بات اگر صرف ’’جب آئے گا عمران ‘‘ یا ’’میاں دے نعرے وجنے ہی وجنے نیں‘‘ تک ہوتی تو شاید پاکستان ان اوکھے ویلوں سے آسانی سے باہر نکل آتا۔مگر سپریم کورٹ کے فیصلے نے بات کو اور بھی الجھا دیا ہے۔ دنیا بھر میں اربن مڈل کلاس کسی بھی ملک میں سیاست میں جو رجحانات Trends لاتی ہے وہ کبھی بھی آئین ۔جمہوریت اور ریاست سے بڑے نہیں ہوتے۔ ابھی ایک فارن کوالی فائیڈ ڈاکٹر صاحب کا پیغام آیا Whatsapp پر ۔ جی ہمارا لیڈر انقلاب لا رہا ہے۔ اس وقت نون۔۔ جنون اور اسٹیبلشمنٹ سبھی پریشان ہیں۔ میاں نواز شریف عدم اعتماد کے خلاف تھے جب اداروں نے سابق حکومت کی بغل سے بیساکھیاں نکال لینے کا فیصلہ کیا۔ کس طرح اتحادی ملتے گئے۔۔کھیل آگے بڑھتا گیا۔ جنرل ضیاء نے جونیجو کی حکومت کو 88 میں صرف 3 سال کے بعد فارغ کردیا۔ ایک حادثے نے جنرل صاحب کو منظر سے ہٹا دیا۔ مگر تب سے اب تک ہر وزیر اعظم اپنے فیصلوں میں اتنا آزاد نہیں ہوتا۔۔۔ جتنا آئین انہیں آزاد دکھاتا ہے۔ بے نظیر سے نوازشریف تک اور پھر شریفس سے خان تک۔پنڈتوں کی ایک بہت بڑی تعداد پی ڈی ایم کو سمجھا رہی تھی کہ خان گورننس اپنے ہی بوجھ تلے دب جائے گی۔ عصر کے وقت کیوں روزہ توڑ رہے ہو؟ مگر آصف زرداری ۔۔۔ چھوٹے میاں صاحب اور مولانا۔۔۔ پروین شاکر کے اس شعر کی تفسیر بنے ہوئے تھے۔ بادباں کھلنے سے پہلے کا اشارہ دیکھنا۔۔۔ میں سمندر دیکھتی ہوں تم کنارہ دیکھنا۔ بادباں کھل گیا ۔۔ ۔ بڑی مشکل سے ۔ مگر خان کا اندازِ سیاست ؟ وزیر اعظم ہائوس سے نکلنے کے بعد اور نکلنے سے پہلے ۔ایک ایسا بیانیہ بنانا۔۔۔ جس سے امریکہ اور فوج ہر دو قسم کی اسٹیبلشمنٹ حیران بھی ہے اور پریشان بھی ۔ بات صرف یہاں تک ہی نہیں رکی ۔ پنجاب کا ذکر پھر کبھی سہی مگر اپنے عہد میں تاریخی قرضے لے کر ۔۔۔ وزیر اعظم نے گورننس کے ریکارڈ توڑ دیئے۔ سنجیدہ پنڈتوں اور اکیڈیمکس کی بات الگ رکھیں۔ یہاں اچھا خاصا پڑھا لکھا مڈل کلاسیا۔۔ ۔ صرف عمران کی وجہ سے ریاست کے ان تضادات کی بات کرنے لگا ہے جو 75 سال سے ہیں۔ ان گرہوں کو کھولنے میں شاید ہماری عمریں بیت جائیں۔مثلاً ہم امریکہ کے غلام کیوں ہیں؟ میں آپ کو غلامی سے آزاد کروا کر دم لوں گا۔پنڈت تو جانتے ہیں کہ یہ صرف بڑھک ہے مگر غلام ابن غلام عوام کے لیے میلوڈی میوزک ہے۔ ہمارے ہاں فوج یا اسٹیبلشمنٹ کا کردار سیاسی اور سول گورننس میں ہوتا ہوگا۔مگر اسکی بھی ایک تاریخ ہے اور ایک پس منظر ہے۔ یہ سوال بڑا پرانا ہے کہ بھارت اور پاکستان اکٹھے آزاد ہوئے۔۔۔دونوں کی تقدیر اور تدبیر اتنی جدا کیوں ہے؟ ایک نیا سوال بھی ہے کہ بنگلہ دیش ہم سے 1971 میں جدا ہوا۔۔۔ وہ ہم سے اتنا آگے کیوں اور کیسے نکل گیا؟ وہ سب جو تحریک عدم اعتماد لائے اُن کا ماضی اور گورننس بہت تابناک نہیں مگر اس سے یہ کہاں طے ہوتا ہے کہ آپ آئین کی خلاف ورزی کریں۔ آپ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک آجائے تو آپ آئین توڑ کر اسمبلیاں بھی توڑ دیں۔ جب عدالت آپ کو درست کرے تو آپ اس پر بھی الزام دھر دیں۔ میر جعفر اور سراج الدولہ کی مثالیں دیکر ریاست اور اداروں کے خلاف بیانیہ کیا رنگ لائے گا؟ سنجیدہ پنڈتوں کو پتہ ہے۔ ادارے جانتے ہیں۔۔ مگر وہ مڈل کلاس اور سوشل میڈیا پر رہنے والی کلاس کو تلخ زمینی حقائق کا اندازہ نہیں۔ عمران کو اپنی فین فالونگ کا اندازہ ہے ۔ اس لیے وہ ہر صورت نومبر میں ایک اہم تعیناتی خود کرنے کے لیے مسلسل ہر طرف فائرنگ کر رہے ہیں۔ مسلم لیگ (نون) اور پھونک پھونک کر قدم رکھنے کی بجائے قدم اٹھانے سے بھی ڈر رہی ہے وہاں عمران خان کو جلدی ہے۔ بہت جلدی۔ کیوں؟ اسے کہنا نومبر آرہا ہے۔ الیکشن کمیشن عمران کے مطابق جانبدار، امریکہ سازشی ، مخالف سیاستدان ، چور اور ڈاکو اور عدلیہ ان کے خلاف، ادارے چلانے والے میر جعفر اور میر صادق ۔ بات سیاسی تقسیم سے دور بہت دور نکل گئی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کا خیال ہے کہ اگر ہم نامقبول فیصلے کر لیتے ہیں ۔ آئی ایم ایف کی بات مان لیتے ہیں ۔ اگلی قسط مل جاتی ہے۔ پیٹرول کی قیمتیں بڑھنے سے اس کا ووٹ بنک سکڑ جاتا ہے اور ایسے میں اسٹیبلشمنٹ عمران کی جارحانہ بائولنگ کی تاب نہیں لا پاتی۔ 2022 ختم ہونے سے پہلے حکومت کو الیکشن کروانے پڑ جاتے ہیں تو حکومت کی سیاسی موت واقع ہو جائے گی۔ اس ساری صورتحال کو حکومت ،عمران اور اسٹیبلشمنٹ تینوں جانتے ہیں ۔ حکومت کے اندر اس پر شدید اختلاف ہے کہ یہ سب فیصلے ہم کریں یا نگران حکومت سے کروائیں۔ نومبر تعیناتی بھی نگرانوں کو کرنے دیں۔ حکومت ہی کا ایک حصہ اس خیال کا حامی ہے کہ مشکل فیصلے کر لیں۔ آئی ایم ایف سے اگلی قسط لے لیں اور دسمبر تک عوام کو کچھ ریلیف کسی اور طرح دیکر یہ مشکل وقت گزار لیں اور الیکشن 2023 میں کروائیں۔ اسٹیبلشمنٹ اس وقت پریشان ہے، کنفیوز ہے اور اگر میں غلط نہیں تو قدرے تقسیم بھی ہے۔ مگر ایک معتبر پنڈت نے اسٹیبلشمنٹ کی ایک طاقتور شخصیت کو مشورہ دیا کہ اس طرح کی غیر جانبداری آپ کو شدید نقصان پہنچا رہی ہے اور مزید نقصان پہنچائے گی۔ فرض کریں آپ فوری الیکشن کروا لیتے ہیں ، ایک منقسم مینڈٹ آتا ہے عوام کی طرف سے تو آپ کیا کریں گے؟ عمران کو جن وجوہات پر اقتدار سے باہر کیا گیا (امریکی سازش نہیں) وہ پھر آگیا تو ؟ مسلم لیگ (نون) اور اتحادی جیت کر حکومت بنا لیتے ہیں۔ عمران خان دھرنے اور احتجاج کے لیے پھر نکل پڑتے ہیں تو کیا آپشن ہوگا؟ پنڈت اور مین فرام اسٹیبلشمنٹ میں جو گفتگو ہوئی اس میں سارے آپشن ڈسکس ہوئے۔ وہ لوگ جنہیں انقلاب کی اے بی اور سی کا بھی نہیں پتہ پاکستان میں انقلاب کے نعرے لگا رہے ہیں۔ پاکستان اس وقت شدید خطرات کی زد میں ہے۔ یہ خطرے باہر سے نہیں اندر سے ہیں۔ پاکستان کی مستقل کیمسٹری کیا صرف نعروں اور جلسوں سے بدلی جا سکتی ہے؟ عوام میں تالی بج رہی ہے اور کہیں خطرے کی گھنٹیاں ۔ کاش کوئی عمران کو سمجھا پاتا۔