اسماعیل میرٹھی نے غالباً انیسویں صدی کے آواخر یا بیسویں صدی کے اوائل میں درمدح مئی لکھا تھا مئی کا آن پہنچا ہے مہینہ بہا چوٹی سے ایڑی تک پسینا نہ پوچھو کچھ غریبوں کے مکان کی زمیں کا فرش ہے چھت آسمان کی امیروں کو مبارک ہو حویلی غریبوں کا بھی اللہ بیلی مگر اس برس شاید احترام رمضان میں مئی نے روزہ داروں کو بہت اکاموڈیٹ کیا اور اس بار مئی میں بہار کے رنگوں کو دیکھ کر یوں محسوس ہوتا تھا کہ یہ مئی لاہور یا دلی والا نہیں لیک ڈسٹرکٹ انگلستان والا مئی ہے۔ جہاں یہ بہار کا مہینہ شمار ہوتا ہے البتہ جاتے جاتے مئی اسماعیل میرٹھی کی روح کو خوش کرنے کے لئے اپنا اصلی رنگ بھی دکھا گیا۔ عیدالفطر کے موقع پر تحریک انصاف کے پی کے کی حکومت نے خاصا مزاحیہ پروگرام بھی پیش کیا۔ پشاور میں دو عیدیں تو زمانے سے ہوتی چلی آ رہی ہیں۔مگر پشاور کی مقامی عید کو کبھی سرکاری شرف باریابی نہیں بخشا گیا۔ تاہم اس بار تو دلچسپ کنفیوژن کی حد تک ہو گئی۔ کے پی کے میں بھی تحریک انصاف کی حکومت‘ پنجاب میں بھی تحریک انصاف کی حکومت اور مرکز میں بھی تحریک انصاف کی حکومت اور بلوچستان میں بھی تقریباً تحریک کی اپنی حکومت پھر بھی تبدیلی والی حکومت نے کے پی کے میں وہ تبدیلی دکھائی جو اس نے گزشتہ ٹرم میں دوسرے صوبوں اور مرکز میں اپنی حکومت نہ ہونے کی صورت میں بھی نہیں دکھائی تھی۔ صوبائی حکومت نے کے پی کے میں آغاز رمضان مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے فیصلے کے مطابق کیا اور عید مسجد بن قاسم کے مفتی پوپلزئی کے فتوے کے مطابق 28روزوں کے بعد ہی منا ڈالی۔ اس پر تحریک انصاف کے اپنے سائنسی مفتی فواد چودھری کا فتویٰ نہایت جامع ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ سوموار کے روز پشاور میں چاند کا نظر آنا ناممکن تھا۔ اس کے ساتھ مزید یہ بھی کہا کہ جہالت کا علاج تو حکیم لقمان کے پاس بھی نہیں۔ اس بار عرب دنیا میں بھی رویت ہلال کے بارے میں بہت اختلاف رہا۔ مصر میں بہت سے لوگوں نے سوموار کے سرکاری چاند کو ماننے سے انکار کر دیا نماز عید کی ادائیگی کے سلسلے میں بھی تحریک انصاف کے ہاں خاصا کنفیوژن رہا۔ چاہیے تو یہ تھا کہ جناب وزیر اعظم اسلامی جمہوری پاکستان عمران خان فیصل مسجد اسلام آباد میں جمہور مسلمانوں کے ساتھ نماز عید ادا کرتے اور نماز کی ادائیگی کے بعد چاہتے تو جم غفیر سے عید کا معانقہ و مصافحہ کرتے اور چاہتے تو عید مبارک کہہ کر مسجد سے رخصت ہوجاتے اور صدر اسلامی جمہوریہ پاکستان کراچی کی کسی مرکزی مسجد میں نماز ادا کرتے تاکہ مرکزی جگہ نماز عید ادا کرنے کی سنت بھی ادا ہوتی اور تحریک انصاف کا عوامی رنگ بھی اجاگر ہوتا۔ جیل میں عید بھی ایک انوکھا تجربہ ہے۔ بوسٹن امریکہ میں اعتکاف کی سعادت سے لذت یاب ہونے والے ایک دوست نے اعتکاف میں جانے سے پہلے پوچھا تھا کہ یہ کیسا تجربہ ہے؟ میں نے عرض کیا کہ عام انسان کو جیل اور اعتکاف کے دوران دو ایسی سعادتیں حاصل ہوتی ہیں جو سچے صوفیاء کے شب و روز کا معمول ہے۔ اعتکاف اور جیل میں انسان کو خود اپنے آپ اور اپنے رب سے دل کی باتیں کرنے کا موقع ملتا ہے جو بالعموم مصروف لوگوں کو ہجوم دوستاں میں نہیں ملتا۔ برادرم قاضی خالد نے اعتکاف مکمل کرنے کے بعد بتایا کہ تم نے درست کہا تھا میاں نواز شریف نے عیدالفطر کے موقع پر کہا ہے کہ رمضان المبارک کے دوران دل سوزی کے ساتھ اللہ کے حضور جو دعائیں کی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان دعائوں کو قبول فرما کر پاکستان کو اپنی منزل مقصود تک تو پہنچائے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ میری عید اس غریب عوام کے نام ہے جو پریشان حال زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ رمضان المبارک میں غریب عوام کی پریشان حالی میں مزید اضافہ ہوا۔ پٹرول کی قیمت میں اضافہ ہوا۔ اشیائے خورو نوش کی قیمتیں سارا ماہ آسمان سے باتیں کرتی رہیں۔ ابھی قوم سے مزید قربانی مانگی جا رہی ہے سابق وزیر خزانہ اسد عمر کی یہ بات مجھے بہت پسند آئی انہوں نے شاید کسی رپورٹر سے کہا کہ یار عید کے چند روز تو ہنسی خوشی گزارو‘ رمضان کے بعد جو ہو گا دیکھا جائے گا۔عید کے بعد خاصی گرما گرمی متوقع ہے۔ جناب آصف علی زرداری کی گرفتاری متوقع ہے۔ قاضی فائز عیسیٰ کے عدالتی ریفرنس کے موقع پر وکلاء کی تحریک بھی متوقع ہے اور اپوزیشن پارٹیوں کی احتجاجی تحریک کا بھی بہت شور سن رہے ہیں۔ عید کے موقع پرتحریک انصاف کے اندرونی انتشار کی کئی جھلکیاں دیکھنے میں آئی ہیں میں ابھی تک جناب فواد چودھری کی گرم گفتاری کے بارے میں کسی حتمی نتیجے پر نہیں پہنچ سکا کہ کس برتے پر تتا پانی کیا یہ سمجھا جائے کہ جناب عمران خان کی پارٹی پر گرفت کمزور ہو چکی ہے یا یہ سمجھا جائے کہ فواد چودھری صاحب کسی اور سیاسی یا غیبی اشارے پر اپنے دل کی بھڑاس نکال رہے ہیں۔ اللہ کے آخری نبی محمد ﷺ نے فرمایا کہ مسلمان آپس کی محبت و مؤدت اور مروت و اخوت میں ایک جسم کی مانند ہیں کہ جب جسم کے کسی ایک حصے کو درد کی صعوبت برداشت کرنا پڑتی ہے تو سارا جسم درد کی شدت اور بخار کی حدت سے تڑپتا ہے۔ عرب دنیا کی چاند رات سوموار کے دن سوڈان کے مرکزی آشیانے خرطوم پر بجلیوں کا کاررواں گزر گیا اور فوجی ہیڈ کوارٹر کے باہر سیاسی حکمرانی کے لئے دھرنا دینے والے ہزاروں سوڈانیوں پر فوج نے ادھا دھند فائرنگ کر دی جس سے 108زندہ و باشعور انسان ہلاک کر دیے گئے۔عرب دنیا میں چاند کی گہما گہمی اور دیگر اسلامی دنیا ممالک میں عید کی تیاریوں میں ڈھائی جانیوالی قیامت کی خبر دب گئی۔ عوام و خواص عمر البشیر کی 30سالہ فوجی ڈکٹیٹر شپ کے خاتمے کے لئے دسمبر سے احتجاجی تحریک چلا رہے ہیں۔ اپریل میں فوج نے عمر البشیر کو حراست میں لے لیا اور عوام کی امانت ان کا اقتدار سیاسی قیادت کے سپرد کرنے کا اعلان کیا۔ اس روز سے عوام فوجی ہیڈ کوارٹر کے باہر دھرنا دیئے ہوئے ہیں کہ فوج ایک روز کی بھی تاخیر کے بغیر ٹرانسفر آف پاور کا پروگرام دے۔ سوموار کے روز فوج نے دھرنا ختم کرنے کا الٹی میٹم دیا جس کو عوامی اتحاد نے ماننے سے انکار کر دیا جس پر پیرا ملٹری فورسز نے عوامی اتحاد کے کیمپ پر اندھا دھند فائرنگ کر کے 108سوڈانی شہریوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا مگر دھرنا اب بھی نہ صرف موجود ہے بلکہ پہلے سے زیادہ پرجوش ہے۔ اب ملٹری کونسل کے سربراہ جنرل عبدالفتاح البرھان سیاسی اتحاد ’’ڈی ایف سی ایف‘‘ کے صدر مدنی عباس مدنی سے مذاکرات پر تیار ہیں ع کی مرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ مگر اب سیاسی اتحاد فوج پر اعتماد کرنے کو تیار نہیں۔ یوں گزری ہے سوڈان کے غمزدہ مسلمانوں کی عید۔