اپنی نااہلی اور کرپشن پر پردہ ڈالنے اور سندھی عوام میں اپنی حمایت قائم رکھنے کے لیے پیپلزپارٹی دو حربے استعمال کرتی ہے۔ ایک تو یہ شور مچاتے رہو کہ وفاق سندھ صوبہ کے وسائل پر قابض ہے ۔دوسرے‘ سرکاری ملازمتیں اپنے کارکنوں میں تقسیم کرتے رہو جسکا بوجھ پیپلزپارٹی کے وڈیروں کو نہیں بلکہ ٹیکس دینے والے عوام کو اُٹھانا ہوتاہے۔ جُوں جُوں پیپلزپارٹی کی مقبولیت کم ہورہی ہے اور اسکی صوبہ سندھ میں گزشتہ تیرہ سال کی خراب کارکردگی پر تنقید بڑھ رہی ہے‘ پارٹی کے رہنماعلاقائی تعصبات کو زیادہ سے زیادہ ہَوا دے رہے ہیں تاکہ اپنی سیاست کو بچا سکیں۔ کبھی دریائی پانی کی قلّت کا الزام وفاق اوربالواسطہ پنجاب پر لگایا جاتا ہے۔کبھی مالی وسائل سے محرومی کاگمراہ کُن نعرہ بلند کیا جاتا ہے۔ اگلے روز ہی پیپلزپارٹی کے بزرگ رہنما نثار کھوڑو فرما رہے تھے کہ ’سندھ کے گیس اور تیل کے ذخائر پر قبضہ کیا ہوا ہے۔‘ گویا سندھ پاکستان سے الگ کوئی ملک ہے اور پاکستان کی ریاست نے اسکے وسائل پر قبضہ کرلیا ہے۔ نثار کھوڑو اپنے لوگوں کو یہ نہیں بتاتے کہ سندھ سے نکلنے والی گیس اور تیل کی خطیر رائلٹی بھی آئین کے مطابق اس صوبہ کو ملتی ہے ۔پاکستان کی مجموعی آمدن میںدیہی سندھ کے محاصل کا حصّہ ایک فیصد بھی نہیں۔سندھ سے وفاقی حکومت کو جو آمدن ہوتی ہے وہ کراچی شہر سے ہوتی ہے جہاں اُردو بولنے والوں کے ساتھ ساتھ پنجاب‘ خیبر پختونخواہ‘ بلوچستان کے لوگوں نے بھی سرمایہ کاری کی ہوئی ہے لیکن اس شہر کا جو حال پیپلزپارٹی نے کیاہے ساری دنیا کے سامنے ہے۔ کچھ عرصہ پہلے تک علاقائی جماعتوں کا مطالبہ تھا کہ صوبائی خود مختاری دی جائے۔ اٹھارویںآئینی ترمیم کے تحت صوبوں کو بہت زیادہ خود مختاری دے دی گئی جو کنفیڈریشن کی حدوں کو چھوتی ہے لیکن بات یہاں رُکی نہیں۔ علاقائی لیڈروں کے مطالبات مزید بڑھ گئے ہیں۔ اب وہ اس لب و لہجہ میں بات کررہے ہیں جیسے اُنکے صوبے الگ ملک کی طرح ہیں۔ سندھی عوام میں منفی علاقائی تعصبات اُبھارنے کے لیے پیپلزپارٹی نے دریائی پانی کی کمی پر ایک جُھوٹا بیانیہ پھیلانا شرع کیا ہوا ہے۔ جب قدرتی وجوہ کی بنا پر دریاؤں میںپانی کم آتا ہے پیپلزپارٹی کے بڑے بڑے لیڈر بمع پارٹی سربراہ بلاول بھٹو زرداری اور وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ وفاق پر پانی چوری کرنے اورسندھ کو پانی سے محروم کردینے کے الزمات لگانا شروع کردیتے ہیں۔کھُل کر پنجاب کا نام نہیں لیتے لیکن انکے بیانات کا واضح مطلب یہی ہوتا ہے کہ پنجاب کے کھیتوںمیں سندھ کا پانی استعمال کیا جارہا ہے۔اسی بنیاد پر وہ سندھی عوام کے جذبات کو اُبھارتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جب بھی دریاؤں میں پانی کی قلّت ہوتی ہے تو پنجاب کے حصّہ کا نہری پانی بھی اتنا کم ہوجاتا ہے جتنا سندھ کی نہروںکا۔ دریائے سندھ گلگت بلتستان‘ خیبر پختونخواہ اور پنجاب سے گزر کر سندھ پہنچتا ہے۔ یہ دریا جہاں جہاں سے گزرتا ہے ان سب علاقوں کے رہنے والوں کا اسکے پانی پر حق ہے۔ پیپلزپارٹی کے لیڈراپنے عوام کو یہ تاثر دیتے ہیں جیسے اس دریا کے پانی کا ہر قطرہ صوبہ سندھ کے لیے وقف ہونا چاہیے۔ کسی اور صوبے کو اسکا پانی استعمال کرنے کا حق نہیں۔کوئی معقول آدمی اِس موقف کی تائید نہیں کرسکتا۔نہ دنیا کے کسی اور خطّہ میںایسا ہوتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جب سندھ کے کاشتکاروں کو پانی کی ضرورت ہوتی ہے تو انہیں منگلا ڈیم سے جہلم دریا کا پانی بھی دیا جاتا ہے۔ اُس وقت کوئی وفاق یا پنجاب کی تعریف نہیں کرتا‘ شکریہ ادا نہیں کرتا۔ اپنی سیاست چمکانے کیلیے پیپلزپارٹی نے ہمیشہ سرکاری ملازمتوں اور سرکاری ملازموں کی تنخواہوں کو رشوت کے طور پر استعمال کیا ہے۔ طریقۂ کار یہ ہے کہ صوبائی حکومت سرکاری ملازمتیں میرٹ کے بغیراندرونِ سندھ کے لوگوں میں ریوڑیوں کی طرح بانٹتی ہے۔صوبائی ملازمتوں کو عملی طور پر سندھی بولنے والوں کیلیے مخصوص کردیا گیا ہے۔ اس پر مستزاد‘ جو لوگ سرکاری ملازمت میں رکھے جاتے ہیں اُنکی اکثریت مطلوبہ اہلیت سے محروم ہوتی ہے۔ لیکن یہ حکمتِ عملی طویل عرصہ تک کام نہیں کرسکتی۔ صوبہ کے بڑے شہروں میں جلد یا بدیر شدیدردّعمل ہوگا۔علاوہ ازیں‘صوبائی خزانہ کی بھی ایک حد ہے۔ جس تیزی سے آبادی بڑھ رہی ہے اندرونِ سندھ کے تمام نوجوانوں کو سرکاری کھاتہ سے روزگار مہیا نہیں کیا جاسکتا۔ انہیں علوم و فنون میںمہارت پیدا کرکے پرائیویٹ شعبہ میں جانا پڑے گا جسکے لیے اہلیت پیدا کرنی ہوگی۔ سندھ کے سرکاری دفاتر ‘ محکموں میں سیاسی بنیادوں پر ضرورت سے کہیں زیادہ لوگوں کو ملازم رکھا گیا ہے کیونکہ تنخواہوں کی رقم سیاستدانوں کی جیب سے ادا نہیں ہوتی بلکہ سرکاری خزانہ سے ادا کی جاتی ہے۔اسکا بڑا حصّہ یا تو وفاق دیتا ہے یا کراچی کے محنت کش عوام۔ یہی کام پیپلزپارٹی اُسوقت کرتی ہے جب اسے وفاقی حکومت بنانے کا موقع ملتا ہے۔ اس نے پی آئی اے‘ ریلوے اور اسٹیل ملز ایسے قومی اداروں میں سیاسی بنیادوں پر تھوک کے حساب سے بھرتیاں کیں اور انکا بیڑا غرق کردیا۔ منافع میں چلنے والے ادارے خسارے میںچلے گئے۔قومی معیشت تلپٹ ہوگئی۔ ملازمتیں دینے کا کریڈٹ پیپلزپارٹی نے لیا لیکن اِن کا مالی بوجھ پاکستان بھر کے ٹیکس گزار اُٹھارہے ہیں۔ اسی طرح پیپلزپارٹی کی حکومت سرکاری ملازموں کی تنخواہوں میں ہر برس بہت زیادہ اضافہ کرتی جاتی ہے ۔اِسکا بوجھ قومی یا صوبائی خزانہ پر پڑتا ہے اور بالواسطہ طور پر مڈل کلاس پر ۔ اس خزانہ کو بھرنے میں وڈیروں ‘ زمینداروں کا حصّہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ سندھ صوبہ پرتیرہ برسوں سے پیپلزپارٹی کی بادشاہت قائم ہے۔کراچی کا صنعتی‘ تجارتی شہر ایک سونے کی چڑیا ہے جہاں حکمران دونوں ہاتھوں سے مال سمیٹ رہے ہیں۔ سرکاری زمینیں اونے پونے داموں پر پراپرٹی ڈویلپرز کو دی گئی ہیں۔اس شہر سے صوبہ سندھ کی آمدن کا نوّے فیصد آتا ہے۔ یہ شہر کماتا ہے اور پورا صوبہ کھاتا ہے لیکن شہر کو کچرے کا ڈھیر بنادیا گیا ہے۔گزشتہ تیرہ برسوں میں پبلک ٹرانسپورٹ کو ایک بس مہیا نہیں کی گئی۔گھریلو استعمال کے پانی کی شدید قلت ہے۔شہر کی سڑکیں اور گلیاں ٹوٹی پھوٹی ہیں۔ نکاسئی آب کے نالے صاف کرانے کیلیے عدلیہ کو مداخلت کرنی پڑتی ہے۔ شہر کی آدھی آبادی کچی بستیوں میںرہتی ہے۔ اب تحریک ِانصاف کے ارکان ِقومی اسمبلی وفاق سے ملنے والے ترقیاتی فنڈز سے وہ کام کروارہے ہیںجو مقامی یاصوبائی حکومت کو کروانے چاہئیں۔ ایم کیو ایم(الطاف) کی دہشت گردی کی پالیسی کے باعث اس جماعت پر ریاست نے کریک ڈاؤن کرکے اسکی کمر توڑ دی۔ بوری بند لاشوں اور ٹارگٹ کلنگ سے نجات مل گئی لیکن نقصان یہ ہوا کہ کراچی شہر اور سندھ کے صوبہ پر پیپلزپارٹی کا بلا شرکت ِغیرے قبضہ ہوگیا۔ کوئی انکی متعصبانہ پالیسیوں اور کرپٹ حکومت کے خلاف مزاحمت کرنے والا نہیں رہا۔ آج سندھ کے شہر معمولی سے بلدیاتی اختیارات سے بھی محروم ہیں ۔ یہ ہے پیپلزپارٹی کی وہ جمہوریت پسندی اور عوامی حقوق کا احترام جسکا بہت ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے۔