ہم میں سے ہر کوئی دودھ کا دھلا اور زم زم کا پلا ہے جب تک اسکی کوئی آڈیو یا وڈیو لیک نہ ہوجائے۔خلق خدا جسے نقارہ خدا کہا جاتا ہے ایسے موقعوں پہ سچ مچ نقارے کا کام کرتی ہے اور ایسے مواد کو پپول اور چوس کر چٹخارے کے ساتھ ہر میسر آلہ نشر و اشاعت پہ استغفراللہ کہہ کر افادہ خاص و عام کے لئے جاری کردیتی ہے اور خود بھولی سی بن کر تراویح کی نیت باندھ لیتی ہے۔ہم بہو بیٹیاں یہ کیا جانیں۔ اب مسئلہ سنی سنائی کا تو رہا نہیں کہ زیب داستاں کے لئے دو چار اپنی طرف سے بڑھا دیں ۔ اس کی کمی ان تبصروں سے پوری کی جاتی ہے جو ایسے مواد کو آگے بڑھاتے ہوئے ضمیمے کے طور پہ نتھی کردیا جاتا ہے۔ہم فرشتوں،ولیوں اور پیغمبروں پہ مشتمل قوم ہیں۔ہم میں ایسے ناپاک گناہگاروں کا کیا گزر جو ذرا سی ترغیب پہ سر تا پا پگھل جائیں۔ہم زلیخاوں سے دامن بچا کے چلنے والے ، پاک دامن ہیں۔ہمارے کرتے پیچھے سے چاک ہیں۔آگے ہم نے بڑے خوبصورت ایپرن باندھ رکھے ہیں۔ آپ بدنام ہی نہیں سچ مچ بد ہیں اگر آپ نے اپنے ایپرن کا خیال نہیں رکھا۔وہ بھی اس دور میں جب آپ کی ساری نیک نامی موبائل فون کے ایک بٹن پہ ٹکی ہوئی ہو۔اتنا احمق کوئی نہیں ہوتا۔ ان حالات میں تو بالکل نہیں۔جب آپ نے مگرمچھوں سے باقاعدہ جنگ چھیڑ رکھی ہو اورآپ کو دھمکی دی جا چکی ہو کہ اگلی پیشی نیب میں نہیں ہوگی۔ اتفاق کی بات ہے۔میرا پہلا باقاعدہ کالم آج سے سات سال قبل اسی موضوع پہ شائع ہوا۔تب ایک مرد مجاہد کے سپوت ااور ایک عفیفہ کی اسی قسم کی فون کال منظر عام پہ آئی تھی۔ میثاق جمہوریت پھر یاد آگیا۔ اس کا ایک نکتہ یہ بھی تھا کہ خفیہ اداروں کو سیاست دان ایک دوسرے کے خلاف استعمال نہیں کریں گے۔کسی بھی طرح نہیں ۔نیب تو مشرف نے بنائی تھی ، اسے غالبا استثنا حاصل ہوگا جو آج تک چلا آرہا ہوگا۔ اب یہ حرکت جس نے بھی کی ہے اسے علم تو ہوگا کہ ایسی سناری چوٹوں سے یاروں کا کیا بگڑتا ہے۔ آج کے چسکے کل کسی کو یاد بھی نہیں رہتے۔ کسی کو لیکن کسی نے بھی یہ حق کیونکر مل گیا کہ وہ کسی کی بھی نجی گفتگو ریکارڈ کرے۔ظاہر ہے ریکارڈ کسی مقصد کے تحت ہی کیا جاتا ہے۔وہ مقصد پورا نہیں ہوگا۔ چئیرمین نیب کوئی عوامی نمائندہ نہیں ہوتا۔ اس پہ غالبا باسٹھ تریسٹھ بلکہ چونسٹھ اور پینسٹھ کا اطلاق بھی نہیں ہوتا۔ایسی صورتحال کے لئے بس عیسی بن مریم سے منسوب وہ واقعہ ہی دہرایا جاسکتا ہے۔ پہلا پتھر وہ مارے جس نے خود کوئی گناہ نہ کیا ہو۔ ہم کتنے ہی فرشتے سہی،پاک دامن و باصفا سہی،صالح و پاکباز سہی،ہمارے جعلی اکاونٹس تو ہیں۔ٹی ٹی بھی لگی ہوئی ہیں۔منی لانڈرنگ بھی ہے۔چند ایک چھوٹے موٹے گھپلے اور ہیں۔2008ء کی بات ہے۔ صوبے اور وفاق میں پیپلز پارٹی کی حکومت تھی۔ مسٹر ٹین پرسنٹ مسٹر ٹو ہنڈریڈ پرسنٹ بنے ہوئے تھے اور ملک کے صدر بھی لگے ہوئے تھے۔میرے گھر بجلی کا بل مسلسل اضافی آرہا تھا۔یہ صرف میرا مسئلہ نہیں تھا۔یہ گھر گھر کی کہانی تھی۔تب کے ای ایس سی پرائیوٹائز نہیں ہوئی تھی۔ میں نے اوپر بات کی۔اتنی اوپر کہ صدر صاحب کے گھر تک پہنچ گئی۔ اگلے روز ایک صاحب گھر آئے۔گھر میں رکھی کاجو کی مٹھائی نوش فرمائی ۔پھر گویا ہوئے۔بل تو دینا پڑے گا سائیں۔انسٹالمنٹ ہوجائے گی۔آپ کو پتا ہی ہے بل کہاں کہاں جاتا ہے۔میں نے پلیٹ سامنے سے ہٹالی اور چپ چاپ بل بھردیا۔تو یہ چھوٹے چھوٹے معاملات ہوتے رہتے تھے۔اربوں کے فنڈز جو صوبے کو جاری ہوئے کہاں خرچ ہوئے اس کا حساب بھی نہ لیں۔اٹھارویں ترمیم کا سہرا باندھے ایک شخص کا یہ حال تھا کہ پورا صوبہ اس کے نوخیز بیٹے کے ہاتھ میں تھا اور اب بھی ہے۔ جیسے سندھ نہ ہو راجہ داہر کا راج پاٹ ہو۔2014 ء میں بلاول کی عمر کیا رہی ہوگی اور اس کی صوبے میں کیا حیثیت تھی کہ اس نے صوبے کے فنڈز یونہی بیٹھے بٹھائے روکے رکھے۔یہ صوبہ سندھ کے ترقیاتی فنڈز کی دوسری سہ ماہی کی ادائیگیاں تھیں جو پیپلز پارٹی کے نوجوان چئیرمین نے اپنے باپ کے علم میں لائے بغیر روکے رکھیں۔بعد میں وزرا ء کی شکایات پہ بزرگوار کو علم ہوا تو انہوں نے فنڈز جاری کئے۔ساتھ حیرت کا اظہار بھی کیا۔ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات۔ یہ صوبہ ہے یا بازیچہ اطفال۔اسی اٹھارویں ترمیم کے بعد صحت اور تعلیم کا صوبے میں کیا حال ہوا۔گڑھی خدا بخش میں بھٹو کے مزار کے سائے تلے فاقہ زدہ بچے چیتھڑے لٹکائے اس دھول میں اٹے کھیلتے نظر آتے ہیں جو ابھی ابھی مزار پہ حاضری کے لئے آنے والی پجیرو اڑا کر گئی ہے۔ لاڑکانہ میں ایڈز زدہ بچو ں کی تعداد لرزا دینے کی حد تک بڑھ گئی ہے۔سندھ غالبا بچوں کے حق میں ظالم ترین صوبہ ہے۔سندھ میں عمر کوٹ میں ایک اسکول ایسا ہے جہاں بچوں کو ایک گلاس صاف پانی پینے کو دیا جاتا ہے۔بچے اسی لالچ میں اسکول جاتے ہیں کہ ایک گلاس صاف پانی پینے کو مل جائے۔اسی سندھ میں نو عمر چئیرمین کی سالگرہ کا کیک اور ناشتے کے بل قومی خزانے سے ادا ہوتے رہے۔پیپلز پارٹی کے سینیٹرز صوبے کے فنڈز ددوسرے صوبوں میں لگانے کی عجیب و غریب حرکت کے موجد بھی ہیں۔ان میں سے ایک سابق وزیر داخلہ رہے ہیں جن کے دور حکومت میں مذکورہ بالا غیر اخلاقی فون کال لیک کا واقعہ ہوا۔ اب وفاقی حکومت نے تنگ آکر کچھ اسپتال اپنے زیر انتظا م لئے ہیں تو جناح اسپتال میں کوئی دس سال سے تعینات اہم عہدوں پہ فائز معزز ڈاکٹر صاحبان اچانک رخصت پہ چلے گئے ہیں۔اٹھارویں ترمیم کی گنگا میں پیپلز پارٹی نے جی بھر کے اشنان کیا ہے۔اسی لئے اس پہ انہیں کسی کی حرف زنی بھی گوارا نہیں۔اسی اٹھارویں ترمیم کے طفیل دو صوبے دو خاندانوں نے آپس میں کیک کی طرح تقسیم کرلئے اور وفاق میں بھی باری باری اقتدار کے مزے لوٹ لئے۔ایسے میں کسی کی غیر اخلاقی آڈیو یا وڈیو میں بڑے شوق سے دیکھنے کو تیار ہوں لیکن رتو ڈیرو کے ایڈز زدہ بچے مجھے دیکھنے نہیں دے رہے۔عیسی نے کہا تھا ۔پہلا پتھر وہ مارے جس نے کوئی گناہ نہ کیا ہو۔ ایسے میں پہلا پتھر مارا تو گیا ہے لیکن غلط وقت پہ۔اس کا فائدہ نہیں الٹا نقصان ہے یعنی پتھر بومرنگ کی طرح پلٹ کر لگ سکتا ہے ۔جیسے اعمال لوٹ لوٹ کر آرہے ہیں۔