17دسمبر ناسازی طبع کے باوجود عمران خاں اس سکرین پر نمودار ہوئے جس پر وہ گزشتہ نصف صدی سے سب کے سامنے بحیثیت کرکٹر ایک دیو مالائی کردار بحیثیت سوشل ریفارمر ایک ہر دلعزیز ہیرو اور بحیثیت سیاستدان ایک ہلچل اور تلاطم برپا کر دینے والے عوامی لیڈر کے طور پر دمک رہے ہیں۔پاکستان کی تاریخ میں قائد اعظم کے بعد ذوالفقار علی بھٹو ایک ایسے لیڈر تھے جو مشکل حالات میں امید بن کر سامنے آئے تھے پھر نواز شریف آئے انہوں نے خود کو ترقی اور نئے ویژن کے آرکیٹیکٹ کے طور پر پیش کیا۔بے نظیر نے خود کو بھٹو کا حقیقی جانشین اور واضح طور پر ملک کو آگے بڑھانے کے لئے ایک پلان پر کام کیا۔فوج نے تین دھائیوں سے زیادہ ملک پر حکومت کی ۔ہر بار جب ان میںمسیحائی کا جذبہ نے انگڑائی‘ ملک میں مارشل لاء لگ گیا۔یہ پاکستان کے ماضی کی کہانی ہے لیکن کبھی آپ نے سوچا کہ ہم بری طرح پسپا کیوں ہوئے، نشیب و فراز ہر قوم کی زندگی میں آتے ہیں ہم نے 1965ء میں پاک بھارت جنگ کے دوران اس قوم کا فقید المثال جذبہ بھی دیکھا وطن کے لئے سب کچھ قربان کر دینے کا عزم بھی ہماری تاریخ کا حصہ ہے۔ہم نے 8اکتوبر 2005ء کی صبح آٹھ بج کر 52منٹ پر لاکھوں پاکستانیوں پر زلزلہ سے قیامت ٹوٹتے دیکھی ۔ایک بہت بڑے علاقے میں کوئی عمارت سلامت نہیں بچی تھی مقامی انتظامیہ تہس نہس ہو چکی تھی۔ جو زندہ بچے تھے سکتے کے عالم میں تھے ،پتھرائی ہوئی آنکھیں دہشت زدہ تاثرات اور چہروں پر پھیلی ہوئی ناامیدی بھولے سے نہیں ۔شک اور مایوسی پھیلانے والے پیشین گوئی کر رہے تھے کہ ہزاروں لوگ زخموں سے ہزاروں بھوک سے اور ہزاروں بیماری اور وبائوں سے ہلاک ہو جائیں گے لیکن اس کے بعد زندگی نے ایک نئی کروٹ لی زلزلہ حکم خداوندی تھا۔لیکن پھر بحالی کی کوششیں سرکاری‘ نجی ‘ مقامی بین الاقوامی‘ اضطراری اور منظم بھی۔ حکم خداوندی سے ہی ممکن ہوا ایسا جذبہ اتنی زیادہ امداد، نیک تمنائیں، زخم مندمل ہونا شروع ہو گئے۔ قوم نے دہشت گردی کا سالوں نہیں کئی دھائیوں تک مقابلہ کیا۔ مساجد اور عبادت گاہیں تک محفوظ نہ رہیں۔ہزاروں لوگ ‘فوجی عام شہری کوئی بھی دہشت گردی کی عفریت سے اماں میں نہیں رہا لیکن بحیثیت قوم ہم لڑتے رہے پھر ایسی قوم جو ہر چیلنج کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا جانتی ہو وہ اس صورت سے کیسے دوچار ہو گئی۔ آج ہم کہاں کھڑے ہیں آگے بڑھنے کے بجائے پیچھے کھسک رہے ہیں۔1971ء کا سانحہ ہوا جس زمین پر بنگالی بستے تھے وہ مغربی حصے میں رہنے والوں سے شاکی ہو گئے۔ یہ گلے شکوے تنقید اور نفرت میں بدل گئے اس زمانے میں میڈیا اتنا موثر تھا اور نہ ہی اتنا برق رفتار۔ یہاں پر رہنے والوں کو یہ تاثر دیا جا رہا تھا جیسے دونوں حصوں میں محبت کا زمزم بہہ رہا ہے لیکن صورتحال اس کے برخلاف تھی۔ ریت میں دبی شکوے شکایتوں کی چنگاریاں بھڑک بھڑک کر شعلہ بن چکی تھیں پھرحکمرانوں اور سیاستدانوں کی ناعاقبت اندیشیوں اور مفادات کے طوفان میں سب کچھ خس خاشاک کی طرح بہہ گیا ملک کا مشرقی حصہ بنگلہ دیش بن گیا۔اس ملک کی 75سالہ تاریخ میں 25سال تک تو وزیر اعظم کا منصب ہی خالی رہا۔ان 50سالوں میں 30وزرائے اعظم آئے جن میں سے 23منتخب اور 7نگران وزیر اعظم اس عہدہ جلیلہ پر فائز ہوئے ۔یہ ملک اسلامی نظریے کی بنیاد پر قائم ہوا تھا لیکن اس پورے سفر میں ہم اس کے کسی ایک پہلو پر بھی عمل کرنے میں کامیاب نہ ہو سکے۔ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں کبھی بھی آئین کی بالادستی نہیں رہی اس لئے پارلیمنٹ اور عدلیہ کمزور ہیں۔ محسوس ہوتا ہے جیسے وہ لوگ جن کے ذمہ ہماری قیادت آئی انہوں نے اس پوری عمارت کو ذاتی مفادات جھوٹے وعدوں اور دعوئوں پر استوار کیا۔ انہوں نے حالات و واقعات سے یہ سبق بھی نہیں سیکھا کہ کبھی دو قوم آگے بڑھ کر ایک قدم پیچھے بھی ہٹنا پڑتا ہے۔اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کا اعتراف کرنا پڑتا ہے۔ یہ حوصلہ مند قوم بننے کے لئے بنیادی شرط ہے۔ہر حکومت نے عام لوگوں کو ایک ریوڑ کے طور پر برتا۔آج کسی بھی عام آدمی سے سوال کریں اس کی راتوں کی نیندیں حرام ہیں ۔پریشانیوں کی گردو غبار سے اٹے چہرے، روٹی کے لالے،بیماری اور ناخواندگی کے مارے، اپنے لیڈروں کے جلسوں میں جھنڈے اٹھائے نعرے مارتے، بریانی کے پیکٹوں پر لپکتے اپنے لیڈروں کے ساتھ آوازیں ملاتے اورپھر اسی طرح واپس لوٹ جاتے ہیں جس طرح جنازے کا خاموش جلوس تدفین کے بعد دائیں بائیں اپنے گھروں کو پلٹ جاتا ہے۔سچی بات پوچھیں تو یہ ظلم رسیدوں کی کہانی ہے جو 7دہائیوں سے ایک فلم کی طرح چل رہی ہے۔ ہم نے آزادی کے باوجود پابندی اور قیود کا یہ کیسا معاشرہ بنا ڈالا ہے جہاں غریب غریب تر اور امیر تر ہوتا جا رہا ہے ۔ آپ جس ماحول میں رہتے ہیں آپ اپنے اطراف پیش آنے والے واقعات کے اثرات لیتے رہتے ہیں مثبت یا منفی یہ ہو نہیں سکتا کہ آپ اثر نہ لیں یہ صورتحال زندگی کے کسی بھی شعبہ میں ہو ہماری زندگیوں پر اثر انداز ہوتی ہے اسی لئے جب ہم اپنے لیڈران کرام کو باہم الجھتے تکرار کرتے یہاں تک کہ گالیاں دیتے دیکھتے ہیں، جب ایک دوسرے پر الزامات کی بھرمار کرتے دیکھتے ہیں ،پھر اب آڈیو ویڈیو کی جنگ پڑی ہے۔ نہ جانے یہ صاحب اقتدار قوم کو کیا پیغام دے رہے ہیں یہ کیوں اندازہ نہیں کر پا رہے کہ ان کے قول و فعل میں کتنے تضادات ہیں۔ جب میں پاکستان میں قانون کی بالادستی اور انصاف کی کتاب کا یہ صفحہ پڑھتا ہوں جس میں لکھا ہے کہ پاکستان کی جیلوں میں ان کی قلعہ نما دیواروں‘ ٹھنڈی بیرکوں اور مہیب کالی کوٹھڑیوں میں اپنے گناہوں اپنے جرائم کے بجائے اپنی غربت اپنی کمزور سماجی پوزیشن کی سزا بھگت رہے ہیں۔میں یہ نہیں کہتا کہ یہ لوگ بے گناہ ہیں یہ لوگ واقعی مجرم ہیں انہیں اپنے کئے کی سزا ملنی چاہیے قیدیوں کو قید کاٹنی چاہیے پھانسی والوں کو پھانسی گھاٹ پر پہنچنا چاہیے لیکن آپ ان لوگوں کو کھلا چھوڑ دیں تو جو انسانوں کو اپنے ڈیروں پر کتوں کی طرح باندھتے ہیں۔ زمیں میں گاڑ دیتے ہیں،پہاڑوں سے دھکا دے دیتے ہیں، چند ہزار ہونے کے باوجود ملک کے اربوں روپے کھا جاتے ہیں۔ہر سال اربوں کی غیر ملکی شراب پیتے ہیں، جو اربوں کاجوأ ہار جاتے ہیں، منشیات کے ہزاروں اڈوں کے مالک ہیں،جو قبضے کرتے ہیں، قبضے کراتے ہیں ،جو چوکیاں اور تھانے بیچتے ہیں، جو ٹراسفر اور پوسٹنگکے پیسے لیتے ہیں لیکن مسجدوں سے جوتیاں چرانے، ڈنگر کھولنے‘ ہیروئن کی پڑیا خریدنے،ی گھر سے ریڈیو‘ ٹی وی چور کرنے اور دیگر چھوٹے بڑے جرائم میں ملوث غریب سے چکیاں پسوائیں، انہیں ظلم اور تشدد کا نشانہ بنائیں یہ ظلم نہیں اور کیا ہے۔ انکے پیچھے بھی حسب نسب کی مضبوط فصیل ہوتی ، کوئی حلقہ، کوئی جاگیر، کوئی مل، کوئی بزنس اور کوئی پارٹی ہوتی تو وہ مزے سے آزاد گھوم رہے ہوتے۔مزے سے گھومنے والی کلاس ہاتھوں پر دستانے چڑھا کر پھر رہی ہے۔اگر انصاف کا یہ نظام ہر شہری کے لئے یکساں اور منصفانہ انصاف کا حصول ممکن نہیں بنا سکتا اگر یہ واقعی ممکن نہیں اگر پاکستان کے سارے ادارے ساری قوتیں مجبور ہیں تو پھر کوئی ایک شخص ہی ایسا ہو جو انصاف کی کتاب پر یہ فقرہ لکھ دے۔’’پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں کوئی بڑا شخص جرم نہیں کرتا‘‘