توانائی کا بحران پاکستان کی معیشت کو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے۔ ایک تو ضرورت کے مطابق بجلی دستیاب نہیں ۔ملک میں پانچ کروڑ لوگ بجلی سے محروم ہیں۔ دوسرے‘اسکی قیمت اتنی زیادہ ہے کہ عوام کا بھرکس نکل گیا ہے‘ صنعتکاروں کے لیے کارخانے چلانا مشکل ہوگیا ہے۔ صنعتی پیداوار میں اضافہ ُرک گیا ہے‘برآمدات میں اضافہ نہیں ہورہا۔جب تک سستی بجلی دستیاب نہیں ہوتی‘ پاکستان کی معیشت ہچکولے کھاتی رہے گی۔ آج ہمارا ملک بجلی کے معاملہ پر جس پریشانی کا شکار ہے یہ گزشتہ چار عشروں کی غفلت اور غلط ترجیحات کا نتیجہ ہے۔اسوقت پاکستان اپنی توانائی کی ضروریات کا تقریباًستّر فیصد تیل‘ گیس اور کوئلہ سے حاصل کررہا ہے جبکہ تقریباًپچیس فیصد پانی سے۔ تیل‘ گیس کی بجلی ہائیڈل پاور کی نسبت بہت مہنگی پڑتی ہے۔ بینظیر بھٹوکے دوسرے دورِ حکومت ( 1993-96)میں تیل سے بجلی بنانے کے منصوبے (آئی پی پی) نجی شعبہ میں لگائے گئے تو ماہرین نے بہت شور مچایا تھاکہ اِن سے ملکی معیشت کو نقصان ہوگا‘ یہ بہت مہنگے ہیں لیکن کسی نے اُن کی بات پر کان نہیں دھرا۔ پاکستان میں مہنگی بجلی کی ابتدا یہاں سے ہوئی۔ ان پاور اسٹیشنوں کے لیے فرنس آئل قیمتی زرمبادلہ خرچ کرکے بیرونِ ملک سے منگوانا پڑتا ہے۔اب تو ملک قدرتی گیس میں بھی خود کفیل نہیں رہا۔یہ بھی باہر سے منگوانا پڑ رہی ہے۔اس کے با وجود مسلم لیگ (ن) نے چین سے قرضے لیکر درآمدی گیس اور درآمدی کوئلے سے بجلی بنانے کے پاور اسٹیشن بنائے ۔یُوں ملک کو زرِ مبادلہ اور قرضوں کے بدترین بحران میں دھکیل دیا۔ کوئلہ کا پلانٹ ساہیوال کی زرخیز زمین کی بجائے تھر‘ سندھ میں لگایا جانا چاہیے تھا جہاں مقامی کوئلہ موجود ہے‘ اسکے لیے نہ زرمبادلہ درکارتھا ‘ نہ بندرگاہ سے پلانٹ تک کوئلہ کی ٹرانسپورٹ کا خرچ۔ جب حکمرانوں کا ارادہ عارضی حل تلاش کرنا ہو نہ کہ ملک و قوم کے وسیع مفادات کا تحفظ تو اسکے نتائج وہی ہوتے ہیں جو آج ہم بھگت رہے ہیں۔ سستی بجلی دریاؤں پر ہائیڈرو الیکٹرک منصوبوں سے حاصل ہوسکتی ہے لیکن گزشتہ چالیس برسوں میں ہم پن بجلی کے صرف تین قابلِ ذکر منصوبے بناسکے۔ غازی بروتھا ‘ منگلا ڈیم کی استعداد میں اضافہ اور نیلم جہلم پراجیکٹ۔جب بھی ہائیڈل پاور کی بات ہوتی تھی تو قوم کو کالاباغ ڈیم کے تنازعہ میں اُلجھا دیا جاتا تھا۔ حالانکہ اس ڈیم کے سوابھی کئی ڈیم تھے جو غیرمتنازعہ تھے ‘ اُن پرکام شروع کیا جاسکتا تھا۔بھاشا ڈیم ‘ منڈا ڈیم ایسے دو منصوبے ہیں جو کئی دہائیوں سے زیرالتوا ہیں۔ اب بھی ان پر رینگ رینگ کر کام چل رہا ہے۔ جہاں تک کالاباغ ڈیم کا تعلق ہے تو اس پر صوبوں کے درمیان اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش اب بھی کی جاسکتی ہے۔ خیبرپختونخواہ اور سندھ اس منصوبہ کے سخت مخالف ہیں۔ خیبر پختونخواہ کا بڑ ا خدشہ یہ ہے کہ اس ڈیم میں پانی جمع ہونے سے زیرِ زمین پانی کی سطح بلند ہوجائے گی جسکے باعث اس جھیل سے متصل نوشہرہ ضلع کی زرخیز زمین خراب ہوسکتی ہے۔گو ماہرین اس اندیشہ کو غلط فہمی سمجھتے ہیں لیکن یہ بات لوگوں کے ذہن میں بیٹھ گئی ہے ‘ سیاسی مسئلہ بن گئی ہے۔ چونکہ کالا باغ ڈیم پنجاب میں واقع ہوگا اس لیے اس سے بننے والی بجلی کی آمدن سے رائلٹی اسی صوبہ کو ملے گی ۔اس متنازعہ معاملہ پر اتفاق رائے پیدا کرنے کی خاطر ایک بین الصوبائی قانونی معاہدہ کیا جاسکتا ہے کہ کالا باغ ڈیم کی رائلٹی کا پچیس فیصد خیبر پختونخواہ خصوصاًنوشہرہ ضلع کے لیے مختص ہوگا تاکہ اربوں روپے سالانہ کی اس کثیر رقم سے اس علاقہ کی سماجی‘ معاشی ترقی اور ممکنہ متاثرین کی بحالی کے لیے ترقیاتی کام کیے جاسکیں ۔ کا لاباغ ڈیم پر سندھ کااعترض یہ ہے کہ اس سے دریائے سندھ کے پانی پر پنجاب کا کنٹرو ل قائم ہوجائے گا‘ وہ جب چاہے پانی کا کچھ حصّہ ہڑپ کرسکے گا۔تمام صوبوں کے درمیان دریائی پانی کی تقسیم کا معاہدہ موجود ہے۔ اس سمجھوتہ کی موجودگی میںپنجاب کے لیے ایسا کرنا ممکن تو نہیں لیکن بدقسمتی سے صوبوں کے درمیان بداعتمادی کی فضا موجودہے۔سندھ کے خدشات کے ازالہ کے لیے ایک قانونی معاہدہ کیا جاسکتا ہے جس کے تحت کالاباغ ڈیم کو آپریٹ کرنے ‘ اس سے پانی چھوڑنے اور ذخیرہ کرنے کے اصو ل صوبوں کے درمیان باہمی اتفاق رائے سے طے کرلیے جائیں لیکن ان کاانتظامی کنٹرول سندھ کے محکمہ آب پاشی کو دے دیا جائے تاکہ سندھ کوکسی قسم کا خدشہ نہ رہے۔ معیشت کا پہیہ چلانے کو وافر مقدار میںسستی بجلی درکار ہے جو صرف پانی کے منصوبوں سے مل سکتی ہے۔ایک اہم مسئلہ یہ ہے کہ سیاستدانوں پر دباؤ رہتا ہے کہ وہ جلد سے جلد مکمل ہونے والے منصوبے بنائیں تاکہ اپوزیشن کی تنقید کا جواب دے سکیں اور اگلے الیکشن میں عوام کو اپنی کارکردگی کے ثبوت میں مکمل پراجیکٹ دکھا سکیں۔ تھرمل پاور پلانٹ دو تین سال میں بن جاتے ہیںجبکہ بڑے ہائیڈل پراجیکٹ لگانے کا کام سات آٹھ سال میںمکمل ہوتا ہے۔ اس لیے بھی سیاسی حکومتیں انہیں ہاتھ لگانے سے گریز کرتی ہیں۔بہرحال ان وقتی سیاسی فائدوں کومد ِنظر رکھنے کے باعث قوم کے دیرپا مفادات کوبہت نقصان پہنچا ہے‘ ہماری معیشت تباہی کے کنارے پر آگئی ہے۔ وزیراعظم عمران خان کے حالیہ بیانات سے لگتا ہے کہ انہیںاس مسئلہ کی سنگینی کا ادراک ہے ۔وہ بجلی کی قیمتیں مستحکم کرنا چاہتے ہیں۔ تاہم بجلی کے اِس بحران سے نکلنے کی خاطر عملی اقدامات تیز کرنے کی ضرورت ہے۔ ملک میں بجلی سستی کرنے کے لیے ناگزیر ہے کہ ہم ساٹھ سے ستّر فیصد بجلی پانی سے حاصل کریں۔یہ اسی صورت ممکن ہے جب حکومت اگلے د س پندرہ سال تک ترقیاتی بجٹ کا بڑا حصّہ پن بجلی کے منصوبوں کے لیے وقف کرے ‘ بھاشا اور مہمند ڈیموں پر کام کی رفتار تیز کرے۔ پاکستان کو آگے بڑھنے کے لیے توانائی کی موٹرویزدرکار ہیں۔یہ کام روٹین میں‘ افسر شاہی کے ذریعے نہیں ہوسکتا۔سیاسی قیادت کو ایمرجنسی لگا کر بڑے اقدامات کرنے ہوں گے۔