سماجی ماہرین اور اہل علم نے ثقافت کی مختلف تعریفیں کی ہیں۔ برطانوی ماہر بشریات ای بی ٹائلر کے مطابق ثقافت اُس علم ، فن ، اخلاقیات ، خصائل اور صلاحیتوں کا مجموعہ ہوتا ہے جو کوئی معاشرے کے رکن ہونے کے ناطے اسے حاصل کرتا ہے ۔ جبکہ رابرٹ ایڈفیلڈر نے انسانی گروہ کے علوم اور خود ساختہ فنون کے ایک ایسے متوازن نظام کو ثقافت کہا ہے جو باقاعدگی سے کسی معاشرے میں جاری وساری رہتا ہے ۔ عربی زبان میں ثقافت کا لفظ فطانت ، زیرکی اور تجربے وہنر کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ، یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ ثقافت اصطلاح میں کسی قوم کے ان مخصوص روایات، چیدہ چیدہ ملبوسات، اچھے رسوم اور قابل مدح اقدار کو شامل ہے جن کی بقا کی صورت میں ایک قوم دنیا میں اپنی پہچان قائم کرتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں کسی قوم کی ثقافتی علامات کو ہم شعائر(نشانیاں)بھی کہہ سکتے ہیں کیونکہ انہی شعائر کی بنیاد پر قومیں پہچانی جاتی ہیں۔ ثقافت کے بنیادی طور پر دوپہلو ہے۔ایک مرئی اور دوسرا غیرمرئی ثقافت۔ مرئی ثقافت ایک قوم کے روایتی ملبوسات ،فیشنز ،کھانوں اور خوشی وغمی کے موقع پرہونے والی مخصوص سرگرمیوں کانام ہے جن سے اسی قوم کے لوگ نسل درنسل جڑے آئے ہیں۔ جبکہ غیر مرئی ثقافت ان اخلاقی اقدار اور مثبت رویوں کا نام ہے جن کو اپنانے سے ایک قوم کے لوگ اخلاقی طور پر فخر محسوس کرتے ہیں۔ گزشتہ دنوںپشتون یوم ثقافت بھی ملک بھر میں بڑے جوش و جذبے کے ساتھ منایا گیا ۔23ستمبر کو پشتون یوم ثقافت کے طور پر منانے کا فیصلہ آج سے چار سال پہلے پشتو اکیڈمی کوئٹہ کے ایک ادبی سمینار کے موقع پر ہواتھا جو اب ہر سال اسی تاریخ کو منایاجاتا ہے۔پشتون شاید دنیا کے ان چند اقوام میں سے وہ واحد قوم ہے جو آج بھی اپنے ثقافتی شعائر و اقدار سے جنون کی حدتک پیار کرتی ہیں ۔ مثال کے طور پرپگڑی پشتونوں کی مرئی ثقافت کا ایک اہم جزوہے۔گلوبل ولیج یا آج کے ڈیجیٹل دور میں اگرچہ پشتون معاشرے میں پگڑی کے پہننے کارواج بہت کم ہوگیاہے لیکن ماضی میں خال خال ایسے پشتون ہواکرتے تھے جن کے سر پر پگڑی نہیں ہوتی تھی۔ وقار اور عزت کا حامل یہ ثقافتی لباس اس معاشرے میں مردانگی اور حمیت کی علامت بھی سمجھی جاتاہے ۔ دوسری طرف پشتون معاشرے میں خواتیں پردے کیلئے پڑونی کے نام سے شال ا وڑھتی ہیں ، وہی ان کی ثقافتی پوشاک ہے ۔ حجرہ: پشتون سماج میں حجرے کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے جہاں پر گاؤں یا محلے کے لوگ رات کو روزمرہ معاملات پر بحث وتمحیص کرتے ہیں ، موسیقی کی محفلیں جمتی ہیں اور مہمان کو نہایت عزت وتکریم کے ساتھ ٹھہراتے ہیں۔ اتن (اتنڑ): اتن بھی پشتون ثقافت کی ایک ایسی مثال ہے جس نے مرور زمانہ کے ساتھ جدید شکل ضرور اختیار کرلی ہے مگریہ پشتون معاشرے میں آج بھی پوری آب و تاب کے ساتھ زندہ ہے ۔ اتن شادی ،عیدین اور جیت کی خوشی کے موقع پر ہونے والے اس روایتی رقص کا نام ہے جس میں حصہ لینے اور اس کے تماشائی دونوں حد درجے محظوظ ہوتے ہیں ۔ رباب: رباب موسیقی کے اس روایتی آلے کا نام ہے جس کے دم سے پشتونوں کے حجرے اور محفلیں آباد رہتی ہیں ۔پشتو فولکلور میں آدم خان اور درخانئی کی رومانوی داستان میں بھی رباب ہی کا ایک منفرد رول رہا ہے ۔ چغاکہ : چغاکہ بھی موسیقی کے میدان میں پشتون ثقافت کی ایک پرانی نشانی رہی ہے لیکن بدقسمتی سے اس کااستعمال آج کے جدید دور میں بہت سے علاقوں میں ترک ہوچکا ہے۔ پنگھٹ (گودر): گودر کا دور بھی اگرچہ اب نہیں رہا مگر پشتون دیہاتی علاقوں میں یہ ایک نمایاں حیثیت کا حامل ثقافتی ورثہ رہا ہے ۔ گودر پانی کے اس مقام کا نام ہے جہاں سے گاؤں کی دوشیزائیں گھڑوں میں پانی لاتی ہیں ۔گودر سے پشتون معاشرے کی بہت سی رومانوی داستانیں بھی وابستہ ہیں ۔دستار، چادر اور دوسرے ملبوسات کے علاوہ پشتونوں کے ثقافتی کھانے بھی بڑے مشہور ہیں جن میں لاندی کا گوشت ، اوگرہ ، کابلی پلاؤ، سیخ کباب، چپلی کباب، شنواری کباب ، شوربا، غٹے وریژے، شلومبے اور ٹیکلہ وغیرہ بڑے مشہور کھانے ہیں۔جبکہ ثقافتی کھیلوں میں سخی، کبڈی ، شاشا پٹکی ، پڑاکی ،کوتی لال، شکار،پٹ پٹونی،اکوبکو ،بیتے بڈئی مشہور کھیل ہیں۔دوسری طرف غیر مرئی ثقافت پشتون قوم کے ان تمام حمیدہ اقدار مثلا ًسچائی، دیانت، خدا ترسی، حیا، پاکدامنی ، مہمان نوازی ، وفااور غیرت سے تشکیل پاتی ہے جوشریعت کی روسے بھی مستحسن اور ممدوح سمجھے جاتے ہیں۔معروف پشتوشاعر مرحوم امیر حمزہ شنواری نے اسی بارے میں خوب کہا ہے ۔ پشتو ثقافت کیلئے تیئیس ستمبر کا دن متعین کرنے کامطلب ہرگز یہ نہیں کہ محض اس دن کو ہم محض تصویری نمائش کرکے اگلے سال تک ان سب ملبوسات اور روایات کوموقوف کریں بلکہ جینوئن اور حقیقی پشتون وہ سمجھا جائے گا جو سال بھر ان ملبوسات کو زیب تن کرنے کی عادت اپنائے اور ان تمام اخلاقی اقدار کو اپنانے پرکاربند رہے جنہیں ہماری شریعت نے بھی مستحسن قرار دیاہے۔