تورچھپر درہ آدم خیل کے پہاڑی سلسلے پر بساپرامن گاؤں ہے جہاں پر ہرآفریدی کاندھے پرسوا چار کلو کی کلاشن کوف لٹکائے دکھائی تو دیتا ہے لیکن یہاں خال خال ہی فائرنگ کی آوازسنائی دیتی ہے اور عموما اسی وقت فائرکی آواز یہاںکا سکوت سمیٹتی ہے جب کسی آفریدی کے گھرمیں ننھے آفریدی کی آمد یا آسمان پرعید کاچاند دکھائی دے،اب یہاں ایسی ہی فضا اور ایسا ہی ماحول ہے لیکن دس برس پہلے یہاں جنگ کی سی صورتحال تھی ٹی ٹی پی کے مسلح کارندے اس علاقے کو مسخرکرکے اسلام ’’نافذ‘‘ کر چکے تھے تب یہاں دہشت کاراج تھا ،آرمی پبلک اسکول پشاور میں بچوں کے قتل عام کے بعد ریاست نے تمام مصلحتیں پھینک کرفوج کو آگے بڑھنے کا حکم دیا فوج آگے بڑھی اور پھربہت کچھ ہوا اس بہت کچھ میں نیوز چینلنز کے میزبانوں اورنیوزکاسٹروں نے پہلی بار آئی ڈی پیزinternally displaced person (IDP) کی اصطلاح استعمال کی اس اصطلاح کے پیچھے پشتونوں کی وطن عزیز کی خاطر اک اور قربانی پنہاں ہے انہوں نے امن کی خاطر اور ہمارے لئے اپنے بھرے پرے گھر بارچھوڑے اور اپنے ہی ملک میں مہاجر بنے یہ بلاشبہ ان کا احسان ہے اگروہاں مسلح دہشت گردوں نے اپنی کمین گاہیں بنائی تھیں تو بحیثیت شہری کے یہ ان کا قصور نہ تھا اور نہ وہ اسکے ذمہ دار تھے لیکن انہیں کہا گیا کہ گھر چھوڑ دیں انہوں نے چھوڑ دیئے اوراپنے ہی وطن میں ہجرت کر گئے کوئی کہاں جا کر پناہ گزیں ہو اور کسی نے کسی مہاجر کیمپ میں خود کو رجسٹرڈ کرایایہاں ان پر کیا بیتی یہ ایک الگ داستان ہے پھرہشت گردوں کی سرکوبی اور امن کے بعد ان پر کیا بیت رہی ہے یہ بھی اک افسوسناک سچ ہے جو مشتعل اور ناراض پشتونوں کووطن بیزاروں کے حجرے کا راستہ دکھاتا ہے۔ میرا تور چھپر جانا ہوا تووہاں کے منہدم گھروں کے ملبے پر کھڑے آفریدی مشران کی خشک اداس آنکھیں اور جذباتی نوجوانوں کی زبانیں اسی شکوے کا اظہار کر رہی تھیں وہ ناراض تھے ان کا کہنا تھا کہ تاریخ سے پوچھ لیں فرنگیوں کے باپ میں بھی طاقت نہ تھی کہ آفریدیوں کو ان پہاڑوں سے بے دخل کرے لیکن ہم نے وطن کی خاطرامن کے لئے اپنے بھرے پرے گھر اور آباؤاجداد کی قبریںچھوڑیں اور اسکا صلہ یہ ملا کہ آئی ڈی پیز کو جو چار چار لاکھ روپے دیئے جا رہے ہیں ان میں ہمارا کہیں ذکر ہی نہیں،ہمیں آئی ڈی پیز ہی تسلیم نہیں کیا گیا کہ ہم حکومت کے بنائے گئے کیمپوں میں نہ رہے ،ہم کیوں رہتے جب ہمارے لئے ہمارے بھائیوں رشتہ داروں نے گھروں کے دروازے کھول دیئے تھے ، مجھے وہاں ایک سفید ریش بزرگ نے روک لیا جو فوج سے صوبیدار میجر ریٹائرڈ ہوئے تھے وہ کہنے لگے ’’ہمیں چھوڑیں یہ بتائیں کہ آج کی مہنگائی میںچار لاکھ روپے میں آپ دو کمروں کا مکان بنا سکتے ہیں ؟‘‘ پشتون بزرگ کی بات مکمل ہوئی تو ملبے کے ڈھیر پر کھڑے ایک نوجوان نے جذباتی انداز میں کہا’’ہمیں استعمال کیا گیامجھے بتائیں کہ ہم تو یہاںدہشت گرد نہیں لائے تھے اگر وہ یہاںآئے تو انہیں روکنا ریاست کی ذمہ داری تھی ہمیں کس بات کی سزا دی گئی ،ہمارا اس لڑائی میں گھر بار تباہ ہوا ہم دربدر ہوئے سب آپکی آنکھوں کے سامنے ہے ،اب یہ گھر بنانا کس کی ذمہ داری ہے وزیر اعظم پچاس لاکھ گھر بعد میں بنوائیں پہلے ہماری سروں پر چھت کا انتظام تو کریں‘‘۔ ان ہی شکووں شکائتوں اور غم غصے کو لہراکر منظور پشتین نے پشتون تحفظ موومنٹ کی بنیاد رکھی تھی جسے کابل سے ’’ہائی جیک ‘‘ کرکے پاکستان مخالف تحریک میں بدل دیا منظور پشتین نے مظلوم پشتین بن کرجو مطالبات کئے تھے اسے اسلام آباد سے توجہ ملنی چاہئے تھی لیکن یہاں کی سردمہری سے دہلی کی بغل بچہ کابل حکومت نے فائدہ اٹھا لیااورڈیورنڈلائن کے آس پاس بسے پشتون قبائل میں بے چینی پیدا کرکے پشتون نوجوانوں کو بغاوت پر اکسانا شروع کر دیا۔ مظلومیت کی یہ تحریک قومیت کا پل عبور کرکے نسلیت کی جانب بڑھتی جارہی ہے اسکی پہچان وطن مخالف نعرے بن چکے ہیں، اسکرپٹ کے مطابق پشتون نوجوانوں کو ریاست کے خلاف کھڑا کیا جارہا ہے ، فوج کے سامنے لایا جارہا ہے حیدر جاویدصاحب پشاور کے باخبرسینئر صحافیوں میں سے ہیں اوروہ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف سخت موقف رکھنے والوں میں سے ہیں۔ ان کے قلم نے کبھی اسٹیبلشمنٹ سے رو رعائت نہیں کی انہوں نے اپنے ایک کالم میں منظور پشتین کی تحریک کو خوب کھنگالتے ہوئے ان سے پوچھاتھا کہ وہ بتائیں دس سے پندرہ دسمبر2017ء میں افغانستان گئے تھے یا نہیں اور کیا انہوں نے وہاں کسی ولی داد قندھاری سے ملاقات کی تھی؟انہوں نے اپنی تحریر میں کئی سوال اٹھائے تھے جنکا جواب منظور پشتین آج تک نہ دے سکے ۔ افغان امور پر نظر رکھنے والے جانتے ہیں کہ ولی داد قندھاری کون ہے افغان انٹیلی جنس کے اس اعلیٰ عہدایدار سے منظور پشتین کی ملاقات کا کیا سبب ہوسکتا ہے ؟ ایک عام شہری کو دوسرے ملک کے انٹیلی جنس افسران سے ملنے کی کیا ضرورت پڑ سکتی ہے؟ کہا جاتا ہے کہ منظور پشتین کی ولی داد سے یہ ملاقات بلوچستان کی پشتون بیلٹ کے ایک قوم پرست پشتون سیاستدان کی مدد سے ہوئی تھی اس ملاقات میں کس کی مزاج پرسی کی گئی کس سے کا حال چال پوچھا گیا اور کیا راز و نیاز کی باتیں ہوئیں یہ منظور پشتین صاحب آج تک چھپائے ہوئے ہیں لیکن جو بات چھپ نہیں رہی وہ اس ملاقات کے بعد پی ٹی ایم کے لئے ہونے والے مظاہروں میں لندن ،جرمنی اور امریکہ میں مقیم کچھ افغان نوجوانوں کی شرکت ہے یعنی دکھ یہاں جنم لیں اور دردزہ وہاں اٹھے۔ حال ہی میں بنوں میں ہونے والے جلسے میں علی وزیر نے نہائت جذباتی انداز میں پاک افغان سرحد پر لگائی جانے والی باڑھ کو اکھاڑ پھینکنے کی دھمکی دی ہے کوئی علی وزیر صاحب سے پوچھے کہ اس باڑھ سے انہیں کیا تکلیف ہے ،سرحد کے پار پشتون قبائل بستے ہیں تو اللہ انہیں آباد رکھے بسائے رکھے وہ ان کے میل ملاقات کے لئے کسی طریقے پر کسی وسیلے پر بات کریں انہیں اس خاردار باڑھ سے کیا خار جو دہشت گردوں اور مسلح گروہوں کی آمدو رفت روکنے کے لئے لگائی گئی ہے،ان دہشت گردوں کویہاں والے پشتون پسند کریں گے نہ وہاں والے،دونوں ہی امن سے رہنا چاہتے ہیںانہیں رہنے دیا جائے اس باڑھ کی وجہ سے تو پاکستان کو شالیمار باغ سمجھ کر ٹہلتے ہوئے آجانے والوں کو ہی تکلیف ہے ،علی وزیر کا یہ بیان دراصل پشتون تحفظ موومنٹ کے ایجنڈا واضح کر رہا ہے کہ’’ بیچ میں بات کچھ اور ہے ‘‘پی ٹی ایم قبائلی علاقوں کے مصیبت زدوں کے زخموں پر مرہم رکھنے کی آڑ میں کابل کی خواہش پر پشتون نوجوانوں کی راہ میں پھندے بھی لگا رہی ہے۔