11دسمبر 2019ء کو جو سانحہ ہوا اس کے پس منظر کا مکمل پوسٹ مارٹم کرنے کی ضرورت ہے۔ مختصراً اس کو جاننے اور سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جو واقعہ رپورٹ ہو رہا ہے اس کے مطابق مبینہ طور پر آج سے اڑھائی تین ہفتے پہلے ایک وکیل اپنی بیمار والدہ کو پی آئی سی لے کر آیا۔ یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ آیا وہ اکیلا تھا یا اس کے ہمراہ اور بھی وکلا تھے۔ بہرحال وکیل اپنی والدہ کو لے کر آیا تو دوا لینے کے لئے ضابطے کے مطابق اس کو قطار میں کھڑا ہونا تھا جس کا اس نے انکار کر دیا۔یہیں سے اصل پھڈے کا آغاز ہوا۔ ہماری بدقسمتی کہ ہم قطار بنانے کو اپنی توہین سمجھتے ہیں اور وکیلوں کے دماغ تو ویسے ہی اس بات نے خراب کر دیے ہیں کہ وہ ہر طرح کے ضابطوں اور قوانین سے بالاتر ہیں۔ مبینہ طور پر بیمار والدہ کو پی آئی سی لانے والا وکیل اس معمولی بات پر ڈاکٹروں سے اور وہاں موجود پیرا میڈیکل سٹاف سے الجھ پڑا۔ اس وقت وکیل چونکہ ڈاکٹروں کے نرغے میں تھا تو ڈاکٹروں نے وکیل کی دھلائی کر دی۔ نہ صرف یہ بلکہ مبینہ طور پر وکیل کی مریضہ والدہ کو مناسب توجہ دینے سے جان بوجھ کر گریز کیا جس سے مریضہ کی حالت بگڑی۔ ڈاکٹروں کے خلاف کارروائی کے لئے وکیل اپنا مقدمہ لے کر گئے لیکن ان کی شنوائی نہیں ہوئی۔ اس پر ینگ ڈاکٹر ایسوسی ایشن کے ایک عہدیدار نے باقاعدہ وکیلوں کا مذاق اڑانے کی ایک ویڈیو بنائی جس میں وہ وکلا کی تضحیک کرتے ہوئے نظر آیا۔ تضحیک کی اس ویڈیو کو باقاعدہ وائر کیا گیا۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے جلتی پر تیل ڈالا جائے۔ پھر اس کے ردعمل میں سقوط انسانیت اور سقوط اخلاقیات کا جو سانحہ وقوع پذیر ہوا وہ سب کے سامنے ہے۔ اب یہاں روک کر سوچیں تو بلیک کوٹ بمقابلہ وائٹ کوٹ پھڈے کا آغاز نہایت معمولی بات پر ہوا۔ یعنی دوائیں لینے کے لئے ضابطے کی پاسداری نہ کرنا اور قطار میں کھڑا ہونے سے انکار کرنا۔ خود کو پھنے خان سمجھنا قاعدے اور اصول کی پابندی کو اپنے لئے ہتک اور توہین سمجھنا اگر تو اس کی بنیادی تربیت اس نہج پر کی گئی ہوتی کہ وہ برداشت رواداری اور ضابطوں کی پابندی کا عادی ہوتا تو پھر اس جھگڑے کا سوال ہی پیدا نہیں ہونا تھا لیکن ایسا سوچنا خام خیالی ہے کیونکہ یہ صرف ایک وکیل کا معاملہ نہیں ہمارے پورے سماج کی بیماری ہے کہ ہم میں ذرا سا کسی کے پاس اثر ورسوخ ‘ پیسہ ‘ سماجی سٹیٹس آ جائے تو پھر اصول اور قانون کو توڑنا ہم پر فرض ہو جاتا ہے۔ قطار بنانا ایک معمولی مگر انتہائی بنیادی ڈسپلن کی بات ہے مگر افسوس کہ سولہ سترہ سال کے تعلیمی سفر میں ہمیں ڈگری لینا تو سکھایا جاتا ہے لیکن کردار کو تہذیب اور اخلاقیات کے سانچے میں ڈھالا جاتا۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں اصول قانون اور ضابطے صرف بے بس لوگوں کے لئے ہیں یا پھر ان کا وجود کتابوں میں پایا جاتا ہے۔ سفارش ‘ رشوت اور اپنا اثرورسوخ استعمال کر کے قانونی ضابطوں کو روند کر۔ کام نکلوا لینا اس معاشرے کا کلچر بن چکا ہے۔جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے کلچر نے ادارے تباہ کر دیے ہیں ۔ جس معاشرے میں قانون کی عملداری ختم ہو جائے، کام ضابطوں اور اصول کی بجائے اثرورسوخ کے سر پر نکلنے لگیں وی آئی پی کا عفریت عام آدمی کو ہڑپ کرنے لگے تو پھر ایسا معاشرہ پریشر گروپوں میں ڈھلنے لگتا ہے۔ پریشر گروپ کا مطلب ہی‘ دھاندلی دھونس طاقت اور ظلم سے اپنے وجود کو منوانا ہے۔ کالا کوٹ ورسز سفید کوٹ دراصل معاشرے کے دو پریشر گروپوں کا بدترین ٹکرائو ہے۔ ہم کسی بھی صورت اس کیس کو سفید کوٹ والوں کی تہذیب سے عاری تضحیک آمیز رویوں کو فراموش نہیں کر سکتے۔ وکیلوں کی تضحیک اور مذاق اڑانے کے لئے ویڈیو بنانے والا ڈاکٹر اس کیس میں ایک ایسا فسادی ہے جو چنگاری پر پٹرول ڈالتا ہے جس کے بعد چنگاری کا بھڑک الائو بننا لازم تھا: آگ بھڑکی تو جل کے راکھ ہوئے۔! خواب ایسے بھی شہر جان میں تھے وہ ینگ ڈاکٹر ایسوسی ایشن کا اہم عہدیدار ہے اسے دیکھ کر کہیں سے لگتا ہے کہ اس کا مسیحائی سے بھی تعلق ہو گا اور مسیحائی صرف دوائیں دے کر ہی تو نہیں کی جاتی۔ یہ تو ایک رویہ ہے۔ ایک خالص اور سچا ڈاکٹر تو ہر صورت میں مسیحائی کرتاہے۔ اس ویڈیو میں وہ سفید کوٹ کے پریشر گروپ کی طاقت اور فتح کا اعلان کرتا ہے جو لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ دونوں ہی معاشرے کا پڑھا لکھا طبقہ ہیں تو ان سے میری گزارش یہ ہے کہ اب یہ ڈگری یافتہ لوگ اپنے اپنے مفاد کے لئے پریشر گروپ بن چکے ہیں۔ پریشر گروپ کا مطلب بھی یہ ہے کہ ایسا جتھہ جو معاشرے کے قانون اور اصول کو نہیں مانتا۔ کالے کوٹ والے تو عدلیہ تحریک سے ہی ایک پریشر گروپ کی صورت اختیار کر چکے تھے۔ ڈگریاں ہاتھ میں لئے ہوئے نوجوان وکیل مالی حالت جن کی پتلی ہی رہتی ہے کسی بڑے وکیل کے چیمبر میں کام کرنے لگیں تو ان کے استحصال کا شکار ہوتے ہیں کام کے بدلے میں کروڑوں کمانے والے بڑے وکیل کے چیمبر سے کچھ نہیں ملتا۔ روٹی پانی کا انتظام خود کرنا پڑتا ہے۔ ایسی مخدوش مالی حالت میں اگر یہ پریشر گروپ کا حصہ بن کر استعمال ہو جاتے ہیں تو اس میں حیرت کیسی۔؟ وکالت کبھی پڑھے لکھوں کا پیشہ سمجھا جاتا تھا مگر اب کس قماش کے لوگ وکالت میں آ گئے ہیں اس کا اندازہ سانحہ 11دسمبر سے لگانا مشکل نہیں۔المیہ تو یہ ہے کہ وکیلوں کی بدترین غنڈہ گردی کو اب بھی بار کی کئی قسم کی ایسوسی ایشنوں سے حمایت مل رہی ہے المیہ یہ ہے کہ اس سماج میں لوگ اب انسانیت اور اخلاقیات کو بھی اپنے اپنے پریشر گروپوں کی عینک سے دیکھ رہے ہیں: حادثے سے بڑا سانحہ یہ ہوا کوئی ٹھہرا نہیں حادثہ دیکھ کر یہ رجحان معاشرے کو برباد کر کے رکھ دے گا اگر اس رجحان کو نہ روکا گیا اور اخلاقی تربیت کو تعلیم کا حصہ نہ بنایا گیا تو خسارے کا یہ سفر ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑے گا۔ تہذیب اخلاقیات اور اصول کی پاسداری سکھانے کے لئے ایک سماجی تحریک برپا کرنے کی ضرورت ہے۔ اس سے پہلے کہ پورا معاشرہ پریشر گروپوں میں ڈھل کر ایک دوسرے کی گردن دبوچ لے۔ ہمیں سوچنا ہو گا کہ سماج کو کیسے تہذیب سلیقے اور انسانیت کے پیکر میں ڈھالا جائے!