بھارت کے حالیہ پارلیمانی انتخابات کے بعدبھارت کاسیاسی منظرنامہ بدل چکاہے،مودی لہرمیں بھارت بطورہندوریاست مسلمانوں سے ایک ہزارسال کابدلہ چکانے اور حساب کتاب برابرکرنیکا کا تہیہ کرچکے ہیں۔اسی لئے کریمنلزکی ایک بڑی تعداد مودی کی کابینہ میں منسٹر بنادیئے گئے ہیں۔مودی کی نئی کابینہ میں شامل 56میں سے 22وزرا ء کے خلاف مختلف مجرمانہ مقدمات درج ہیں جبکہ 16وزرا ء نے اپنے خلاف اقدام قتل اور فرقہ ورانہ ہم آہنگی کو تباہ کرنے جیسے سنگین جرائم کے مقدمات کا اعتراف کیا ہے۔ بھارت میں انتخابی سرگرمیوں پر نگاہ رکھنے والی غیر حکومتی تنظیم ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمز(ADR)کی طرف سے جاری کردہ ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نریندر مودی کی نئی کابینہ میں شامل 56 وزیروں کے حلفیہ بیانات کے تجزیے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ ان میں سے 22یعنی 39فیصد وزراء کے خلاف مجرمانہ نوعیت کے مختلف مقدمات درج ہیں جب کہ 16یعنی 29فیصد وزیروں کے خلاف سنگین نوعیت کے جرائم میں ملوث ہونے کے الزامات کے تحت مقدمات چل رہے ہیں۔ خیال رہے کہ مودی کے گذشتہ پانچ سالہ دوراقتدارمیں قاتلوں،غنڈوں اوربدمعاشوں کو جوکھلی چھوٹ مل چکی تھی وہ 2019ء کے الیکشن تک انتہا پہ پہنچ چکی تھی اب جبکہ مودی بلاشرکت غیرے پوری سیٹیں جیت چکاہے تواب دنیا دیکھے گی منصف ہی قاتل اور اس کی ٹولی سزا یافتہ مجرم دہشتگرد ،غنڈے،ڈاکو اور ریپسٹ ہیں بھارتی پارلیمنٹ میں بیٹھ کر ہندوستان کا مستقبل طے کرینگے۔ نئی مودی کابینہ کے جن وزیر وں کے خلاف مجرمانہ نوعیت کے مقدمات زیر التوا ہیں، ان میں مودی کے بعد سب سے طاقت ور سمجھے جانے والے لیڈر اور حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کے صدر اور موجودہ وزیر داخلہ امیت شاہ بھی شامل ہیں۔ ان کے خلاف چار مقدمات درج ہیں۔ امیت شاہ کو گینگسٹر سہراب الدین شیخ اور اس کی اہلیہ کوثر بی اور تلسی رام پرجاپتی کے ماورائے عدالت قتل کے معاملے میں 2010 ء میں جیل بھی جانا پڑا تھا۔ البتہ بعد میں اسے اس مقدمے میں اس وقت رہائی ملی جب جج آرایس ایس کارکن نکلا۔ امیت شاہ کے خلاف قتل، جبرا پیسہ اینٹھنے اور اغوا کے الزامات میں مقدمات درج کیے گئے تھے۔امیت شاہ گجرات کے مسلم کش فسادات اور متعدد فرضی تصادم کے معاملات میں ملوث رہاہے۔گجرات کی ایک عدالت نے امیت شاہ کو 2010 ء سے 2012 ء تک گجرات میں داخل ہونے سے بھی روک دیا تھا۔ ستمبر 2012 ء میں سپریم کورٹ نے اسے گجرات واپس لوٹنے کی اجازت دے دی جس کے بعد اس نے صوبائی اسمبلی کے الیکشن میں حصہ لیا اور کامیاب ہوئے اور مودی کا دست راست اور سب سے بھروسہ مند ساتھی بن گیا۔ مودی کی نئی کابینہ میں شامل ایک اورنام پرتاپ چندر سارنگی کا ہے۔ ان دنوں سوشل میڈیا پر اس کا کافی چرچا ہے۔ حکمران بی جے پی اسے نہایت سادگی پسند لیڈر کے طور پر پیش کر رہی ہے اور اسے مشرقی صوبے اوڑیسہ کا مودی قرار دیا جاتا ہے۔ سارنگی نے اپنے حلف نامے میں اپنے خلاف سات مجرمانہ مقدمات کا ذکر کیا ہے، جس میں لوگوں کو دھمکانے، مذہب کی بنیاد پر مختلف فرقوں کے درمیان منافرت پیدا کرنے اور جبرا ًپیسہ وصول کرنے کے جرم بھی شامل ہیں۔دراصل پرتاپ چندر سارنگی کا نام اس وقت شہ سرخیوں میں آیا تھا، جب 1999 ء میں اوڑیسہ کے کیونجھر ضلع کے منوہر پور گائوں میں ایک آسٹریلوی مسیحی مشنری گراہم اسٹینس اور ان کے دو کم عمر بیٹوں کو ایک جیپ میں زندہ جلا دیا گیا تھا۔ اس واردات کے وقت سارنگی ہندو دہشت گردہندو تنظیم بجرنگ دل کا صوبائی صدر تھا۔بھارتی مسیحیوںنے قتل کے اس بھیانک واقعے کے لیے سارنگی کو ذمہ دار ٹھہرایا تھا۔سارنگی بجرنگ دل کے علاوہ ایک اور ہندودہشت گرد تنظیم وشوا ہندو پریشد سے بھی وابستہ رہاہے ۔ سنگھ پریوار کی تنظیمی صلاحیت، اس کا نیٹ ورک کیسا ہے، اس کا 2014ء اور 2019ء کے انتخابات میں اندازہ ہوچکا ہے۔ آج ہر شعبہ حیات میں وہ غالب ہیں عدالت کے جج صاحبان، وکلا، پولیس، فوج سے لے کر نصب و نسق میں سنگھ پریوار سے وابستہ یا اس کی آئیڈیالوجی سے اتفاق کرنے والے موجود ہیں ورنہ سابق فوجی، پولیس سربراہ یا عہدیدار ریٹائرمنٹ کے فوری بعد بی جے پی میں شمولیت اختیار نہ کرتے۔ اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ دوران ملازمت وہ ذہنی طور پر بی جے پی سے وابستگی کی تیاری کرچکے ہوتے ہیں۔ انتخابی نتائج کے اعلان کے بعد کابینہ کی تشکیل سے پہلے نریندر مودی اور امیت شاہ نے آر ایس ایس کے سربراہ سے مشاورت کی کیوں کہ ہندوستان کا وزیر اعظم اور صدر جمہوریہ کسی ریاست کا وزیر اعلی یا کابینی وزرا کا انتخاب آر ایس ایس سربراہ سے مشورہ کے بغیر ممکن نہیں۔ دہلی میں مودی کی تاج پوشی ہورہی ہے دوسری طرف مدھیہ پردیش میں ہندو غنڈے ایک مسلمان کے ساتھ انتہائی حیوانیت کا مظاہرہ کرتے ہیں، یہاں تک کہ اس کی بیوی کو بھی نہیںبخشاجاتااور اس سے جے شری رام کے نعرے لگوائے جاتے ہیں۔ پھرصوبہ ہریانہ کے گروگرام علاقے میں مسجد سے نماز پڑھ کے واپس آنے والے ایک مسلمان سے بدسلوکی کی جاتی ہے اوراس کو زدوکوب کیاجاتاہے۔ اس کے بعدبہار کے ضلع بیگوسرائے میں ایک مسلمان سے اس کا نام پوچھا جاتا ہے اوریہ معلوم ہونے پرکہ یہ مسلمان ہے اسے یہ کہہ کر گولی ماردی جاتی ہے ’’سالاادھرکیاکرتاپاکستان چلے جائو‘‘۔اس کے فوراََبعد انتہا پسند ہندوئوں کی جانب سے چارمسلمان نوجوانوں پر گوشت کھانے کا بہانہ بناکر تشدد کا ایک اور واقعہ سامنے آگیا۔ سماجی روابط کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر وائرل ہونے والی ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ چارمسلمان نوجوان کھانا کھا رہے ہیں کہ اس دوران ہندوتوا بریگیڈ سے تعلق رکھنے والے انتہا پسند ہندو موقع پر پہنچتے ہیں اور مسلمان نوجوانوں کو بری طریقے سے زد کوب کرتے ہیں۔ ان تازہ واقعات سے معلوم ہوتا ہے ہندوستان ہندو راشٹر بن گیا ہے۔ 2014ء میں بی جے پی کی کامیابی اور نریندر مودی کے سیاسی عروج کے بعد ہندوستانی عوام کاجوتنزل ہواوہ 2019 ء آتے آتے عوام کے سامنے ہے۔مودی حکومت کی کار کردگی کا جو حساب تھا ،اس میں بیروزگاری میں ریکارڈ اضافہ ، زرعی پیداوار میں شدید کمی ، صنعتی پیداوار میں سست روی ، کرنسی پر پابندی کے تکلیف دہ نتائج اوراضافی سیلز ٹیکس کے پیچیدہ نظام کی پریشانیوں کے علاوہ کچھ نہیں تھا، اسلئے یہ سوچنا بھی محال تھا کہ بی جے پی پانچ سال پہلے کی کامیابی دہراسکے گی ۔لیکن بھارت کے ہندوراشٹریہ کے ایجنڈے پریہ سب کچھ بھول گئے اور قوم پرستی اور ہندوتوا کی اینٹیں ایک دوسرے سے پیوست ہوگئیں اورہندوراشٹریہ کے ایجنڈے کی تکمیل پرہندئوں کی اکثریت باہم یکجان ہوئی اوروہ مودی کے نئے ہندوستان کا تصور ایک مضبوط اور ناقابل شکست ملک کے طورپردیکھنے لگے۔