کوئی نیا ریکارڈ بنانے کا ارادہ ہے کیا؟ یہ جلد بازی ہے، ناقص فیصلہ سازی یا استقامت و پختگی کا فقدان؟ ایک دن فیصلہ ہوتا ہے اور دوسرے چوتھے دن تبدیل۔ جمہوریت میں اپنی ہر غلط سلط بات پر ڈٹ جانا عیب ہے اور غلطی واضح ہونے پر مؤقف تبدیل کرنا خوبی ہے۔ مگر یہ دائم کارآمد نسخہ نہیں، گورنر بلوچستان کے لیے ڈاکٹر جوگیزئی کی نامزدگی سے لے کر ریڈیو پاکستان کی عمارت لیز پر دینے کے فیصلے تک، بار بار پسپائی اور ہر بار جگ ہنسائی؟۔ وزیروں،مشیروں کا تو پتہ نہیں، تحریک انصاف کے کارکنوں اور عمران خان کے خیر خواہوں کو ندامت کا سامنا ہے۔کوئی ذی شعور اور انصاف پسند عاجلانہ فیصلوں اور تیز رفتار پسپائی کا دفاع کیسے اور کیوں کرے؟ ریڈیو پاکستان ہی نہیں کئی دوسرے قومی اداروں کے پاس وسیع و عریض رقبے پر قائم بڑی بڑی عمارتیں ہیں تب شہری رقبہ کوڑیوں کے بھائو بکتا تھا اور بھاری مشینری کی تنصیب کے لیے بڑے بڑے کمرے درکار ہوتے تھے۔ جہازی سائز کے راستہ و پیراستہ دفاتر کا رواج تھا اور آئوٹ ڈور سرگرمیوں کے لیے سرسبز لان۔ اب مگر واقعی ریڈیو کے لیے دو تین کمرے درکار ہیں اور بعض نجی ٹی وی چینلز آٹھ دس مرلے کے رہائشی مکان میں اپنی نشریات جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اینڈرائیڈ ٹیکنالوجی نے فون سیٹ کو معیاری کیمرے میں بدل دیا ہے اور وہ وقت دور نہیں جب ویڈیو کیمرہ بھی اسی طرح قصۂ پارینہ ہو گا، جس طرح ٹائم پیس، ڈائری، کیلنڈر، عید کارڈ وغیرہ۔ ریڈیو پاکستان اور پی ٹی وی کے مقابلے میں چھوٹے سٹوڈیوزاور دفاتر میں قائم ایف ایم اور ٹی وی چینلز ہر لحاظ سے بہتر کام کر رہے ہیں اور قومی خزانے پر بوجھ نہیں مگر اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ حکومت ایک روشن صبح کسی سے پوچھے،مشورہ، نتائج و عواقب اور ممکنہ ردعمل پر غور کیے بغیر ان قومی عمارتوں کو نجی اداروں کو کرائے پر دینے کا اعلان کر دے اور جونہی دبائو پڑے بہ عجلت تمام الٹے قدم گھوم جائے۔About turn ایسا ہی ایک اعلان پیمرا، پاکستان پریس کونسل اور پی ٹی اے کو ختم کر کے پاکستان میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی کے نام سے ایک نیا ادارہ تشکیل دینے کا ہوا مگر اے پی این ایس، سی پی این ای اور پی بی اے نے مخالفانہ ردعمل ظاہر کیا تو ٹائیں ٹائیں فش۔ یہ حسن اتفاق ہے یا سوئے اتفاق کہ فیصلہ جس کسی نے کیا، جس سطح پر ہوا خفت ہمارے وزیر اطلاعات چودھری فواد حسین کو اٹھانی پڑی کہ وہی حکومت پاکستان کے ترجمان ہیں اور انہوں نے یہ اعلانات کیے تھے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ بیورو کریسی جان بوجھ کر حکومت کی ناتجربہ کاری یا غیر معمولی جوش و خروش کا فائدہ اٹھا کر ایسے فیصلے کرا رہی ہے کہ سو دن میں تجربہ کار، پختہ کار اور ثابت قدم حکومت کا تاثر بننے ہی نہ پائے جبکہ ناقدین کی رائے میں یہ عمران خان کے اردگرد موجود بھانت بھانت کی بولیاں بولنے والے طفلان کج فہم کا کیا دھرا ہے، جو مشاورت پر یقین رکھتے ہیں نہ تول کر بولنے کے عادی۔ مخالفین جو عمران خان اور تحریک انصاف کی ناکامی کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں، اس صورت حال پر شاد ہیں۔ انہیں ہرروز مخالفانہ بیان بازی کے لیے کوئی نہ کوئی موضوع حکومت خود فراہم کرتی ہے اور وہ شام کو پسند کے چینلز پر بیٹھ کر خوب بھد اُڑاتے ہیں۔ مرکز میں تو خیر کچھ نہ کچھ ہو رہا ہے۔ زیادہ تر درست، کچھ نہ کچھ غلط بھی۔ غلطی سدھارنے کا جذبۂ فراواں ہے بعض ستم ظریفوں کا خیال ہے کہ سدھارنے کی نیت سے بعض غلطیاں کی جا رہی ہیں کہ فارغ بیٹھنے سے کچھ نہ کچھ کرتے رہنا بہتر ہے۔ فارغ نہ بیٹھ کچھ کیا کر پاجامہ ادھیڑ کر سیا کر مگر پنجاب میں فی الحال حکمران میل ملاقاتوں میں مصروف ہیں یا میاں شہباز شریف دور کے منصوبوں کے نقائص تلاش کرنے میں مشغول۔ عمران خان نے نئے بلدیاتی نظام کا خاتمہ اڑتالیس گھنٹے میں پیش کرنے کا حکم دیا کئی روز گزر گئے کچھ سامنے نہیں آیا۔ وزیر اعلیٰ سردار عثمان خان بزدار بھلے آدمی ہیں، کچھ نہ کچھ کر گزرنے کا جذبہ رکھتے ہیں مگر یار لوگوں نے انہیں میاں شہباز شریف کی طرح ہسپتالوں میں چھاپے مارنے پر لگا دیا ہے۔ یہ کام وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد بخوبی کر سکتی ہیں، برادرم ہارون الرشید نے اندیشہ ظاہر کیا ہے کہ پنجاب حکومت ڈاکٹر امجد ثاقب کے رفاہی ادارے ’’اخوّت‘‘ کی گرانٹ بند کرنے پر تُلی ہے۔ بات اگر درست ہے تو انتہائی قابلِ اعتراض اور غیر دانشمندانہ۔ ’’اُخوّت‘‘ اب ایک قومی ادارہ ہے جو لاکھوں مفلس خاندانوں کو خود کفالت کے راستے پر گامزن کر چکا اور انہی میں سے ہزاروں اب دوسروں کی اعانت کر رہے ہیں۔ بنگلہ دیش کے ڈاکٹر یونس کو سودی قرضوں کا نظام چلانے پر نوبل انعام ملا مگر اخوت کسی ضرورت مند سے ایک پائی سود وصول کرتی ہے نہ اپنی تقریبات پر خرچ کرنے کی روادار۔ راجن پور اور ڈیرہ غازیخان کے گردونواح میں بھی اخوت سرگرم عمل ہے اور ایک ایسی یونیورسٹی کے قیام کے لیے کوشاں جہاں یتیم، بے آسرا اور غریب بچوں کو جملہ تعلیمی سہولتیں مفت دستیاب ہوں۔ ایسی فلاحی تنظیم کو محض اس بنا پر سرکاری اعانت سے محروم کرنا کہ میاں شہباز شریف ڈاکٹر امجد ثاقب پر مہربان تھے اور انہوں نے اخوّت کی مدد کی، بدذوقی ہے بلکہ ناعاقبت اندیشی۔ خدا نہ کرے کہ پنجاب حکومت وفاقی حکو مت کی طرح ایسا فیصلہ کر کے یوٹرن لے اور ہدف تنقید و تضحیک بنے۔ حکمران فیصلے کرتے ہیں اور بعض فیصلے انہیں واپس بھی لینے پڑتے ہیں مگر تیس روزہ اقتدار میں بار بار یہ نوبت آئے؟ کھیل بچوں کا ہوا، دیدہ بینا نہ ہوا۔ کیا حکمران تیس دنوں میں اچھے مشیروں اور مخلص کارکنوں سے کٹ گئے اور وفاقی و صوبائی منصب داروں نے کان اور آنکھ بند کر لیں کہ انہیں کچھ دکھائی، سنائی اور سجھائی نہیں دیتا۔ عاطف میاں کی نامزدگی واپس لینے پر حکومت کو عوامی حلقوں نے سراہا تو اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ہر یوٹرن پر لوگ داد و تحسین کے ڈونگرے برسائیں گے۔ مخالفین حکومت کو ناکام دیکھنا چاہتے ہیں، عوام کی مگر یہ خواہش نہیں۔ ماضی کی بے عمل اور بے فیض حکومتوں کے ستائے طبقات بالخصوص نوجوان موجودہ حکمرانوں سے غیر معمولی توقعات وابستہ کر چکے ہیں۔ وہ ان کی کامیابی کے لیے دعاگو ہیں مگر انہیں فیصلہ سازی کے عمل کو بہتر بنانا ہو گا۔ سابقہ حکمرانوں کی طرح ہر شاخ پر اپنے اُلّو بٹھانے کی روش مفید ہے نہ مناسب۔ فیصلے سوچ سمجھ کر، حسن و قبح پر خوب غور کر کے ہوں اور پھر ان پر ڈٹ جائیں۔ فاذا عزمت فتوکل علی اللہ۔ یہ تاثر کسی حکومت کے بارے میں تباہ کن ہے کہ وہ سوشل میڈیا یا الیکٹرانک میڈیا پر مخالفانہ رد عمل یا متاثرہ گروہ کے سڑکوں پر نکلنے کے خوف سے جلدی میں پسپا ہو جاتی ہے۔ بیورو کریسی کا ایک گروہ یقینا حکومت کی ناکامی کا خواہاں ہو گا وہ عمران خان اور اُن کے ساتھیوں کو غلط فیصلوں کی جانب راغب کرے گا، کریگا کیا؟ کر رہا ہو گا، میڈیا کے حوالے سے وزیر اطلاعات اور شاید عمران خان کو ایک با اختیار اور ’’نوکیلی‘‘ باڈی کی تشکیل کا مشورہ دینے والوں کا مقصد بھی یہی ہے کہ ہنی مون پیریڈ میں میڈیا کو حکومت سے لڑا کر اپوزیشن کو ہموار پچ فراہم کی جائے مگر مخالفین کے علاوہ سازشی عناصر کی وارداتوں اور گھاتوں سے ہشیار رہنا حکمرانوں کی ذمہ داری ہے کسی اور کی نہیں۔ اگر مفاد پرست عناصر نے حکمرانوں کے گرد جمع ہو کر انہیں بسم اللہ کے گنبد میں بند کر دیا، ان کے کان اور آنکھیں سمجھے جانے والے کارکن اور خیر خواہ دور ہو گئے اور ہر دوسرا فیصلہ واپس لینے کی روایت پڑ گئی تو عمران خان کو بھٹو، بے نظیر بھٹو، نواز شریف اور آصف علی زرداری بنتے زیادہ دیر نہیں لگے گی کہ کپتان سے عوام کی توقعات کی سطح ضرورت سے زیادہ بلند ہے۔ آزاد و فعال میڈیا نامہرباں اور مخالفین تجربہ کار و شاطر۔فیصلے واپس لینے کا ریکارڈ قائم نہ ہو تو اچھا ہے۔ ٹی وی چینلز کے نیوز روم میں آج کل یہ لطیفہ مقبول ہے کہ حکومت کوئی نیا فیصلہ یا اعلان کرے تو کارکن اپنے سینئر ساتھیوں سے بار بار پوچھتے ہیں کہ ٹکر ایڈ کر دیں یا خبر کی واپسی کا انتظار کریں۔