جس خطے میں ہمارا وطن بہت ہی کلیدی اہمیت والے مقام پر واقع ہے یہ ان دنوں ایک بہت بڑے تاریخی واقعے سے گزر رہا ہے۔ قسطوں میں رونما ہوتا یہ واقعہ امریکہ اور طالبان کے مابین جاری مذاکرات ہیں۔ یہ مذاکرات یوں ہی نہیں شروع ہوگئے بلکہ اس کے لئے امریکہ کو برسوں کی محنت کرنی پڑی ہے۔ ملکی و بین الاقوامی میڈیا کی آرکائیوز اس بات کی تصدیق کرتی ہیں کہ لگ بھگ دس برس سے امریکہ طالبان سے بات چیت کی کوششیں کر رہا تھا۔ جب پہلی بار اس نے پاکستان سے اس سلسلے میں کردار ادا کرنے کا کہا اور پاکستان اس میں لیت و لعل سے کام لینے لگا تو اس نے اپنی سی آئی اے اور برطانوی ایم آئی 6 کی مدد سے طالبان تک براہ راست پہنچنے کی کوششیں شروع کردیں۔ ایم آئی 6 کے ساتھ تو کوئٹہ کے تاجر والا واقعہ ہوگیا کہ ڈالرز کی بوری وصول کرکے بندہ ایسا غائب ہوا گویا کبھی تھا ہی نہیں۔ اور سی آئی اے کی طبیعت یوں صاف ہوئی کہ کھٹمنڈو میں پہلی ملاقات کرکے واپس آرہے ملا برادر ہمارے ہتھے چڑھ گئے۔ ان دونوں واقعات کو سالوں گزر گئے، اور ان دو کوششوں کے بعد پھر امریکہ نے طالبان سے براہ راست رابطے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ وہ سمجھ گیا تھا کہ طالبان سے روابط اور بات چیت کا واحد راستہ راولپنڈی سے ہوکر گزرتا ہے۔ چنانچہ اگلے کئی سال امریکہ نے اسی کوشش میں گزار دیئے کہ کسی طرح پاکستان کو طالبان سے بات چیت کروانے پر آمادہ کیا جائے۔ ’’اچھا بس ! اچھا چھوڑ، میں نہیں لڑ رہا !‘‘ افغانستان میں امریکہ کے حلیف نما حریف جانتے تھے کہ امریکہ ابھی جنگ بندی یا انخلاء کا موڈ نہیں رکھتا، وہ صرف اپنی گردن چھڑوانے کے چکر میں ہے تاکہ تازہ حملے میں مطلوبہ نتائج حاصل کر سکے۔ سائنس سب سے برق رفتار ترقی آلات حرب کی صورت کرتی ہے۔ اور "وار سائنس" کے اعدادوشمار یہ بتا رہے تھے کہ ابھی امریکہ کے کس بل نہیں نکلے۔ جب دو تین سال گزر گئے اور پاکستان بات چیت شروع کرانے کے موڈ میں نظر نہیں آیا تو اس کے اتحادی سمجھ گئے کہ اب طالبان حملوں میں روز بروز شدت آئے گی اور افغانستان ان کے لئے تاریخ کا ایک شرمناک موڑ ثابت ہوگا۔ وہ ان نازک لمحوں میں امریکہ کو تنہا چھوڑ کر پتلی گلی سے نکل لئے۔ اگلے کئی سال امریکہ کے اعصاب توڑنے میں لگا دیئے گئے اور اسے اس مقام تک پہنچایا گیا جہاں اس کی سچ مچ والی چیخیں نکلنی شروع ہوگئیں کہ ’’اللہ کی قسم اب بس، اب اور نہیں لڑوں گا !‘‘ سوویت یونین کے خلاف افغانستان میں پاکستان امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی علانیہ حمایت سے کھڑا تھا۔ اگر یہ اتحادی نہ ہوتے تو اس افغان جہاد کے نتائج کچھ اور ہوتے۔ لیکن جب امریکہ اور اس کے اتحادی افغانستان پر حملہ آور ہوئے اور انہیں حاصل بھی اقوام متحدہ کی چھتری تھی تو اب ہمیں خطے کے دو اہم ترین ممالک کی ضرورت پیش تھی۔ اور یہ دونوں وقت کے ساتھ خاموشی سے ہماری پشت پر آکھڑے ہوئے۔ چائنا سے ہمارے مفادات اور سٹریٹیجک تعلقات کا اشتراک کوئی ڈھکی چھپی چیز نہیں لیکن اس جنگ میں روس بھی ہماری اشد ضرورت تھا۔ چنانچہ ایسی ڈیپلومیٹک موو پاکستان ہی کر سکتا تھا کہ سوویت یونین کی تباہی کے تیرہویں سال جنرل مشرف ماسکو میں جا اترے اور روسیوں سے کہا "آؤ دوستی کریں" پاکستان جانتا تھا کہ یہ برف اتنی آسانی سے نہیں پگھلے گی، اس میں کچھ سال لگیں گے، لیکن پاکستان کو اس بات کا بھی ادراک تھا کہ افغانستان میں روس کے کردار کا مرحلہ 2012ء کے بعد آئے گا۔ چنانچہ پوری یکسوئی کے ساتھ پاک روس تعلقات کے مشن پر کام شروع کردیا گیا اور وہی ہوا جیسا سوچا گیا تھا۔ جب افغانستان میں فیصلہ کن مرحلہ آیا تو چین اور روس دونوں کھل کر سامنے آگئے۔ اب یہاں دفاعی و سیاسی لحاظ سے ہماری خوش بختی یہ ہے کہ شمالی افغانستان کی سیاسی و عسکری قوتیں پہلے ہی روس کی حمایت یافتہ ہیں۔ جبکہ طالبان کے ساتھ ہمارے معاملات سیٹ ہیں اور خطے کے مستقبل کے حوالے سے چین، روس اور ہمارے مفادات مشترک ہوچکے ہیں۔ یہی وجہ ہے ماسکو بات چیت کے دوران تمام افغان سٹیک ہولڈرز ایک ہی امام کے پیچھے کھڑے ہوگئے۔ اس پورے پس منظر کا پیش منظر یہ ہے کہ آج اس خطے میں تاریخ کے اہم ترین واقعات میں سے ایک واقعہ قسطوں میں رونما ہورہا ہے۔ امریکہ اور طالبان کے مابین وہ مذاکرات جاری ہیں جن کا حاصل یہ ہونا ہے کہ طالبان دہشت گرد کے بجائے "امن کے فرشتے" تسلیم کر لئے جائیں گے اور امریکہ یہاں سے چلتا بنے گا۔ ایسے میں سی پیک میں کی گئی 60 ارب ڈالرز سے زائد کی چینی سرمایہ کاری کے بعد سعودی عرب بھی 20 ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کرنے جا رہا ہے۔ کون نہیں جانتا کہ گرم بندرگاہ تک رسائی روسیوں کی قدیمی خواہش ہے اور پاکستان روس کو یہ رسائی تو پہلے ہی آفر کرچکا ہے جبکہ مزید اشتراک پر بات چیت چل رہی ہے۔ ایسے میں تیسرا اہم سوال یہ کھڑا ہوجاتا ہے کہ اس بے پناہ سرمایہ کاری کے ہوتے اس خطے میں آج ’’امن‘‘ کس کی سب سے اشد ترین ضرورت ہے ؟ یہ سب سے پہلے ہماری اور اس کے بعد افغان عوام، چین، روس، سعودی عرب اور ایران کی ضرورت ہے۔ ایک نہایت اہم نکتہ یہ سمجھنا چاہئے کہ جس طرح ہم سعودی عرب کو سی پیک میں شراکت دے رہے ہیں اسی طرح ہم گوادر اور چاہ بہار کو "سسٹرز پورٹس" بنانے کی آپشن پر ایرانیوں سے بھی بات کر رہے ہیں۔ اگر یہ ہوجاتا ہے تو تاریخ میں پہلی بار ایران اور سعودی عرب ایک ہی منصوبے میں پارٹنرز ہوں گے۔