کبھی کوئی پیمان ہوا ہوگا۔ بسترِ مرگ پر فرزند نے پدرِ محترم سے پوچھا: کیا میں نے اپناوعدہ پورا کیا؟ جواب ملا: ہاں جانِ پدر، تم نے اسلام کی خدمت کا حق ادا کر دیا۔ جناب حسان بن ثابت ؓ کے قصائد، قصیدہ ء بردہ اور دردو سوز میں گندھے جامیؒ سے لے کر خواجہ مہر علی شاہؒ تک کیسے کیسے عالی دماغ اور کیسے کیسے قلب گداز سرکارﷺ کی بارگاہ میں جھکے ہیں۔ حرف و بیان کی ساری توانائی اور قلب کا سارا گداز نچوڑ دیا ہے لیکن اقبالؔ جب بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوتے ہیں تو لہجہ اور لے بدل جاتی ہے۔ وارفتگی اور ذوق و شوق کے نئے عالم طلوع ہوتے ہیں۔ خیمہ افلاک کا استادہ اسی نام سے ہے نبضِ ہستی تپش آمادہ اسی نام سے ہے ایسا لگتا ہے کہ ان کا پورا پیکر آنسوؤں میں ڈھل کرآپ ﷺ کے قدموں میں بہہ جائے گا۔ عمر بھر یہی حال تھا۔ درد کی بے پناہی، جو خلوص اور انکسار کی شدت سے پھوٹتی ہے۔عالی جناب ﷺ کا ذکر آتا تو آنکھیں آنسوؤں سے بھر جاتیں۔سب سے بڑھ کر اقبالؔ کا طرزِ احساس اس مشہور رباعی میں جھلکتا ہے تو غنی از ہر دو عالم من فقیر روزِ محشر عذر ہائے من پذیر گر حسابم را تو بینی نا گزیر از نگاہِ مصطفیﷺ پنہا ں بگیر اے اللہ تو غنی ہے،میں فقیر۔روزِ حشر میری خطائیں معاف کر دینا لیکن اگر حساب ہی لازم ہو تو جنابِ مصطفی ﷺکی نگاہوں سے خطاکار کو پوشیدہ رکھنا۔ کثرت سے درود پڑھتے کہ جلیل القدر صوفیا کے سوا شاید ہی کوئی دوسری مثال ہو۔ کسی نے پوچھا: کبھی کوئی دوسرا اقبال پیدا ہوگا؟ فرمایا: ہاں، کیوں نہیں۔ راز پھر کھول دیا کہ ایک کروڑ مرتبہ درود پڑھا ہے۔ علی بخش کے بقول دن میں چھ سات اور کبھی دس بارہ مرتبہ قرآنِ کریم منگواتے، انہماک سے دیکھتے رہتے؛حتیٰ کہ چہرے پر اطمینان اتر آتا۔ یہ صبح کی تلاوت کے سوا تھا۔ نمازِ فجر کے بعد جب دیر تک پڑھتے رہتے۔ کبھی گریہ طاری ہو جاتا اور اس قدر کہ اوراق بھیگ جاتے اور دھوپ میں سکھانا پڑتے۔ اگرچہ کسی مدرسے میں دین کا علم حاصل نہ کیا لیکن قدیم عربی زبان پر اقبالؔ کی دسترس اردو اور فارسی سے کم نہ تھی۔انہماک،ریاضت اور نظر اکثر علما سے کہیں زیادہ۔ خود ارشاد کیا تھا: میں سمجھتا ہوں کہ بالاخر قدرت نے شریعت کی روح مجھ پہ آشکار کر دی ہے۔ ایسی حیرت انگیز یاداشت کہ جس پر کبھی خراش نہ آتی۔ جو کچھ پڑھ لیا، حافظے میں محفوظ رہا۔ ابوالکلام کی memory photografic کا ذکر بہت ہوتاہے۔ اقبالؔ کا حافظہ ان سے کم نہ تھا اور مطالعے کی وسعت بھی۔ اسلوب جداگانہ اور ابوالکلام کے برعکس انکسار ہی انکسار۔مدعی اس زمانے میں بہت تھے۔ کوئی شیخ العرب والعجم، کوئی شیخ الاسلام، کوئی امیرِ شریعت۔ ہوا میں اڑنے کی کوشش کرتے اور چومنے کے لیے ہاتھ آگے بڑھاتے۔اقبالؔ خاکسار تھے بلکہ سید ابو الاعلیٰ مودودی کے بقول ان میں فرقہ ء ملامتیہ کے بعض آثار پائے جاتے تھے۔ اپنی مذمت سے اطمینان پاتے۔ مسجد تو بنا دی شب بھر میں ایماں کی حرارت والوں نے من اپنا پرانا پاپی ہے،برسوں میں نمازی بن نہ سکا اقبالؔ بڑا اپدیشک ہے، من باتوں میں موہ لیتا ہے گفتار کا یہ غازی تو بنا، کردار کا غازی بن نہ سکا محفل برپا ہوتی اور خطوط موصول ہوتے تو فوراً ہی جواب لکھواتے۔ مجلس سے اٹھ کر جانے والے کے بارے میں بات کرنے کی اجازت نہ تھی۔ تہبند پہ بنیان پہنے عامیوں کی طرح محفل میں بیٹھتے۔ سردیوں میں گرم دھسّہ اوڑھ لیتے اور اکثر قمیض پہنے بغیر ہی۔ غلامی کی صدیوں کا ثمر،بر صغیر کے مزاج میں احساسِ کمتری بہت گہرا ہے۔ انہیں چھو کر بھی نہ گزرا تھا۔ خواجہ مہر علی شاہ او ر قائدِ اعظم کی طرح۔سیدنا علی کرم اللہ وجہہ کا ارشاد ہے: آسودگی سے خلق میں رہنا تمام دانائی کا نصف ہے۔ سرکارﷺ نے کہا تھا: گھلے ملے رہا کرو۔ سبھی کے لیے دروازہ بیشتر اوقات کھلا رہتا۔ اہل مغرب، اس کی تاریخ، مزاج اور فلسفے سے خوب آشنا تھے۔ظاہر ہے کہ اسلام کی علمی روایت، سرکارﷺکی سیرت اور اللہ کی کتاب سے اور بھی زیادہ۔ انہماک تاریخ میں بھی بہت تھا۔ اس کے کرداروں کو زندہ کیااور اس طرح کہ جیسے نگاہوں کے سامنے ہوں۔ کرم تیرا کہ بے جوہر نہیں میں غلامِ طغرل و سنجر نہیں میں جہاں بینی میری فطرت ہے لیکن کسی جمشید کا ساغر نہیں میں دوسرے تو کیا،ہیرالڈلیم جیسا مورخ بھی عظیم شخصیات کے سحر میں گم ہو جاتاہے۔ صلاح الدین ایوبی کیا، تیمور اور چنگیز کو بھی ہیرو بنا کر پیش کرتا ہے۔اقبالؔ کبھی کسی قہر مان سے مرعوب نہ ہوئے۔ سرکارﷺکی چوکھٹ پر پہنچے تو وہیں بیٹھ رہے تھے۔ ان کے ایک فارسی شعر کا سادہ ساترجمہ یہ ہے: میری فکر کا سرچشمہ اگر قرآن نہیں تو قیامت کے دن مجھے سرکارﷺ کے بوسہ ء پا سے محروم کر دینا۔ اس عصر کے سب سے بڑے خطیب نے کہا تھا: میں محمدﷺکے سوا کسی کا نہیں، اپنا نہ پرایا مگر وہ اپنے مکتبہ ء فکر کی زنجیر سے آزاد نہ ہو سکے۔ یہ اقبالؔ تھے، جو محمدﷺکے سوا کسی کے نہیں تھے۔عجز و انکسار کا پیکر ہو جاتے، جب آپﷺسے مخاطب ہوتے۔ من اے میرِ امم داد از توخواہم مرا یاراں غزل خوانے شمر دند اے امتوں کے سردارﷺ، میں آپﷺ سے فریاد کرتا ہوں کہ لوگوں نے شاعروں میں مجھے شمار کیا۔اس پہ سرکارﷺکا ایک فرمان یاد آتا ہے۔ ارشاد کیا ’’اے اللہ تو جانتا ہے، میں ایک غلام کی طرح اٹھتا بیٹھتا اور ایک غلام کی طرح کھاتا پیتا ہوں۔‘‘ محض شاعر نہیں، ایک عظیم مفکر اور سیاسی مدبر بھی تھے۔ کہا جاتاہے کہ میدانِ عمل کے آدمی نہیں تھے۔ گنتی کے بے تکلف دوستوں میں سے ایک۔ محمد علی جوہر ان کی خدمت میں حاضر تھے۔ چمک کر بولے: اقبالؔ! تمہاری نظمیں پڑھ کر ہم میدان میں اترتے اور زندانوں کی نذر ہو جاتے ہیں۔ تم یہاں حقہ گڑگڑایا کرتے ہو۔ جواب ملا: قوال کبھی وجد کا شکار نہیں ہو تے۔ظاہر ہے کہ قوال تو از راہِ انکسار کہا۔ وہ معلم تھے، سارے مسلم برصغیر کے معلم۔ ان کی زندگی ہی میں ان کے کلام کا درس دیا جانے لگا۔ پلنگ پہ بیٹھا کرتے۔ پاؤں سے جوتے ٹٹول رہے تھے کہ جوہر نے ہاتھ بڑھایا اور اسی شوخی سے، جو اکثر کارفرما رہتی، یہ کہا: اقبالؔ! کیا یاد کرو گے کہ محمد علی نے تمہاری جوتیاں سیدھی کیں۔ اقبالؔ کی حسِ مزاح ایسے ہی موقع پر جاگتی۔ کہا: محمد علی آنے والی نسلوں کے سامنے تم اس بات پہ فخر کروگے کہ تم نے اقبالؔ کی جوتیاں سیدھی کی تھیں۔ کبھی کوئی پیمان ہوا ہوگا۔ بسترِ مرگ پر فرزند نے پدرِ محترم سے پوچھا: کیا میں نے اپناوعدہ پورا کیا؟ جواب ملا: ہاں جانِ پدر، تم نے اسلام کی خدمت کا حق ادا کر دیا۔