دودن سے ٹیلی ویژن پہ یہ بحث ہو رہی ہے کہ جب پرویز رشید اپنے ذمے واجب الادا پیسے دینے کے لیے تیار تھے تو ان کے کاغذات مسترد کیوں کیے گئے ۔ زیادہ تراحباب بشمول سینئر تجزیہ کار اسی نکتے پر بحث کر کے یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ پرویز رشید کے ساتھ بڑی زیادتی ہو گئی۔ حیرت کی بات ہے کہ ٹربیونل کے سامنے پیش کیے جانے والے دیگر دلائل پر گفتگو کرنے کی کسی نے زحمت گوارا نہ کی جس کی بنیاد پر دراصل پرویز رشید کی اپیل مسترد ہوئی ۔ میںنے چونکہ کمرہ عدالت میں موجود رہ کر ساری کارروائی خود دیکھی اس لیے میں شاید اُن پہلوئوں پر بھی گفتگو کر سکتا ہوں جن پر تبصروں کے دوران زیادہ توجہ نہ دی گئی۔ پرویز رشید کے کاغذات مسترد ہونے کے بعد تین طرح کے بیانات سامنے آئے تھے جنہیں ٹربیونل میں دلائل کے طور پر بھی پیش کیا گیا۔ پہلا یہ کہ میرے علم میں ہی نہیں تھا میں نا دہندہ ہوں ، مجھے کوئی نوٹس نہیں بھیجا گیا۔دوسرا یہ کہ میں اب پیسے لے کر پھر رہا ہوں کوئی مجھ سے پیسے نہیں لے رہا۔ اور تیسرا یہ کہ میرے پاس تو پنجاب ہائوس میں کوئی کمرہ تھا ہی نہیں میں پھر بھی پیسے دینے کے لیے تیار ہوں ۔ پرویز رشید کے یہ تینوں دلائل عدالت میں رد ہو گئے ۔’’ میرے علم میں نہیں تھا ‘‘کے جواب میں پنجاب ہائوس کے نمائندے وسیم احمد نے عدالت میں نوٹسز دکھا دیے جو انہیں کورئیر سروس کے ذریعے بھیجے گئے تھے اور ساتھ ہی کورئیر سروس کی رسیدیں بھی دکھا دیں۔ساتھ ہی درخواست گزار کے وکیل شہزاد شوکت نے عدالت میں ثابت کر دیا کہ پرویز رشید نے ریٹرننگ آفیسر کے سامنے تسلیم کیا تھا کہ ان کے علم میں نہیں تھا کہ انہوں نے پیسے جمع کرانے تھے اور چوبیس گھنٹے کا ٹائم مانگا تھا اب ٹربیونل کے سامنے انہوں نے بیان بدل کر کہہ دیا کہ یہ پیسے تو ان کی Laibility ہی نہیں ہیںلیکن پھر بھی جمع کرانے کے لیے تیار ہیں۔ پرویز رشید کی دوسری دلیل یہ تھی کہ میں کراس چیک لے کر پھر رہا ہوں معلوم نہیں کہاں جمع کرائوں۔ درخواست گزارکے وکیل نے دلائل سے ثابت کر دیا کہ کراس چیک قانونی حیثیت نہیں رکھتا ، پے آرڈر کے ذریعے پیسے جمع کرادیے جاتے تو اسے ادائیگی تصور کیا جا سکتا تھا۔ تیسرے نکتے پر پرویز رشید کے وکلا اعظم نذیر تارڑ اور ان کے ساتھیوں نے ویسے ہی زور نہیں دیا کہ کمرہ ان کے ملکیت میں نہیں تھا صرف اتنا کہا کہ کل کو اگر ثابت ہو جاتا ہے کہ کمرہ حاصل کرنے کی دستاویزات پر کہیں ان کے دستخط موجود نہیں ہیں تو پرویز رشید کو سینیٹر نہ بننے دینے کا ازالہ کیسے ہو گا۔ یہاں تک پرویز رشید کے کیس میں کچھ نہ کچھ جان باقی تھی لیکن جب روسٹرم سعد رسول کے پاس آیا تو انہوں نے دو نکات کو زور دار طریقے سے ثابت کر کے مقدمہ جیت لیا۔ ایک تو سعد رسول نے ثابت کیا کہ یہ Concealment of Facts یعنی حقائق چھپانے کا معاملہ ہے ۔ انہوں نے کہا کہ پرویز رشید نے بیان حلفی میں لکھا کر دیا ہے کہ ان کے ذمے کوئی رقم واجب الادا نہیں ہے ، اگر مان بھی لیا جائے کہ پرویز رشید کو پنجاب ہائوس کے پیسوں کی ادائیگی سے متعلق علم نہیں تھا تو بھی ایک اور معاملے میں ان کی طرف کروڑوں روپے واجب الادا ہیں ۔ سعد رسول نے سپریم کورٹ کی عطاء الحق قاسمی کیس میں ججمنٹ کا حوالہ دیا اور کہا کہ سپریم کورٹ نے عطاء الحق قاسمی اور پرویز رشیدکو پی ٹی وی کے 19 کروڑ روپے واپس کرنے کا حکم دیا تھا ۔ انیس کروڑ کا بیس فیصد پرویز رشید نے ادا کرنا تھا جو انہوں نے ادا نہیں کیا اور بیان حلفی میں بھی نہیں بتایا کہ سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق ان کے ذمے رقم واجب الادا ہے ۔ پھر سعد رسول نے ایک قانون کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اگر کسی شخص نے بیان حلفی میں جھوٹ بول دیا ہے تو اس کے کاغذات نامزدگی جھوٹ کی بنیاد پر ہی مسترد ہو جائیں گے چاہے وہ پیسے ادا ہی کیوں نہ کر دے۔ جسٹس شاہد وحید نے عطا ء الحق قاسمی کیس سے متعلق مزید سوالات کیے جس سے اندازہ ہوا کہ وہ اس دلیل سے قائل ہوتے دکھائی دے رہے ہیں ۔ اس کے باوجود انہوں نے اعظم نذیر تارڑ کو دوبارہ روسٹرم پر بلایا حالانکہ وہ اپنے دلائل پہلے ہی مکمل کر چکے تھے۔ جسٹس شاہد وحید نے ان سے پوچھا کہ تارڑ صاحب عطاء الحق قاسمی کیس کے بارے میں آپ کچھ کہنا چاہیں گے۔ حیرت انگیز طور پر اعظم تارڑ نے اس بارے میں ایک بھی لفظ نہ کہا اور اپنے پرانے دلائل دہرا دیے۔ پرویز رشید کی درخواست مسترد ہوئی تو کمرہ عدالت میں موجود تمام سینئر وکلا کی یہی رائے تھی کہ انہیں عطاء الحق قاسمی کیس کی ججمنٹ لے بیٹھی ہے۔ باہر آ کر پرویز رشید نے اس کی وضاحت یوں کی کہ میںعطاء الحق قاسمی کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل میں ہوں اس لیے میں نے کاغذات نامزدگی میں اس بارے میں نہیں بتایا۔ اس پر بھی سینئر وکلا کی رائے تھی چونکہ سپریم کورٹ کی ججمنٹ ابھی تک برقرار ہے اس لیے کاغذات نامزدگی میں اس کا حوالہ دیا جانا ضروری تھا ۔اظہر صدیق ایڈووکیٹ کی رائے تو یہ ہے کہ پرویز رشید یہاں بھی جھوٹ بول رہے ہیں وہ اپیل میں نہیں ہیں اور ویسے بھی سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ ہی میں اپیل دو سال تک نہیں چلتی ۔ یہی وجہ ہے کہ اعظم تارڑ نے بھی ٹربیونل کے سامنے اسے دلیل کے طور پر استعمال نہیں کیا۔ پنجاب ہائوس کے نمائندے نے وہ تمام ریکارڈ عدالت میں جمع کرایا جس سے ثابت ہوتا تھا کہ کمرہ پرویزرشید کی ملکیت میں تھاجبکہ پرویز رشید کچھ بھی پیش کر کے یہ ثابت نہیں کر سکے کہ کمرہ ان کی ملکیت میں نہیں تھا۔ یوں معاملہ صرف پیسوں کی ادائیگی کا ہی نہیں جھوٹ بولنے اور حقائق چھپانے کا بھی تو تھا۔ مسئلہ یہ ہے کہ ٹی وی ٹاک شوز میں اُسی بیانیے پہ گفتگو ہوتی ہے جو سیاستدانوں کی جانب سے کیمرے پر بنایا جاتا ہے ،عدالت میں زیر بحث آنے والے نکات اور اِن کیمرہ پروسیڈنگز کا سچ کیمروں کے نیچے دب کر رہ جاتاہے۔