اپنے خطے کی زبان کی قدامت کا پتہ لگانا آج کل میری دلچسپی کا نکتہ ہے۔ وجہ یہی کہ میں خود کو، اپنے اردگرد کو، اپنی زمین کو اور اپنی ثقافتی و سیاسی تاریخ کو سمجھنا چاہتا ہوں۔یہ اس تاریخ سے قطعی مختلف معاملہ جو مورخ عام طور پر ہمیں پڑھاتے ہیں۔میں جو سکجھنا چاہتا ہوں وہ گویا معلوم سے نا معلوم تک کا سفر ہے ۔ میرے سامنے وہ پنجاب ہے جس میں دلی، ہریانہ، ہماچل پردیش، بھارتی پنجاب، درہ خیبر کا علاقہ اور ملتان تک شامل تھے،سپت سندھو ۔یہ باتیں ہزاروں سال کی لسانی و نسلی تاریخ کی کتاب کے کسی صفحہ کی محض چند سطریں ہوں گی کہ پنجاب کی کون سی بولی اب کس گروہ نے اپنی زبان بنا لی ہے۔ سیاسی لسانی شناخت کے معاملات پاکستان بننے کے بعد کے ہیں مجھے صدیوں سے آگے بڑھ کر جاننے کی جستجو ہے۔ پنجابی پانچ دریاوں اور ان کے معاون سرسوتی کے کناروں پر بولی جانے والی زبان ہے۔ کہنے کو اس کے کئی لہجے ہیں جن ماجھے کی بولی ،پواد ، پچاد، پوٹھوہاری، ملتانی، جانگلی وغیرہ کہا جاتا ہے ۔ لیکن پنجابی کا جو لہجہ سب کے لیے معیار قرار پایا، جس کی گرامر و اصول سب کے لئے قابل قبول ہوئے وہ لاہور، امرتسر، گورداسپور، سیالکوٹ اور ان کے نواحی علاقوں کا ہے۔ پنجابی زبان کی تاریخ تلاش کرتے کرتے میرے سامنے کئی بھید آن بیٹھے ہیں۔ ایک نظر یہ کہتا ہے کہ وسیع و عریض پنجاب میں اب تک جو زبان سب سے پہلے ملی وہ ویدک ہے۔ ویدوں کی زبان۔ اسی سے سنسکرت نے جنم لیا۔ سنسکرت ہندو منتروں اور مقدس مذہبی طبقے کی زبان قرار پائی۔ وید بھی ترجمہ کر کے سنسکرت میں ڈھال لئے گئے۔یعنی اس سے پہلے کوئی زبان تھی جو تحریری یا غیر تحریری صورت میں موجود تھی ۔ ذات پات کے قدیم نظام کے متعلق سنتے ہیں کہ شودر اور دیگر نچلے طبقات کو مقدس الفاظ، منتر اور وید سننے کی اجازت نہ تھی۔ یہ تسلیم کر لیا جائے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ جن لوگوں نے سنسکرت اور ویدک زبان سنی نہ بولی، وہ کونسی زبان بولتے ہوں گے۔ بہرحال کہا جاتا ہے کہ سنسکرت سے پالی زبان پیدا ہوئی۔ پالی بدھ مت کی زبان ہے۔ آج بھی سری لنکا اور تھائی لینڈ میں اس کا سکرپٹ مل جاتا ہے۔ اشوک اعظم نے جب اقتدار کو ظلم کا اختیار سمجھا ،اس کی خاطر خون ریزی سے توبہ کی تو وہ بدھ ہو گیا۔ اس کے لکھوائے کئی فرامین ٹیکسلا کے پتھروں پر کنداں موجود ہیں۔ ان فرامین کا ترجمہ کر لیا گیا ہے۔ ایسے ماہرین موجود ہیں جو اس سکرپٹ کو پڑھ سکتے ہیں۔ اشوک کا دور چار سے تین سو سال قبل مسیح کا ہے۔ گویا آج سے ڈھائی ہزار سال پہلے کا زمانہ۔ بھارت کے ایک استاد جگجیت سنگھ کی تحقیق کے مطابق پالی سے پرشاتی اور شورسیانی دو زبانیں نکلیں۔ پرشاتی سے آگے اپ بھرنش نکلی جبکہ شورسیانی میں سے دوسری نوع کی اپ بھرنش یعنی ارتقائی زبان نکلی۔پرشاتی کے تسیرے درجے میں جا کر ٹاکری بنی،اسی طرح شور سیانی کے ارتقا کے تیسرے درجے میں جا کر کیکئی زبان کا جنم ہوا۔ ٹاکری اور کیکئی کے ملاپ سے پنجابی زبان بنی۔ ویدک زبان سے پنجابی زبان کی پیدائش تک کا عمل کوئی پانچ ہزار سال کا زمانہ ہے۔ جگجیت سنگھ کا خیال ہے کہ پنجابی آریائوں کی زبانوں میں سے ایک ہے۔ پنجابی کے نامور محقق آصف خان کا کہنا ہے کہ پنجابی آریائوں کی زبان نہیں بلکہ اس کا تعلق آریائوں کے ہندوستان آنے سے پہلے کے زمانے سے ہے۔ان کی تحقیق کے مطابق پنجاب کے خطے میں پہلے دراوڑی زبان بولی جاتی تھی۔ دراوڑی کی جگہ آریائوں کی سنسکرت نے رواج پایا۔ یاد رہے سرجیمز ولیم کی تحقیق کے مطابق سنسکرت اور اٹالین کا ہزاروں سال پرانا تعلق نکلتا ہے۔ آصف خان کے مطابق دراوڑی سے سنسکرت نکلی، پھر پراکرت زبانیں مقبول ہوئیں۔ پراکرت کے بعد اپ بھرنش آئیں، اپ بھرنش مختلف زبانوں کے الفاظ کا بڑے پیمانے پر اختلاط ہے۔ تاریخی طور پر یہ طے کرنے کے لیے کہ اپ بھرنش زبانوں کا دور کونسا تھا ہمیں اس مواد کی ضرورت ہے جو بتا سکے کہ کس زمانے میں، کس علاقے کے لوگوں نے ہندوستان یا پنجاب کی طرف ہجرت کی۔ ایک کتاب ہے، Early Indians، اس کتاب میں بتایا گیا ہے کہ ہندوستان کے لوگوں کا ڈی این اے افریقی ہے۔ 65ہزار سال پہلے افریقہ سے لوگ ہندوستان آئے۔ یہ لوگ کس راستے آئے اور پھر کتنے ہزار سال میں بتدریج اس راستے سے آگے پھیلتے رہے، اس کی حتمی مدت طے نہیں ہو سکی لیکن 8سے 10ہزار سال پرانے مہرگڑھ، بلوچستان کے آثار بتاتے ہیں کہ اس خطے میں ترقی یافتہ انسانوں کی آبادیاں ہڑپہ اور موہنجو داڑو سے بہت پہلے سے موجود تھیں۔ یقینا مہرگڑھ میں لوگ کوئی زبان بولتے ہوں گے۔ چار ہزار سال پرانے ہڑپہ سے ایسی مہریں اور تختیاں ملی ہیں جن پر کوئی زبان لکھی ہوئی ہے۔ یہ مصری تہذیب کی ہم عصر تہذیب تھی۔ ہڑپہ سے جو مہریں ملیں ویسی ہی میسیپوٹومیا سے کھدائی کے دوران ملیں۔ یعنی دونوں علاقوں میں تجارت ہوئی تھی جس میں یہ مہریں استعمال ہو رہی تھیں۔ مصری اور میں میسیپو ٹیمئین تہذیب کو پڑھا جاچکا ہے ۔افسوس کہ پنجاب اور پاکستان کے ایک بڑے حصے کی لسانی تاریخ ابھی تک کھل نہیں سکی۔ ہڑپہ کی تحریریں پڑھنے میں کامیابی نہیں مل سکی۔زمین پر انسان بہت قدیم ہے۔ ہندوستان کا خطہ پانچ ہزار سال کی تاریخ کی روشنی میں پڑھا جاتا ہے کیونکہ یہ زمانہ آریائوں کی آمد کا زمانہ ہے۔ ڈی این اے ٹیسٹ اورتاریخ ہمیں بتا رہی ہے کہ ہمارے اجداد افریقہ سے آئے ۔مطلب یہ کہ دراوڑی زبان سے پہلے جو ہمارا ذخیرہ الفاظ تھا اس کا تعلق افریقہ کے علاقوں سے ملتا ہے۔ کہنے کو ہمارے ہاں لسانیات کے ہزاروں طالب علم ہر سال یونیورسٹیوں سے فارغ ہو رہے ہیں۔ کوئی انگریزی، کوئی عربی، کوئی فارسی اور کوئی کسی اور زبان میں اعلیٰ ڈگری لیتا ہے لیکن حالت یہ ہے کہ مقامی لسانیات کی تاریخ پر بات کرنے والے اور لکھنے والے لوگ نہ ہونے کے برابر رہ گئے ہیں۔