تبصروں کا سلسلہ کبھی شروع نہ کرنا۔ ایسا کیا تو اس دلدل میں دھنس جائو گے اور اس سے نکل نہ پائو گے۔ ہر کوئی کتاب لئے کھڑا ہو گا اور تم مروت دکھائو گے تو اپنے ساتھ بہت ظلم کرو گے۔ پر کیا کروں‘ کچھ کتابیں ایسی ہوتی ہیں جن پر بات کرنا کتابوں کے تبصرے کے ذیل میں آتا ہی نہیں‘ ان کے ساتھ تو بہت کچھ وابستہ ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر الطاف حسن قریشی پر برادرم طاہر مسعود کی مرتب کردہ کتاب پر بات کرنا میرے لئے فرض عین کا درجہ رکھتا ہے۔ اس میں تاخیر ہو رہی ہے تو اس کی وجہ کچھ اور ہے۔ اس طرح خورشید ندیم کی کتاب متبادل بیانیہ کی میں رسید تو دے چکا ہوں مگر اس پر جو مفصل گفتگو کرنا چاہتا ہوں۔ وہ سیل سیاست کی روانی کی وجہ سے موخر ہوتی جا رہی ہے۔ اب میں ان کتابوں سے ہٹ کر ایک اور کتاب کا جو تذکرہ کرنا چاہتا ہوں تو اس میں مری ایک کمزوری کا دخل ہے اور وہ یہ کہ اس کے ساتھ یادداشتوں کا ایک ایسا سلسلہ ہے جو گویا مرا ’’ہم عصر‘‘ ہے ۔مجھے یاد ہیں 73ء کے وہ دن جب میں پہلے پہل کراچی میں اترا تھا۔ ان دنوں وہاں ایک نوجوان کا چرچا تھا جس کے بارے میں سمجھ نہیں آتا تھا کہ بڑی بڑی شخصیتوں سے اس کا یارانہ کیسے ہو سکتا ہے۔ پنجاب ہی میں نہیں پورے پاکستان میں ان دنوں آغا شورش کشمیری کا طوطی بولتا تھا۔ خطابت اور صحافت میں وہ ایک دبستان تھے اور یہ نوجوان نہ صرف ان کا چہیتا تھا بلکہ کراچی میں ان کے ہفت روزہ ’’چٹان‘‘ کا نمائندہ بھی تھا۔ اس کے نام کے بارے میں بھی ایک لطیفہ ذرا لائٹ موڈ میں سن لیجیے۔ جون بھائی (جون ایلیا) گاہے گاہے ذرا بلند آواز میں مجھ پر ایک فقرہ لگاتے تھے ۔ کہتے تھے سجاد میر‘ کیا زنجیروں کا ماتم کرتا ہوا نام ہے۔ پر ہے سنّی۔ ان دنوں کی فضا میں اس طرح کی باتیں ہنس ہنس کر عام ہو جایا کرتی تھیں۔ جن صاحب کا میں تعارف کرانا چاہتا ہوں۔ ان کے نام میں بھی ایک اس طرح کی عجیب سی بات ہے۔ ایک زنجیروں میں جکڑا ہوا دوستانہ نظر آتا ہے۔ جلیس سلاسل۔ ہے نا مزے کا نام۔ یہ اب 45سال پرانی بات ہو گئی ہے جب میں اس نوجوان سے ملا تھا اور ابھی گزشتہ ہفتے جب وہ مجھے لاہور ملنے آیا تو ویسے کا ویسا تھا۔ شکل و شباہت ہی میں نہیں ‘ گفتار و کردار و انداز میں بھی۔ اس نے مجھے اپنی تازہ کتاب دی۔ معماران جلیس یعنی ان لوگوں کا تذکرہ جنہوں نے ان کی شخصیت کی تعمیر میں حصہ لیا۔ میں نے ایک رات ہی میں یہ کتاب پڑھ ڈالی۔ شاید اس لئے کہ اس میں وہ سب کچھ ہے جس سے میں بھی گزرا ہوں۔ ڈاکٹر اشتیاق حسن قریشی‘ سید ابوالاعلیٰ مودودی‘ آغا شورش کشمیری کے انٹرویو۔ تاریخ کے کئی ورق کھل جاتے ہیں۔ پھر جنرل غلام عمر‘ شریف الدین پیرزادہ‘ سلیم احمد سے مکالموں کے علاوہ عبدالکریم عابد اور علامہ عبدالقدوس ہاشمی سے گفتگوئیں۔ یہ ایک عجیب بات ہے۔ یہ جس سے انٹرویو کرتا‘ اس سے پہلے دوستانہ اور یارانہ کر لیتا۔ آغا شورش کشمیری کو چھوڑ دیجیے۔ ڈاکٹر اشتیاق قریشی کراچی یونیورسٹی کے وائس چانسلر تھے اس سے پہلے پاکستان کی دفاعی کابینہ میں وزیر بھی رہ چکے تھے۔ پاکستان کے صف اول کے مورخ تھے۔ جلیس سلاسل ایک طالب علم تھے۔ اب تو لوگ تاریخ بولتے جا رہے ہیں۔ جلیل سلاسل نے تو کتاب کا نام معماران جلیس رکھا ہے۔ مگر یہ وہ لوگ تھے جو معماران پاکستان تھے۔ جب پاکستان بنا اور کراچی یونیورسٹی کا قیام عمل آیا تو برصغیر کے منتخب لوگ اس کی تعمیر کے لئے سرگرم ہو گئے۔ ڈاکٹر ابوبکر احمد حلیم(جنہیں اباحلیم کہا جاتا تھا) ڈاکٹر محمود حسین(جو بھارت کے صدر ڈاکٹر ذاکر حسین کے بھائی تھے کے بعد ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی یہاں کے وائس چانسلر بنے۔ ان کی نظر میں اسلامیان ہند کی یہ روایت تھی کہ تعلیم کے ساتھ تربیت بھی اہم ہوتی ہے۔ درسگاہ کا کام اپنی تہذیبی روایات کو آئندہ نسل تک منتقل کرنا ہے۔ ڈاکٹر قریشی ان لوگوں میں سے ہیں جنہوں نے نظریہ پاکستان کا پرچم علمی سطح پر بلند کیا اور اس بات کا ڈٹ کر اعلان کیا کہ ہم اپنی درسگاہوں کے ذریعے کمیونزم کی روایات کو آگے نہ آنے دیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھٹو صاحب کا چرچا ہوا تو انہوں نے جوش خطابت میں ڈاکٹر صاحب کے بارے میں بڑا ہی گستاخانہ جملہ کہا۔ اس زمانے کی نظریاتی کشمکش کو آپ ڈاکٹر قریشی کو سمجھے بغیر سمجھ نہیں سکتے۔ یہ اس وقت وفاقی کابینہ میں شامل تھے جب قرار داد مقاصد پاس ہوئی مجھے یاد ہے کہ ان دنوں میں نے بھی ڈاکٹر صاحب کا ایک تفصیلی انٹرویو کیا جس میں اس قرار داد کی منظوری کی داستان پوچھی تھی۔ ڈاکٹر صاحب نے جو جواب دیا تھا‘ میرا خیال ہے کہ اس قدر بے تکلفی سے ڈاکٹر صاحب نے اسے پہلی بار میرے ساتھ ہی بیان کیا ہے۔ جلیس سلاسل نے میرے سوااور اس کے جواب میں جو ڈاکٹر صاحب نے بیان کیا۔ اسے تفصیل سے نقل کیا ہے۔ ذرا آپ بھی ملاحظہ فرمائیں کہ قرار داد مقاصد کیسے پاس ہوئی۔ پاکستان کا یہ عظیم مورخ بیان کرتا ہے: ’’اسمبلی میں آنے سے پہلے اس قرار داد پر پارٹی میٹنگ میں بحث ہوئی تھی۔ میں آپ کو اس کی روداد سناتا ہوں۔ اس کام کے لئے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی جس کے ارکان میں مولانا شبیر احمد عثمانی‘ سر ظفر اللہ خاں‘ غلام محمد اور میں بھی شامل تھے۔ غلام محمد سیکولر ذہن رکھتے تھے(یہاں مجھے یاد ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے مجھے یہ بھی بتایا تھا کہ غلام محمد اور ان کے ساتھ جو قرار داد لے کر آئے تھے وہ بھارت کی قرار داد مقاصد کا بالکل چربہ تھا۔ غالباً وہ قرار داد تھی جو تقسیم سے پہلے ہی پاس ہوئی تھی اس انٹرویو میں اس کا تذکرہ نہیں۔ غالباً ڈاکٹر صاحب نے احتیاطاً ایسا کرنے سے روک دیا تھا) بحث کے دوران غلام محمد نے کوئی ایسی بات کہی جس کی دلیل شرعی تھی۔ میں نے اس پر ٹکڑا لگایا۔ جیسا کہ ابھی مولانا غلام محمد نے فرمایا ہے۔ عثمانی صاحب برجستہ بولے ’’ڈاکٹر صاحب آپ انہیں مولانا کہتے ہیں تو مجھے مسٹر کہے۔ دونوں نقطہ ہائے نظر میں بڑا اختلاف تھا۔ غلام محمد ایک مرتبہ جوش میں یہاں تک کہہ گئے کہ یہ مولوی صاحبان وزیر بننا چاہتے ہیں۔ مولانا عثمانی نے فوراً بڑا مناسب جواب دیا۔ مولوی یہ نہیں چاہتے کہ وہ وزیر نہیں‘ مگر یہ ضرور چاہتے ہیں کہ وزیر مولوی نہیں‘‘ خیر بہت ردو کد کے بعد مجھے فخر ہے کہ غلام محمد اور مولانا عثمانی دونوں کے نقطہ ہائے نظر میں یگانگت پیدا کرنے میں میری مساعی کا بہت دخل تھا۔ بات خودستائی تک آ پہنچی ہے۔ بہرحال بتائے دیتا ہوں کہ وہیں میں نے قرار داد کا مسودہ تیار کیا جس پر اتفاق رائے ہو گیا‘‘ یہ بہت اہم بات ہے کہ قرار داد مقاصد کا مسودہ کیسے تیار ہوا اور کس نے لکھا۔ مگر اس کے بعد ایک اور اہم بات ہوئی جسے ڈاکٹر صاحب نے یوں بیان کیا: ’’اس کے بعد واقعہ کچھ یوں ہوا کہ ہمارے محکمہ اطلاعات نے اس کا ترجمہ کیا جو درست نہ تھا قانونی نکات اس ترجمے میں مسخ ہو کر رہ گئے تھے۔ میں انٹیلی جنس سکول کوارٹرز میں رہتا تھا۔ دوسرے دن صبح ہی صبح نماز کے بعد مولانا شبیر احمد عثمانی‘ مولانا احتشام الحق اور غالباً مولانا ظفر احمد انصاری میرے پاس پہنچے۔ مولانا عثمانی کہنے لگے۔ اس قرار داد مقاصد میں تو ہمارے ساتھ بہت دھوکہ ہوا ہے۔ آپ نے کیا کہا تھا اور یہاں کیا لکھا ہے۔ میں نے دیکھا۔ ترجمہ غلط تھا۔ میں نے وہیں بیٹھ کر ترجمہ کیا۔ مولانا مطمئن ہو گئے۔ اس کے بعد مولانا کی کیفیت یہ ہو گئی کہ جب بھی کوئی ترجمہ پیش کیا جاتا تو وہ کہتے میں نہیں مانوں گا جب تک ڈاکٹر قریشی ترجمہ دیکھ نہیں لیتے‘‘ میں تو یہی ٹھٹھک کر رہ گیا ہوں۔وگرنہ کتاب میں اتنا کچھ ہے کہ جگہ جگہ تاریخ ٹپکتی نظر آتی ہے خاص کر آغا شورش کشمیری کے انٹرویو میں۔ دل چاہتا ہے سب کا ذکر کروں اور سب پر تبصرہ کروں۔ اس کالم میں تو اس کی گنجائش نہیں ہو سکتی۔ صرف ایک آدھ واقعہ سنا دیتا ہوں۔ یہ واقعہ جو میں یہاں بیان کر رہا ہوں‘ اس کی تفصیل کتاب میں درج ہے۔ مگر اس سے صرف نظر کرتے ہوئے میں صرف اتنا لکھ رہا ہوں کہ جلیس سلاسل کی موجودگی میں امریکہ کے فرسٹ سیکرٹری نے غفار خاں سے کہا(جو جلیس کے گھر پر ہی ٹھہرے ہوئے تھے) کہ یہ حقیقت ہے کہ مغربی پاکستان کی معیشت پر مشرقی پاکستان بوجھ ہے۔ اگر آپ اسے علیحدہ کر دیں تو مغربی پاکستان خوشحال ہو سکتا ہے اور آپ کی مدد کے بغیر یہ ممکن نہیں۔ غفار خاں نے صرف اتنا کہا اور بات ختم کر دی میں اس سلسلے میں آپ سے قطعی طور پر تعاون نہیں کر سکتا۔ کیونکہ پھر آئندہ نسلیں مجھے کبھی معاف نہیں کریں گی امریکی سیکرٹری یہ کہتے ہوئے اٹھ گئے کہ بہرحال جلد یا بدیر یہ ہوتا تو ہے۔ آپ نہیں کریں گے تو کوئی اور کر لے گا‘‘ اور بہت سی باتیں ہیں جو اس ’’جوان‘‘ نے اس کتاب میں لکھ ڈالی ہیں۔ اپنے لااوبالی مزاج کے ساتھ بڑے لوگوں کے ساتھ بے تکلف ہونے کے اس کے انداز نے بہت کچھ اکٹھا کر دیا ہے۔ میں اس وقت بہت کچھ بیان کرنا چاہتا ہوں۔ مگر اس کی گنجائش نہیں ہے۔ شاید کسی اور وقت یہ ممکن ہو سکے۔ یہ تاریخ کا خام مواد ہے جو کئی بار حیران کر دیتا ہے اسے کوئی ایسا منہ پھٹ جی دار شخص ہی بڑے بڑے جغادری لوگوں کی بے تکلف صحبت سے اخذ کر سکتا تھا۔ مجھے تو بہت کچھ یاد دلا گئی ہے یہ کتاب بعض اوقات حیران بھی کر گئی ہے۔