پنجاب اور سندھ کی حکومتوں نے نئے مالیاتی سال کے بجٹ پیش کر دیے ہیں پنجاب کا بجٹ 23کھرب 57ارب روپے کا ہے جس میں درجنوں چھوٹے اور درمیانے کاروباروں پر ٹیکس عائد کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ جبکہ وزیر اعلیٰ سندھ نے 1217ارب حجم کا صوبائی بجٹ کسی خسارے کے بغیر پیش کیا۔ دونوں بڑے صوبے قومی تعمیر و ترقی میں اہم حیثیت رکھتے ہیں۔ کاروبار اور ٹیکس وصولیوں کے لحاظ سے بھی دونوں ممتاز ہیں اس لئے ان کے بجٹ کو قومی اہداف کے تناظر میں خصوصی اہمیت دی جاتی ہے۔ وفاقی نظام صوبائی اکائیوں سے تعمیر ہوا ہے۔ کسی علاقے کو صوبے کا درجہ دینے سے دراصل اختیارات نچلی سطح تک منتقل کرنا ہیں۔ پنجاب پاکستان کی مجموعی آبادی کا نصف ہے۔ اس کی 10کروڑ کی آبادی دنیا کے کئی ملکوں سے حجم کے اعتبار سے بڑی ہے۔ یہ آبادی کن روزگار ذرائع سے وابستہ ہے‘ اس کی بنیادی ضروریات کس حد تک پوری ہوتی ہیں اور یہ دس کروڑ نفوس اپنی بچت کو کس طریقے سے محفوظ کرتے ہیں اس کا منصوبہ صوبائی حکومت ترتیب دیتی ہے۔ مجموعی طور پر کچھ عرصہ قبل عام آدمی کی بجٹ میںدلچسپی کا محور تنخواہ میں اضافہ اور اشیائے ضروریہ کے نرخوں میں کمی بیشی ہوتا تھا۔ حکومتیں بھی اپنی توجہ ان ہی معاملات پر مرکوز کرتیں۔ یوں اجتماعی ترقی اور قومی بہبود کے متعلق عوام کے مطالبات کسی دبائو کی شکل اختیار نہ کر پاتے۔ حکومتی اور سرکاری اداروں میں بدانتظامی اور بدعنوانی حد سے نہ بڑھ جاتیں تو بجٹ دستاویز کا تجزیہ اب بھی تنخواہوں‘ پنشن اور دال ‘ چاول‘ آٹا کے نرخوں کو مدنظر رکھ کر کیا جاتا۔ نئے مسائل نئے طریقہ کار کی گنجائش پیدا کرتے ہیں۔ جنوبی پنجاب کا علاقہ برسہا برس سے محرومیوں اور پسماندگی کا شکار ہے۔ دیہی سندھ اورباقی صوبوں کے دور دراز علاقوں کی حالت بھی کم و بیش ایسی ہی ہے۔ ان علاقوں میں سرکاری اہلکار مقامی بااثر کے ساتھ مل کر نہری پانی کی چوری‘ جنگلات کی غیر قانونی کٹائی‘ سرکاری اراضی پر قبضوں اور دیگر جرائم میں ملوث نظر آتے ہیں۔ تھانے کچہری اور پٹوارخانے میں مفلس آدمی کی شنوائی نہیں۔ کوئی بیمار پڑ جائے تو ہسپتال دستیاب نہیں۔ پنجاب کے بجٹ میں 9جدید ہسپتال تعمیر کرنے کی تجویز اس لحاظ سے قابل قدر ہے کہ یہ بنیادی سہولتوں میں شمار ہوتے ہیں اور عام آدمی جس طرح علاج گاہ میسر نہ ہونے پر ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرجاتاہے نئے ہسپتال تعمیر کرنے سے یہ دکھ کسی حد تک کم ہو سکیں گے۔ جنوبی پنجاب کو صوبے کے ترقیاتی بجٹ کا 35فیصد دیا جا رہا ہے۔ ان علاقوں میں تعلیمی اداروں‘ شاہرائوں کی تعمیر‘ زرعی ترقی اور بہتر ٹرانسپورٹ سہولیات کے ذریعے کئی طرح کی آسانیاں فراہم کی جا سکتی ہیں۔ نوجوانوں کو ترقی کے عمل کا حصہ بنائے بنا ملک آگے نہیں بڑھ سکتا۔ حالیہ وفاقی بجٹ میں نوجوانوں کو آسان شرائط پر قرضے فراہم کرنے کا منصوبہ شامل کیا گیا ہے۔ پنجاب کے بجٹ میں بھی 12ارب روپے بے روزگار نوجوانوں کو روزگار کی سہولیات فراہم کرنے کے لئے مختص کئے گئے ہیں۔ پنجاب کے صوبائی بجٹ میں غریب بیوائوں اور یتیم بچوں کی امداد کے لئے سرپرست پروگرام شروع کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔ یقینا جو خاندان اپنے کفیل سے محروم ہو جاتے ہیں ان کے لئے سماج میں عزت و وقار کے ساتھ زندگی گزارنا مشکل ہو جاتا ہے ان کی ضروریات بہت بنیادی قسم کی ہوتی ہیں مگر ناسازگار حالات اور وسائل کی عدم موجودگی ان کے دکھ بڑھا دیتی ہے۔ ایسے خاندانوں کی کفالت ریاست کی ذمہ داری ہے۔ بیوہ خواتین اور یتیم بچے معاشرے کی توجہ چاہتے ہیں۔ ریاست اگر ان کی سرپرستی نہ کرے تو ان کے مسائل ناقابل برداشت ہوسکتے ہیں۔ بجٹ میں ان کے لئے پروگرام رکھنے سے امید کی جانی چاہیے کہ ان بے سہارا اور بے کسوں کو عزت سے جینے کا موقع مل سکے گا۔بہتر ہو گا کہ اس سکیم کو غیر ضروری دستاویزات اور ریکارڈ سے مشروط کر کے مشکل نہ بنایا جائے۔ نئے ذرائع آمدن پیدا کرنے سے ریاست اپنے شہریوں کی بہبود کے نئے منصوبے شروع کرنے کے قابل ہو سکتی ہے۔ روائتی طور پر ہمارے ہاں بڑے تاجر اور صنعت کار سے ٹیکس جمع کیا جاتا رہا ہے۔ حکومت نے آمدن کا حجم سالانہ 6لاکھ سے زائد ہونے پر ہر شہری کو ٹیکس ادائیگی کا پابند کیاہے۔ گزشتہ دو عشروں میں لگژری ریسٹورنٹس‘ فاسٹ فوڈ پوائنٹس‘ آئس کریم پارلرز‘ مٹھائی کی دکانیں‘ بیکری کا کام‘ زمین کی خریدو فروخت کرنے والے ڈیلرز و ایجنٹس‘ پراپرٹی ڈویلپرز‘ مارکیٹنگ ایجنٹس‘ میڈیکل کنسلٹنٹس‘ ڈینٹل سرجنز‘ آڈٹ فرمز‘ وکلائ‘ ٹیکس مشیر‘ کرنسی ڈیلر‘ ہیلتھ کلبز اور جیولرز نے قابل رشک ترقی کی ہے۔ ٹیکس ادائیگی میں ان تمام کا حصہ دیکھیں تو خاصی مایوسی ہوتی ہے۔ پنجاب کے بجٹ میں ان کاروباروں پر مختلف شرح سے ٹیکس عائد کئے جا رہے ہیں۔ سندھ کے بجٹ میں محنت کش کی کم از کم اجرت 17ہزارماہانہ کی گئی ہے۔ صوبائی حکومت غربت کے خاتمہ کے لئے پروگرام شروع کرنے کی خواہاں ہے۔ ترقیاتی حصے کے بعد بجٹ کا زیادہ حصہ امن و امان برقرار رکھنے تعلیم اور صحت کی سہولیات کی فراہمی پر خرچ کرنے کی سفارشات کی گئی ہیں۔ سندھ حکومت کی کارکردگی کراچی کے مسائل اور تھر میں علاج کی ناکافی سہولیات کی وجہ سے متاثر ہوئی ہے۔ سندھ حکومت کو تھر میں شجرکاری‘ تعلیم اور صحت کی سہولیات کے حوالے سے قابل عمل پروگرام شروع کرنا چاہیے۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد چونکہ صوبوں کے پاس مرکز کی نسبت آمدن کے زیادہ ذرائع دستیاب ہیں اس لئے صوبائی حکومتوں کو بجٹ میں اپنے وسائل کا حکم ضرور حجم بڑھانے پر نظر رکھنا چاہیے۔