پلوامہ شاید آخری واقعہ ہو جسکی بندوق ایک بار پھر بھارت پاکستان کے کندھے پر رکھ کر چلانے کی ناکام کوشش کر چکا ہے۔ اس واقعے کے بعد جس قسم کا واویلا بھارت نے مچایا ہے وہ نیا نہیں ہے لیکن جو بین ا لاقوامی رد عمل آیا ہے وہ با لکل نیا ہے۔اس سے پہلے بھلے ممبئی حملہ ہو، پٹھانکوٹ ہو یا بھارتی پارلیمنٹ پر حملے کا واقعہ، امریکہ سے لے کر بھوٹان تک پاکستان پر الزام تراشی میں بھارت کے ہمنوا ہوتے تھے۔ اس بار ایسا نہیں ہوا۔آپ کب تک بین الاقوامی برادری کو بیوقوف بنا سکتے ہیں۔آپ بھلے پاکستان پر الزامات لگاتے رہیں لیکن اقوام متحدہ کی رپورٹ مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے ریاستی ظلم و بربریت کی تصویر دنیا کے سامنے پیش کر چکی ہے۔ حال ہی میں یورپی یونین کی انسانی حقوق کی شاخ نے بھی اسی قسم کے جذبات کا اظہار کیا ہے۔بھارت اب جتنا بھی زور لگا لے کشمیر کے مسئلے پر دنیا کو بیوقوف نہیں بنا سکتا کیونکہ جس قدر ظلم مقبوضہ کشمیر کے باسیوں نے سہنا تھا سہہ لیا۔ اب انہیں بھی خیر کی کوئی امید نہیںرہی اس لئے وہ اس انتہا کی طرف چل پڑے ہیں جو بالآخر بھارت کی ہٹ دھرمی برقرار رہنے کی صورت میں اس کے لئے صرف اور صرف تباہی لائے گی۔ پلوامہ واقعہ پر بین الاقوامی رد عمل سے زیادہ اس واقعے کے بعد جو صورتحال بھارت کے اندر انتہا پسندوں نے کشمیری طلباء کے حوالے سے پیدا کی ہے اس نے اس سیکولر ریاست کا مکروہ چہرہ مزید بے نقاب کیا ہے۔اس سے بھارتیوں خصوصاً بھارتیہ جنتا پارٹی کے پیروکاروں کی اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے خلاف نفرت ایک بار پھر کھل کر سامنے آئی ہے۔ بھارت کے اندر سے جو آوازیں اس ظلم کے خلاف اور اقلیتوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک پر اٹھ رہی ہیں وہ بہت تشویش کی بات ہے۔ یہ پہلی بار نہیں ہو رہا کہ بھارت میں الیکشن جیتنے کے لئے اس قسم کے سٹنٹ کئے جا رہے ہوں ۔اسکی ایک پوری تاریخ ہے۔ لیکن تشویش کی بات یہ ہے کہ بھارت میں انتخابات کے دوران پاکستان دشمنی ایک بہت بنیادی ایشو کے طور پر اٹھایا جاتا ہے اور ہندو انتہا پسندوں کا ووٹ کیش کیا جاتا ہے۔اسکے نتیجے میں بھارت کے اندر یہ ایک مستقل خطرہ پیدا ہو چکا ہے کہ جب بھی چنائو کا موقع ہو کسی بھی اقلیت کو مشق ستم بنائو اور انتہا پسند ہندئووں کے ووٹ کیش کرائو۔موجودہ وزیر اعظم مودی یہ نسخہ گجرات کی ریاست کے وزیر اعلیٰ کے طور پر بڑی کامیابی سے آزما چکے ہیں اور اسی نسخے پر چلتے ہوئے وہ وزیر اعظم کے عہدے پرآ پہنچے۔ انکے لئے تو یہ ایک کامیاب تجربہ ہے اس لئے جو شخص گجرات کی ریاست کی حد تک اس قسم کی نفرت دو اقلیتوں میں پیدا کر کے انتخاب جیتنے کا عادی ہو پورے ملک میں تو اسکے لئے یہ کینوس اور وسیع ہو جاتا ہے کیونکہ اقلیتوں کی ورائٹی کے ساتھ ساتھ اسے اجیت دووّل جیسا شیطان ذہن بھی میسر ہے اور مقبوضہ کشمیر کا میدان بھی۔مودی کا کام زیادہ آسان ہو گیا ہے ۔کہیں بھی خصوصاً مقبوضہ کشمیر میںدہشت گردی جب بھی ہو گی پاکستان پر الزام لگانا آسان ہو گا اور پھر انتخابات کے قریب تو یہ سونے پر سہاگہ ہو جائے گا تو کیوں پلوامہ نہ ہوتا! پاکستانیوں سے زیادہ اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہندوستانی عوام کو ہے کہ اس قسم کے فارمولے کو یکسر مسترد کر کے ہی وہ ایک پر امن ملک کے طور پر آگے بڑھ سکتے ہیں اور اپنا سیکولر چہرہ روشن کر سکتے ہیں جسکی کچھ عرصہ پہلے تک کوئی امید نہیں تھی کیونکہ مودی کا جادو بھارت کے اندر سر چڑھ کر بول رہا تھا اسکی وجہ بھارتی کارپوریٹ سیکٹر کی اندھا دھند حمایت تھی جس نے مودی کا ایک خاص امیج پید اکیا اور انہیں شائننگ انڈیا کے نعرے کی بانی بی جے پی سے امید تھی کہ وہ اگر واجپائی نہیں تو مودی کے ذریعے یہ سودا بیچنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ لیکن انکو لینے کے دینے پڑ گئے۔ اب بھارت کا کارپوریٹ سیکٹر بھی پیچھے ہٹ رہا ہے۔ دوسری وجہ امید کی یہ ہے کہ حالیہ ریاستی انتخابات میں بی جے پی کی پر فارمنس سے اندازہ ہو رہا ہے کہ بھارتی عوام بھی اس بات کو سمجھ چکے ہیں کہ انہیں پاکستان دشمنی کی آڑ میں ووٹ حاصل کرنے کے لئے بیوقوف بنایا جا رہا ہے۔ آنے والے انتخابات میں اگر یہی رجحان برقرار رہتا ہے تو امید کی جا سکتی ہے بی جے پی فتح حاصل نہیں کر پائے گی اور کانگرس بھلے کسی جماعت کے ساتھ اتحاد کرے حکومت بنانے میں کامیاب ہو جائے گی۔ پاکستان کے لئے اسکا کیا فائدہ ہوگا اس کا ذکر بھی ضرور کریں گے لیکن بھارت کے عوام کے لئے اور خصوصاً مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں اور با لعموم بھارت میں موجود اقلیتوں کے لئے معاملات کافی بہتر ہو جائیں گے۔وہ اس لئے کہ بی جے پی کی شکست بنیادی طور پر اس سوچ کی شکست ہو گی جو اکثریت کو اقلیت کے خلاف بھڑکا کر ووٹ کا کاروبار کرتی تھی۔ بھارت کی سیاسی جماعتوں کے لئے یہ ایک سبق ہو گا کہ اس طرح سے آپ ایک آدھ الیکشن تو جیت سکتے ہیں لیکن ملک کے اندر عوام کے مختلف طبقوں اور مذاہب کے درمیان جو نفرت اور تقسیم پیدا ہوتی ہے اسے ختم کرنے کے لئے دہائیاں درکار ہوتی ہیں۔ پاکستان اس نفرت کے نتائج بھگت چکا ہے اور اللہ کا شکر ہے کہ ہم ایسے عناصر سے اب تیزی سے چھٹکارا حاصل کر رہے ہیں جو جنرل ضیاء کے زمانے سے ملک میں نفرت کے بیج بوتے چلے آ رہے تھے ۔وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ یہ نیا پاکستان ہے اور فوج کے ترجمان کہہ رہے ہیں کہ پاکستان کی فوج نئی فوج ہے تو اس بات پر بھارت بھی یقین کرے۔ امن کی آفر کو اپنے الیکشن کی فتح کی خاطر نظر انداز نہ کرے ورنہ ، جنوب مشرقی ایشیا ایک نیا خطہ بننے جا رہا ہے جہاں پر امن اور ترقی اب شروع ہونے کو ہے، بھارت اسکا موئثر حصہ بننے سے محروم بھی ہو سکتا ہے۔