عجیب آدمی ہے یہ جس کا نام اوریا مقبول جان ہے۔اپنے نام سے اپنے کام تک ہر لحاظ سے الگ، منفرد اور ممتاز۔اور جو شخص الگ، منفرد اور ممتاز ہو ،اسے عجیب کہنا بنتا ہے۔اس کی مخالفت تو مشکل ہے ہی لیکن حمایت بھی کم مصیبت نہیں کیوں کہ یہ اپنے مخالفوں اور حمایتیوں دونوں کو آزمائش میں ڈالے رکھتا ہے۔صرف مشکل میں نہیں بلکہ شدید مشکل میں۔چنانچہ بہت محبت کرنے والے بھی بفر زون کی اس لکیر کے پار کھڑے نظر آتے ہیں جو دو منطقوں کے درمیان واقع ہوتی ہے۔ غالب نے کہا تھا شرع و آئین پر مدار سہی ایسے قاتل کا کیا کرے کوئی اب شرع کے معاملے میں تو اوریا کا سر تسلیم خم ہے۔ اس طرح کہ کسی اور کا کیا ہوگا۔ہاں البتہ آئین کی تشریح اس کی اپنی ہے۔بعض کا کہنا ہے کہ شرع کی تشریح بھی اس کی اپنی ہے ۔ خیر ،آپ اختلاف کریں یا اتفاق۔ مصرعہ اپنی جگہ رہتا ہے ایسے قاتل کا کیا کرے کوئی سوچتا ہوں تو کھلتے رنگ کے ایک خوب صورت نوجوان کی شبیہہ ذہن میں ابھرتی ہے۔ سیاہ سجتی ہوئی داڑھی میں کہیں سفید بالوں کے پھول اس کی دل کشی کوبڑھاتے تھے۔وہ کوئٹہ میں منعقدہ ایک مشاعرے کی نظامت کر رہا تھا جس کی صدارت وزیر اعلیٰ اکبر بگٹی کر رہے تھے۔باید و شاید یہ وہی مشاعرہ تھا جس میں صوبائی افسراور بہت عمدہ شاعر عطا شاد مرحوم نے ایک ایسی ترنگ میں جو روزشام کے وقت انہیں لپیٹ میں لے لیتی تھی، نواب اکبر بگٹی سے گستاخانہ اصرار کے ساتھ شاعری سنانے کی فرمائش کی تھی اور نتیجتاً اپنے عہدے سے معزول ہوئے تھے۔ اس زمانے میں بلوچستان کے شاعروں میں دو سرکاری افسر مشہور تھے۔عطا شاد اور اوریا مقبول جان۔عطا شاد کے دو تین شعر بھی سنتے جائیے۔ یک لمحہ سہی عمر کا احسان ہی رہ جائے اس خلوتِ یخ میں کوئی مہمان ہی رہ جائے مجھ شاخِ برہنہ پہ سجا برف کی کلیاں پت جھڑ پہ ترے حسن کا احسان ہی رہ جائے ٭٭٭٭٭ اس زمانے میں اقبال ساجد کا ایک مطلع بہت مشہور تھا اور اس زمین میں شعر نکالنا مشکل تھا۔ کل شب دل آوارہ کو سینے سے نکالا یہ آخری کافر بھی مدینے سے نکالا لیکن جب میں نے اوریا کے یہ شعر پڑھے تو تو ان کے زور کلام کا قائل ہوگیا ہر رات تیری یاد کو سینے سے نکالا جیسے کسی مورت کو دفینے سے نکالا سکہ نہیں چلتا تری سرکار میں ورنہ کیا کیا نہ ہنر ہم نے خزینے سے نکالا ہم ایسے برے کیا تھے کہ نفرت نہ محبت رکھّا نہ کبھی پاس، نہ سینے سے نکالا یہ بطور شاعر اوریا مقبول جان سے میرا پہلا تعارف تھا۔ ہر ذہین اور متجسس آدمی کی طرح اوریا مقبول جان ایک تخلیقی جہت پر مطمئن اور قانع نہ ہوئے۔ہر گوشۂ زندگی کو پرکھا۔ہر شعبۂ اظہار کو چکھا۔ ایوارڈ یافتہ ڈرامے لکھے۔بھرپور عشق کیا اور شادی کی اور دونوں کا نتیجہ پہلے شعری مجموعے ’’ قامت ‘‘ کی صورت میں نکلا۔ کالم نگاری کی طرف وہ بعد میں آئے ۔ یہ کامیابیاں اور افسری بہت کافی تھیں کہ وہ اس نظام کا ایک فعال اور کار آمد پرزہ بن کر رہ جاتے جس نے ان کے ہم عمر اور ہم عصر ایسے بہت سے پرزے پہلے سے ڈھال رکھے تھے لیکن مصیبت یہ ہوتی ہے کہ بظاہر ملتے جلتے ہونے کے باوجود کچھ لوگ الگ، ممتاز اور منفرد ہوتے ہیں۔پرزہ بننے کے لیے موزوں نہیں ہوتے ۔پرزے تو کیا بنتے ،اسی نظام کے لیے مصیبت بن جاتے ہیں۔ دل میں گداز بھی ہو اور آگ بھی اور دونوں بیک وقت شدت اور جذباتیت کے ساتھ ہوں تو آدمی مطمئن ہو ہی نہیں سکتا۔بنی بنائی ڈگر توبساط کے ان مہروں کے لیے ہوتی ہے جو آگ اور گداز دونوں سے عاری ہوں۔صاحب دل تو الگ راستا چنتا ہے۔اوریا نے الگ راستا چننا ہی تھا۔یہ مشکلات اور آزمائشوں کا راستا تھا۔اور اس راہ میں یہ تو ہوا کرتا ہے۔ 2008 ء میں اوریا ،پاکستان کی طرف سے او آر سی ڈی ((ORCDکے سربراہ بن کر تہران میں تعینات ہوئے تھے۔۔وہ اس عہدے کے لیے ہر لحاظ سے موزوں ترین تھے۔پرویز مشرف کی مطلق العنانیت کا دور تھا اور بڑے بڑے صحافی بات کرتے ہوئے تھراتے تھے۔ایک سرکاری افسر کی بساط اور مجال ہی کیا تھی کہ اس صدر کے خلاف بات کرے جو فوج کا سربراہ بھی تھا لیکن اوریا نے تہران میں ایک ٹی وی چینل کو جو انٹرویو دیا وہ پرویز مشرف کے لیے ناقابل برداشت تھا۔اسی زمانے میں میرا ایران جانا ہوا۔ تہران میں اس انٹرویو کی گونج تھی ۔ کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ اوریا نے بہت جرأت کا مظاہرہ کیا ۔کچھ کا کہنا تھا کہ دیار غیر میں اپنے ملکی سربراہ کے بارے میں باتیں نہیں کہنی چاہئیں تھیں۔بہرحال اس پر سب متفق تھے کہ اوریا نے جو سچ سمجھا اور جو طریقہ مناسب جانا اس پر بلا خوف عمل کر گزرے۔اوریا کو واپس بلا لیا گیا۔ان سے چھٹکارے کی کئی تدبیریں سوچی گئیں۔ایک تدبیرنیب کی پوچھ گچھ بھی تھی۔حکومت پنجاب میں اپنے اظہارکی وجہ سے وزیر اعلیٰ کے لیے وبال بنے رہے حتیٰ کہ افسر بکارِ خاص بن کر ہی دم لیا۔لیکن قیامت نے ہنوز دم کہاں لیا تھا۔کالم نگاری کسی سرکاری میٹنگ کی محتاج کہاں ہوتی ہے ۔ اوریا جب لاہور منتقل ہوئے تو مختلف مشاعروں اور محفلوں میں ان سے ملاقاتیں رہیں۔قریبی دوستی نہ ہونے کے باوجود بہت اچھا تعلق چلا آتا ہے۔کبھی کبھار گرانی بھی رہی کہ میری ایک دو محفلوں میں جہاں ان کی گفتگو طے تھی ، وعدہ کرنے کے باوجود نہیں آئے ۔یہی سوچا کہ کوئی مجبوری رہی ہوگی لیکن مطلع بھی نہ کرنے اور فون بھی وصول نہ کرنے کی وجہ سمجھ میں آنی مشکل تھی ۔لیکن ان سے میرا دلی تعلق خراب نہیں ہوا کہ اس کی بنیاد ان سے ملاقاتوں پر تھی ہی نہیں۔میں ان کی اس صفت کا ہمیشہ سے معترف رہاکہ کہتا ہوں وہی بات سمجھتا ہوں جسے حق وہ اس اعلائے کلمتہ الحق میں نہ ذاتی مصلحت کو آڑے آنے دیتے ہیں،نہ خوف لومتہ لائم کو ۔ اور ایسے لوگ ہیں ہی کتنے ۔ایسے لوگ ہیں ہی کتنے جو سرکاری پلاٹوں کو بھی ٹھوکر مار دیں اور سرکاری مراعات کو بھی ،اس لیے کہ انہیں ناجائز سمجھتے ہوں۔ ایسے افسر ہیں ہی کتنے جن پر ایک پیسہ بد عنوانی کی انگشت نمائی بھی نہ کی جاسکتی ہو ۔ یہ ایک گھاٹی سے ہوکر گزرنا تھا۔اور تم کیا سمجھتے ہو گھاٹی کیا ہے ؟میں نے کبھی انہیں نہ ہر فن مولا سمجھا، نہ معاشیات کا ماہر ، نہ فقیہ نہ محدث۔لیکن اس زندگی کے ہر شعبے میں جن سے ان کا بھرپور واسطہ رہا ہے ، ان کی بات نظر انداز نہیں کی جاسکتی کہ یہ ایک صاحب ِمطالعہ ،صاحب ِدل اور صاحبِ بصیرت کا نقطہ ٔ نظر ہے۔اور اسے ایسی ہی عزت اور توقیر ملنی چاہیے ۔وہ مغرب ، میڈیا ،مروجہ جمہوریت، موجودہ سیاست کے بارے میں جو رائے رکھتے ہیں وہ نئی ہرگز نہیں ۔ 80سال پہلے حضرت مولانا اشرف علی تھانوی کی کڑی تنقیدکتابوں میں موجود ہے ۔ خود مغربی تعلیم یافتہ اقبال کی نظر میں ان بتوںکی کیا حیثیت ہے ، سب جانتے ہیں۔ لیکن اس دور میں جب ان مورتیوں کے خلاف ایک حرف بولنا زمانے بھر کی ملامت مول لینے کے برابر ہے ،اوریا نے ڈٹ کر ان کے خلاف بات کی ہے ۔ کیا کوئی اور ہے جس کی طرف یہ جملے منسوب ہوں۔ ’’ ہمارے ہاں جب سے میڈیا آیا ہے، بڑی شخصیتیں بننا بند ہوگئی ہیں ‘‘ ’’ میڈیامیں مجھ سمیت کوئی ایک آدمی بتادیں جس نے معاشرے پر دیرپا مثبت اثرات مرتب کیے ہوں‘‘ ایسے اہم دانشور پر بہت بات کی جاسکتی ہے لیکن ایک کالم میں کتنی بات ہوسکے گی ۔ آپ اوریا مقبول جان سے بے شک اختلاف کریں لیکن پہلے اس کا اعتراف تو کریں۔ یاد رکھیں تنقید کا حق اسی کو ہے جو کلمۂ خیر کہنے کا حوصلہ بھی رکھتا ہو۔کیا آپ دونوں کی ہمت رکھتے ہیں؟