لاہور(انور حسین سمرا ) پنجاب میں اہم انتظامی عہدوں پر تعینات وفاقی سول افسران اور صوبائی سول افسران کے درمیان انتظامی ڈھانچے میں پوسٹوں پر تعیناتیوں کے تناسب پر تنازع شدت اختیار کرگیا جس کی وجہ سے صوبے میں گورننس بری طرح متاثر ہونے ، عوام کے مسائل میں عدم دلچسپی اور حکومتی احکامات پر عمل داری کمزور ہونے کا انکشاف ہوا ہے ، 92 نیوز کے پروگرام نائٹ ایڈیشن میں نمائندہ خصوصی انور حسین سمرا نے انکشاف کیا کہ پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس(پی اے ایس) کے وفاقی افسر پنجاب کے تمام اہم عہدوں پر تعینات ہیں جن کو پراونشل مینجمنٹ سروس(پی ایم ایس) کے صوبائی افسر آئین کی 18ویں ترمیم کے منافی تصور کرتے ہیں ، ان وفاقی افسران کا صوبہ بدری کا مطالبہ زور پکڑ رہا ہے ، وفاقی سول سروس کے افسران کا موقف ہے کہ ان کی صوبے میں تعیناتی سی ایس پی رولز 1954اور سول سروس آ ف پاکستان رولز 2014کے تحت ہے ۔پنجاب کی صوبائی سول سروس نے وزیر اعظم عمران خان اور وزیر اعلی پنجاب سردار عثمان بزدار کو سول سروس ریفارمز کے تحت اس دیرینہ مسئلے کے حل کے لئے خطوط لکھے ہیں، صوبائی افسران نے ڈاکٹر عشرت حسین کی سربراہی میں متعارف کر ائی گئی سول سروس ریفارمز پرسنگین اعتراضات بھی اٹھا دیئے ،اینکر پرسن شازیہ اکرام سے گفتگو کرتے ہوئے انورحسین سمرا نے کہا کہ شروع دن سے ہی پنجاب میں وفاقی اورصوبائی سول افسران کے درمیان چپقلش چل رہی تھی ۔ روزنامہ 92کی تحقیقات اور دستاویزات کے مطابق صوبائی سول سروس نے موقف اپنایا آ رٹیکل 97کے مطابق وفاقی ایگزیکٹو لاء صرف وفاقی محکموں پر لاگو ہونگے اور وہ صوبوں کے محکموں پر لاگو نہیں ہونگے ، صوبے میں اسسٹنٹ کمشنر سے چیف سیکرٹری تک 1850انتظامی پوسٹیں ہیں ، سی ایس پی رولز 1954کے تحت اگر ان کو درست بھی مان لیا جائے تو پی اسے ایس کے افسران کا کوٹہ 47 بنتا ہے ، انہوں نے اپنے لئے صوبائی انتظامی مشنری میں 704پوسٹیں مختص کی ہوئی ہیں ، اس وقت 303اہم عہدوں پر تعینات ہیں اور اپنے حصے کی دیگر 400پوسٹیں خالی رکھی ہوئی ہیں جس کی وجہ سے گورننس اور انتظامی خلا پیدا ہوچکا ۔ صدرپرونشل مینجمنٹ سروسزپنجاب طارق محمود اعوان نے پروگرام میں کہا ہمارا آئینی مطالبہ ہے کہ دونوں سروسزکو اپنی اپنی ڈومین میں کام کرناچاہئے ، پنجاب کی ٹاپ بیوروکریسی کی وزیراعلی پنجاب اورچیف سیکرٹری کوئی جواب دہی نہیں کرسکتے ہیں کیونکہ ان افسروں کو سارے آرڈز وفاق سے ملتے ہیں۔ لاہور(مانیٹرنگ ڈیسک)وزیر قانون پنجاب راجہ بشارت نے کہا ہے کہ نوازشریف کو عدالت نے آٹھ ہفتے کیلئے ریلیف دیا تھا ، فیصلے میں لکھ دیا گیا تھاکہ پنجاب حکومت سے رجوع کرنے کے بعد ن لیگ مزیدریلیف لے سکتی ہے ، ہمیں کہا گیا جو رپورٹس دی گئی ہیں انہیں پراکتفاکیاجائے ، جتنی بھی رپورٹس موصول ہوئی تھیں ان پر میڈیکل بورڈ نے غور کیا ہم نے ان کے نمائندے عطا تارڑ اورڈاکٹر عدنان سے بھی رابطہ کیا ، انہیں میڈیکل بورڈ کے سفارشات کے بارے میں بتایا جب انہوں نے منفی میں جواب دیا تو پھر فیصلہ کیا۔ نوازشریف 16 ہفتوں میں ایک دن کیلئے بھی کسی ہسپتال میں داخل نہیں ہوئے ۔ مسلم لیگ ن کے رہنما خرم دستگیرنے کہاہے کہ اللہ کا شکرہے کہ ہمارے سینئر رہنمائوں شاہد خاقان عباسی اور احسن اقبال کو ریلیف ملا، یہ پہلا کیس نہیں جس میں عدالت نے نہیں لکھا کہ جرم ثابت ہونے تک کسی کو حراست میں نہیں رکھا جاسکتا ، جب ملزم تعاون کررہاہے تواسے کیوں گرفتارکیاجاتا ہے ، کابینہ نے ان کی رہائی کو عدالت میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے توساتھ ہی نیب نے بھی یہی اعلان کیا جس سے ثابت ہوتاہے کہ حکومت اورنیب کا گٹھ جوڑ ہے ،نوازشریف کی صحت ا بھی خراب ہے ان کی بیماری پرسیاست نہ کی جائے ۔ سابق سفیر شاہد امین نے کہا کہ ٹرمپ کی پیشکش پاکستانی موقف کی پذیرائی ہے ۔ بھارت کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ کہتا ہے لیکن اس کے برعکس امریکی صدر نے کشمیر کے مسئلے پر ثالثی کا کہا، ٹرمپ عمران خان کو اپنا دوست اورپاکستان کو بہتر قراردیتے ہیں۔ دو سال پہلے ٹرمپ نے پاکستان پر الزامات لگائے لیکن اس کے بعد ان کے رویے میں تبدیلی آئی ہے ۔