اومنی گروپ‘ زرداری گروپ اور بحریہ ٹائون کا کیس اب نیب ہی دیکھے گی‘ دولت اکٹھی کرنے اور اسے باہر منتقل کرنے کے لیے ’’مرد حر‘‘ کے ساتھیوں نے جو جتن کئے‘ سرکاری اداروں کو جس مہارت سے استعمال کیا اور سندھ بینک کی خدمات کو ناکافی سمجھ کر سمٹ بنک اور سلک بینک وجود میں لائے گئے‘ وہ جے آئی ٹی رپورٹ کا حصہ ہے۔ اس مہارت سے زیادہ‘ وہ ڈھٹائی قابل داد ہے‘ زرداری صاحب کے حاشیہ نشیں اور عقیدت مند جس کا مظاہرہ اپنے بیانات اور ٹی وی انٹرویوز میں فرما رہے ہیں۔ وزیراعلیٰ سندھ اور بلاول بھٹو زرداری کو تو عدالت عظمیٰ نے شک کا فائدہ دے دیا ہے اور ایک کی کم سنی اور دوسرے کی وزارت اعلیٰ اس فائدے کی بنیاد بنی‘ لیکن نیب نے اگر ایماندارانہ اور دلیرانہ تفتیش کی تو ایک معصوم اور دوسرا صوبے کا سربراہ کہیں وہ گل نہ کھلائیں جو شریف خاندان کے بچوں نے کھلائے۔ سب سے زیادہ حیرت آصف علی زرداری اور ادّی فریال تالپور کی ’’جوع الارض‘‘ (زمین کی بھوک) پر ہوئی ۔ اندرون و بیرون ملک کاروبار ہے کہ سنبھالا نہیں جارہا‘ بینک بھرے ہیں۔گماشتے ڈالروں‘ پونڈوں اور درہم و دینار سے لانچیں بھر بھر کر باہر جا رہے ہیں اور شوگر ملیں بے حد و حساب‘ مگر زیادہ سے زیادہ زمین ہتھیانے کی بھوک مٹنے کے بجائے بڑھتی چلی جا رہی ہے۔کراچی‘ اندرون سندھ اور پنجاب میں رقبے‘ مکانات اور پلاٹ خریدے جا رہے ہیں جہاں کوئی بیچنے کو تیارنہ ہو‘ وہاں زبردستی قبضہ اور مار دھاڑ۔ سرکاری رقبے محفوظ ہیں نہ یتیموں‘ بیوائوں اور غریبوں کے پلاٹ مستثنیٰ۔ واقعی قبر کی مٹی ہی انسانی خواہشات کا پیالہ بھرتی ہے۔ مالدار صاحب اقتدار ‘عوام کے ’’ہمدرد ‘‘و ’’غمگسار ‘‘سیاستدانوں‘ حکمرانوں اور ان کے حاشیہ نشینوں کی جوع الارض کی کہانیاں پڑھتے ہوئے مجھے شہاب نامہ میں درج ماسٹر رحمت الٰہی کا واقعہ یاد آتا ہے۔ قدرت اللہ شہاب مرحوم کی زبانی پڑھئے: ایک روز ایک پرائمری سکول کا استاد رحمت الٰہی آیا۔ وہ چند ماہ کے بعد ملازمت سے ریٹائر ہونے والا تھا۔ اس کی تین جوان بیٹیاں تھیں۔ رہنے کے لیے اپنا گھر بھی نہیں تھا۔ پنشن نہایت معمولی ہوگی۔ اسے یہ فکر کھائے جا رہی تھی کہ ریٹائر ہونے کے بعد وہ کہاں رہے گا؟ لڑکیوں کی شادیاں کس طرح ہو سکیں گی؟ کھانے پینے کا خرچ کیسے چلے گا؟ اس نے مجھے سرگوشی میں بتایا کہ پریشانی کے عالم میں وہ کئی ماہ سے تہجد کے بعد رو رو کر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں فریادیں کرتا رہا ہے۔ چند روز قبل اسے خواب میں رسول اللہ ﷺ کی زیارت ہوئی جس میں حضورؐ نے فرمایا کہ تم جھنگ جا کر ڈپٹی کمشنر کو اپنی مشکل بتائو۔ اللہ تمہاری مدد کرے گا۔ پہلے تو مجھے شک ہوا کہ یہ شخص ایک جھوٹا خواب سنا کر مجھے جذباتی طور پر بلیک میل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ میرے چہرے پر شک اور تذبذب کے آثار دیکھ کر رحمت الٰہی آبدیدہ ہو گیا اور بولا: ’’جناب میں جھوٹ نہیں بول رہا۔ اگر جھوٹ بولتا تو اللہ کے نام پر بولتا۔ حضور رسول پاک ﷺکے نام پر کیسے جھوٹ بول سکتا ہوں؟‘‘ اس کی اس منطق پر میں نے حیرانی کا اظہار کیا‘ تو اس نے فوراً کہا ’’آپ نے سنا نہیں کہ باخدا دیوانہ باش وبا محمدؐ ہشیار ۔‘‘ یہ سن کر میرا شک پوری طرح رفع تو نہ ہوا لیکن سوچا کہ اگر یہ شخص غلط بیانی سے بھی کام لے رہا ہے تو ایسی عظیم ہستی کے اسم مبارک کا سہارا لے رہا ہے جس کی لاج رکھنا ہم سب کا فرض ہے۔ چنانچہ میں نے رحمت الٰہی کو تین ہفتہ کے بعد دوبارہ اپنے پاس آنے کے لیے کہا۔ اس دوران میں نے خفیہ طور پر اس کے ذاتی حالات کا کھوج لگایا اور یہ تصدیق ہو گئی کہ وہ اپنے علاقے میں نہایت سچا‘ پاکیزہ اور پابند صوم و صلوٰۃ آدمی مشہور ہے اور اس کے گھریلو حالات بھی وہی تھے جو اس نے بیان کئے تھے۔ اس زمانے میں کچھ عرصہ کے لیے صوبائی حکومت نے ڈپٹی کمشنر کو یہ اختیار دے رکھا تھا کہ سرکاری بنجر زمین کے آٹھ مربعے تک ایسے خواہشمند کو طویل معیاد پر دیئے جا سکتے ہیں جو انہیں آباد کرنے کے لیے آمادہ ہوں۔ میں نے اپنے مال افسر کو بلا کر کہا کہ وہ کسی مناسب جگہ کرائون لینڈ کے ایسے آٹھ مربعے تلاش کرے جنہیں جلد از جلد زیر کاشت لانے میں کوئی خاص دشواری پیش نہ آئے۔ غلام عباس مال افسر نے غالباً یہ سمجھا کہ شاید اراضی میں اپنے کسی عزیز کو دینا چاہتا ہوں۔ دیکھتے ہی دیکھتے اس نے پکی سڑک کے قریب نیم آباد سی زمین ڈھونڈ نکالی اور رحمت الٰہی کے نام الاٹمنٹ کی ضروری کارروائی کر کے سارے کاغذات میرے حوالے کردیئے۔دوسری پیشی پر جب رحمت الٰہی حاضر ہوا تو میں نے یہ نذرانہ اس کی خدمت میں پیش کرکے اسے مال افسر کے حوالے کر دیا کہ قبضہ وغیرہ دلوانے اور باقی ضروریات پوری کرنے میں وہ اس کی پوری پوری مدد کرے۔ تقریباً نو برس بعد میں صدر ایوب کے ساتھ کراچی میں کام کر رہا تھا کہ ایوان صدر میں میرے نام ایک رجسٹرڈ خط موصول ہوا۔ یہ ماسٹر رحمت الٰہی کی جانب سے تھا کہ اس زمین پر محنت کر کے اس نے تینوں بیٹیوں کی شادی کردی ہے اور وہ اپنے اپنے گھر میں خوش و خرم آباد ہیں۔ اس نے اپنی بیوی کے ساتھ حج کا فریضہ بھی ادا کرلیا ہے اور اپنے گزارے اور رہائش کے لیے تھوڑی سی ذاتی زمین خریدنے کے علاوہ ایک کچا سا کوٹھا بھی تعمیر کر لیا ہے۔ ایسی خوشحالی میں اب اسے آٹھ مربعوں کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ چنانچہ اس الاٹمنٹ کے مکمل کاغذات اس خط کے ساتھ واپس ارسال ہیں تاکہ کسی اور حاجت مند کی ضرورت پوری کی جا سکے۔میں یہ خط پڑھ کر کچھ دیر تک سکتے میں آ گیا۔ میں اسی طرح گم سم بیٹھا تھا کہ صدر ایوب کوئی بات کرنے کے لیے میرے کمرے میں آ گئے۔’’کس سوچ میں گم ہو؟‘‘ انہوں نے میری حالت بھانپ کر پوچھا۔ میں نے انہیں رحمت الٰہی کا سارا واقعہ سنایا تو وہ بھی نہایت حیران ہوئے۔ کچھ دیر خاموشی طاری رہی پھر وہ اچانک بولے۔ ’’تم نے بڑا نیک کام سرانجام دیا ہے۔ میں نواب صاحب کو لاہور ٹیلیفون کر دیتا ہوں کہ وہ یہ اراضی اب تمہارے نام کردیں۔‘‘ میں نے نہایت لجاجت سے گزارش کی کہ میں اس انعام کا مستحق نہیں ہوں۔ یہ سن کر صدر ایوب حیرانی سے بولے‘ ’’تمہیں زرعی اراضی حاصل کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں؟‘‘ ’’جی سر نہیں۔‘‘ میں نے التجا کی۔ ؟؟اخیر میں فقط دو گز زمین ہی کام آتی ہے۔ وہ کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی طرح مل ہی جاتی ہے۔‘‘ قدرت اللہ شہاب زندہ ہوتے تو انہیں سلطانی جمہور کے علمبردار اور صبح‘ دوپہر شام عوام‘ عوام پکارنے کے شوقین سیاستدانوں اور حکمرانوں کے بارے میں تفتیشی اداروں کی رپورٹیں‘ میڈیا میں منکشف ہونے والے سکینڈلز اور اپنی قیمتی جائیدادوں سے محروم ہونے والے بے وسیلہ و بے آسرا عوام کی فریادیں پڑھ اور سن کر تعجب ہوتا۔ جس پاک سرزمین پر وزیر اعظم نوابزادہ لیاقت علی خان نے وزیر اعلیٰ پنجاب نواب ممدوٹ کی اس بات پر سرزنش کی کہ انہوں نے کچھ زمین نواب زادہ صاحب کے بیٹے کو الاٹ کر دی تھی اور جس کا ایک شہری ماسٹر رحمت الٰہی آٹھ مربع زمین رضا کارانہ طور پرواپس کر دیا کرتا تھا وہاں اب ندیدوں ‘ شُہدوں اور لفنگوں نے حکومت’’اقتدار‘ اختیار اور عوام کے ووٹ کو زمینوں پر قبضے‘ سرکاری وسائل کی لوٹ مار اور مفلوک الحال شہریوں کے حقوق پر ڈاکہ زنی کا ہتھیار بنا لیا ہے اور پوری قوم تماشائی ہے۔ اعلیٰ پائے کے قانون دان‘ دانشور‘ ماہرین ابلاغیات‘ مذہبی رہنما اور تجزیہ کار ان کے وکیل صفائی ہیں۔ ع پستی کا کوئی حد سے گزرنا دیکھے