پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز اسلام آباد کبھی پمزpimsکہلاتا تھا آج کل اس کا وجود خطرے میں ہے بظاہر سرکاری کاغذات میں صدارتی آرڈیننس کی تیز دھار چھری سے ذبح کر دیا گیا ہے اس کے ہزاروں ملازمین جن میں ڈاکٹرز ‘ نرسز‘ پیرا میڈیکل سٹاف ‘ خاکروب سے لے کر انتظامیہ تک ڈی چوک میں دھرنے دیے ہوئے آج 68روز ہو گئے ہیں۔ پاکستان کا واحد ہسپتال جہاں پر روزانہ دس ہزار مریض پانچ روپے کی پرچی پر فری چیک اپ اور ادویات لیتے تھے اور روزانہ تین ہزار مریضوں کو داخل کیا جاتا تھا۔ آج اس ہسپتال کو تالے پڑ چکے ہیں صرف ایمرجنسی کا شعبہ کام کر رہا ہے۔ باقی تمام عملہ احتجاجی دھرنے پر ہے۔ یہ ہسپتال مرحوم ضیاء الحق نے بنایا تھا مگر ایک جمہوری دور میں اپنا وجود کھو بیٹھا ہے۔ موجودہ حکومت جس نے دھرنے کے ذریعے وہ بلند و بانگ دعوے کئے تھے کہ جن کو دہرانا اور یاد کرنا یاد ماضی عذاب ہے یارب‘ کے مصداق ہے جب کنٹینر پارٹی اس وقت کی ن لیگ کی گورنمنٹ کو للکارتی تو ہزاروں بار نہیں لاکھوں بار کہا گیا کہ ایک میٹرو کے مقابلے میں سینکڑوں ہسپتال بن سکتے تھے مگر اب تو ایک ہسپتال کو پرائیویٹ درجہ دیا گیا یہ سوچتے ہوئے بھی پسینے چھوٹ جاتے ہیں کہ پورے سرکاری ہسپتالوں کو بھی ایسے آرڈی ننس کے ذریعے اپنی خواہش کے شمشان گھاٹ اتار دیا جائے گا۔ اسلام آباد کا یہ واحد ہسپتال تھا کہ جہاں جہلم ‘آزاد کشمیر‘ جڑواں شہروں سے لے کر پشاور اور ایبٹ آباد تک غریب لوگ صرف اسلام آباد کا کرایہ خرچ کر کے اس کا کا رخ کرتے تھے اور مفت علاج معالجے سے مستفید ہوتے تھے۔ آج ایک مقبول عام بلکہ شہرت کی بلندیوں کو چھونے والی حکومت کہ جس کا کریڈٹ یہ تھا کہ اس نے سابقہ تمام سیاسی پارٹیوں کے سوائے آمروں کے ہر پارٹی کی کرپشن کو بے نقاب کیا وہ ساری پارٹیاں اور حکومتیں تو سر سے لے کر پائوں تک کرپشن کی دلدل میں دھنسی ہوئی تھیں مگر صاف‘ شفاف حکومت کہ جس کا دامن نچوڑیں تو فرشتے وضو کریں آج فرشتہ صفت حکمرانوں کے دور میں کہ جہاں مہنگائی کا کنٹینر ہر گھر کو روند رہا ہے مہنگائی کے اس کنٹینر تلے سسکتی عوام کی سسکیاں اور آہیں سننے کے بجائے انہیں مفت علاج سے محروم کر دیا گیا ہے اس کی منطق سمجھ سے بالاتر ہے اگر فرشتوں کے پاس کوئی دلیل ہے تو وہ سمجھا دیں تاکہ حکومت کی نیک نامی پر تنقید اور نفرت کے چھینٹے پڑنے سے اس کا دامن داغدار تو نہ ہو۔ بہت شکوک و شبہات اور افواہیں گردش کر رہی ہے کہ اپنے دوستوں کو نوازنے کے لئے یہ پورا ادارہ جو کہ اسلام آباد ایک سیکٹر کے برابر ہے اس کو نجی تحویل میںدے دیا جائے گا۔ تو حضور آپ میں اور کرپشن کے بے تاج بادشاہوں میں کیا فرق رہ گیا ہے؟حیرت کی بات یہ ہے کہ اس سے پہلے ماضی کی دو سیاسی حکومتوں نے اس ہسپتال کی سرکاری حیثیت کو ختم کرنے کی کوشش کی مگر احتجاجی تحریک کی وجہ سے انہوں نے یہ فیصلہ واپس لیا۔ بڑی مشکل سے میرے ایک دوست نے یہ مثال دی کہ شاہد خاقان عباسی ملک کا واحد اور شاید آخری وزیر اعظم تھا جس نے وزیر اعظم بننے کے بعد مری کا دورہ یا عوام کو زیارت کروانے سے بھی محروم رکھا تھا مگر اس کے دور میں اس ہسپتال کو دوبارہ سرکاری درجہ دیا گیا بصورت دیگر اس کے دامن میں اس ایک کام کے علاوہ کوئی قابل ذکر یا قابل فخر کارنامہ نہیں ۔ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد جہاں پر درجنوں وزراء ‘ مشیر اور سرکاری و سیاسی عہدیداروں کی فوج ہے اور وہ سرشام ہی ٹی وی سکرین پر بیٹھ کر حکومت کے دفاع میں اور مخالفین کو کنٹینر سے زیادہ آڑے ہاتھوں لینے کی صلاحیت سے اس قدر مالا مال ہیکہ جو ڈھائی سال جمہوری حکومت کے رہ گئے ہیں وہ مسلسل گلا پھاڑ پھاڑ مخالفین کے کپڑے پھاڑ سکتی ہے مگر مجال ہے کہ وزیر اعظم صاحب کو اپنی وزارت اور عہدے کی امان پا کر اتنا عرض کرے کہ اس طرح کے دس ہسپتال اور بنا دیں کیونکہ 1984ء سے لے کر اب تک ملک کی آبادی کہاں پہنچ گئی ہے سب سے عجیب بات یہ ہے کہ احتجاجی ملازمین کے دھرنے میں ہر سیاسی پارٹی کے قائدین احتجاج کر چکے ہیں اور جن لوگوں کا سیاست سے دور پار کا بھی سروکار نہیں ہے وہ بھی اس اقدام پر حکومتی گراف کی گراوٹ پر سخت پریشان ہیں مگر کسی ایک سرکاری یا وفاقی و صوبائی عہدیدار نے ان کی ترجمانی نہیں کی حالانکہ حکومتی ٹیم کے تمام کھلاڑی وہاں سے گزرتے ہیں اور آج تقریباً چار ہزار ملازمین جن کا معاشی مسئلہ ہمالیہ کی طرح ہے مگر حکومتی رائی کے برابر مہربانی سے ان کا مستقبل محفوظ ہو سکتا ہے یہ کام کرنے سے نہ جانے کس نے حکومت کو روک رکھا ہے۔ حالانکہ کروڑوں بے روزگاروں نے اس حکومت کے منشور کے لئے دن رات کام کیا تھا کہ انہیں بغیر رشوت اور سفارش کے میرٹ پر روزگار میسر ہو گا ان بے روزگاروں کو سرکاری نوکریاں ملنا تو درکنار جو بیس سے پچیس سال تک اس ادارے سے وابستہ تھے اب کی پنشن اور سرکاری مراعات بھی ختم ہو رہی ہیں۔ خدارا پمز اسلام آباد پر کچھ رحم کریں آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے کہ یہ لوگ ہر سیاسی پارٹی کے قائد کا سیاسی بنیادوں کی بنا پر علاج کرتے رہے ہیں اگر اس ہسپتال میں زرداری صاحب یا مولانا فضل الرحمن یا ن لیگ کا کوئی قائد علاج کرواتا رہا تو اس کا بدلہ بے قصور ملازمین سے نہ لیں۔ آپ میں اگر سیاسی اور معاشی سکت ہے تو راولپنڈی کے ایوب پارک میں سرکاری ہسپتال بنائیں۔ اس طرح کی بے شمار مثالیں ہیں آپ کوئی فلاحی منصوبہ مکمل کریں کیونکہ عام آدمی کی پہلے ہی یہ حالت ہے بقول حبیب جالب: اس شہر خرابی میں غم عشق کے مارے زندہ ہیں یہی بات بڑی بات ہے پیارے