سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔ طاقت اور اقتدار کی اپنی کیمسٹری ہوتی ہے۔ پاور پلے کا سلسلہ ہو تو شاہ جہان جیسے باپ کو اورنگ زیب جیسا بیٹا قید کردیتا ہے۔ خلافت عثمانیہ کا شاہ سلمان اپنے سگے بیٹے کو مروادیتا ہے۔ عمران خان وزیراعظم بننے سے پہلے کبھی اقتدار کی راہداریوں سے نہیں گزرے تھے۔ ان غلام گردشوں میں قدم قدم پر سازشیں اور خوشامدیں آپ کا دامن تھامے رکھتی ہیں۔ شریف برادران بتدریج ان غلام گردشوں میں داخل ہوئے اور پھر گنگا الٹی بہہ نکلی۔ عمران خان کو قطعاً اندازہ نہیں تھا کہ جب وہ طاقت کے کھیل میں داخل ہوں گے تو اندر کون کون سے’’ اگر‘‘ اور ’’مگر ‘‘ان کے منتظر ہوں گے۔ ان کا معاشی ہوم ورک اگر زیرو نہیں تھا تو زیرو ہوگیا۔ ان کے پاس قابل بیوروکریٹس کی شیڈو ٹیم بالکل نہ تھی۔ ان کی فاسٹ بائولنگ کا ٹارگٹ دستیاب سیاستدانوں کو ٹارگٹ کرنا تھا۔ کیا زرداری اور کیا شریف، کیا مولانا اور کیا پرویز الٰہی۔ مگر یہ سارے پرانے کھلاڑی تھے۔ انہیں برے موسموں میں بھی باقی رہنے کا فن آتا ہے۔ جب شریف اور زرداری احتساب کے شکنجے میں کسے جارہے تھے اور الیکشن 2018ء کی آمد آمد تھی۔ چودھری آف گجرات اتنا زور اپنے حلقوں پر نہیں لگا رہے تھے جتنا وہ اقتدار کے اصل چشموں کے ساتھ رومانس بحال کرنے کی کوششوں اور کاوشوں میں مصروف تھے۔ پیار تو ہونا ہی تھا، سو ہوگیا۔ آج جس تپش سے شریف اور زرداری پگھلے چلے جا رہے ہیں چودھری آف گجرات اس سے کچھ فاصلے پر بیٹھے پنجاب کے پاور پلے میں بڑی احتیاط سے اپنے کارڈز کھیل رہے ہیں۔ کسی زمانے میں سلام عرض … جواب عرض اور آداب عرض ٹائپ کے ماہنامے ہوا کرتے تھے۔سستی سچی کہانیاں، پتہ نہیں کتنی سچی ہوتی تھیں مگر ان میں ایک شعر تواتر سے دہرایا جاتا تھا۔ ایک تو دھوپ تھی موم کے مکانوں پر۔ اس پر تم لے آئے سائبان شیشے کا۔ پنجاب میں عمران خان نے بزدار کو لاکر یہی کیا۔ اس وسیم اکرم پلس کو میڈیا پنڈت ناکام کرکٹر منصور اختر کے طور پر پینٹ کررہے ہیں جسے عمران خان بار بار چانس دے کر بھی کامیابی سے ہمکنار نہ کرسکے۔ باخبر حلقے کہتے ہیں کہ خادم اعلیٰ پنجاب کی پشت پر ایک ایسے روحانی حلقے کاہاتھ ہے جو ہالہ نور بنا ہر وقت عمران کو اپنی گرفت میں رکھتا ہے۔ وزیراعظم صاحب کی معاشی طور پر کرپٹ نہ ہونے کے علاوہ جو خوبیاں ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ اداروں سے اختلاف پیدا نہیں کرتے۔ ان کی چند خامیوں سے ایک آدھ یہ بھی ہے کہ وہ مردم شناس نہیں اور کانوں کے کچے بھی ہیں۔ اور یہ بھی کہ سیاست کے پیچ و خم کو اس لیے نہیں سمجھتے کہ وہ سرتاپا ایک سپورٹس مین ہیں۔ مگر مقام حیرت یہ ہے کہ گزشتہ دسمبر سے بار بار انہیں کہا جارہا ہے کہ پنجاب میں تبدیلی ضروری ہے ورنہ آل شریف کو سیاسی ڈینٹ ڈالنا مشکل سے مشکل تر ہوتا چلا جائے گا۔ میڈیا الگ اس انداز حکومت کو مسلسل لتاڑ رہا ہے۔ جب پنڈت پرویز الٰہی کے سامنے اس طرز حکومت کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہیں اور ان کے عہد کی تعریف کرتے ہیں تو چودھری صاحب صرف مسکر اکر کسی اور جانب دیکھنے لگتے ہیں۔ عثمان بزدار طبعاً کم گو اور شرمیلے ہیں۔ اس طبع کو بیلنس کرنے کے لیے شہباز گل کو سامنے لایا گیا۔ ان کے سامنے گورننس کا خلا ہی خلا تھا۔ وہ ترجمان بنتے بنتے چیف منسٹر کی لک دینے لگ گئے۔ بزدار صاحب کو کہا گیا … صرف پارٹی حلقوں کی جانب سے ہی نہیں … اتحادی دوستوں کی طرف سے بھی… سر یہ کیا ہورہا ہے؟ موصوف کیا کررہے ہیں؟ تو پھر وہی ہوا جو ایسے حالات میں کمزور پارٹی کے ساتھ ہوتا ہے۔ بزدار صاحب اس صوبے پر حکومت کررہے ہیں جہاں چودھری پرویز الٰہی اور شہباز شریف اپنی حکمرانی کے نقوش مرتب کرچکے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے اندر بے چینی بھی ہے اور دراڑ بھی۔ اس کی وجہ شہباز اور نواز کا اختلاف بھی ہے اور مریم شہباز کا اندازِ فکر بھی۔ سعد رفیق اور رانا ثنا جیسے لوہے کے چنے اپنی اپنی بچت میں مصروف ہیں۔ اس پکی پکائی کھیر کو Serve کون کرے؟ یہ کام بڑی حسن و خوبی سے چودھری آف گجرات کرسکتے تھے مگر چند وجوہات کی بنا پر ہوم ورک کے باوجود انہوں نے خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ پنجاب میں بیوروکریسی ایک اڑیل گھوڑا ہے۔ پرویز الٰہی اسے اور طرح ہینڈل کرتے تھے اور شہباز سپیڈ اور طرح۔ مگر گورننس آگے بڑھتی رہتی تھی۔ پنجاب میں افسران کی ٹرانسفر اور پوسٹنگ کس طرح ہوتی ہیں؟ کس محکمے کے 9 سیکرٹری بدل گئے … کس ڈی سی کی تین دفعہ پوسٹنگ اور ٹرانسفر ہوگئی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پنجاب میں طاقت کا ایک مرکز نہیں ہے۔ پنجاب میں چیف سیکرٹری یوسف نسیم کھوکھر چیف منسٹر ہائوس کے علاوہ اور بہت سی اطراف سے ڈائریکشن لیتے ہیں۔ اس پر عملدرآمد کو بھی یقینی بناتے ہیں۔ اگر کسی رولز رائس کو بھی چاروں جانب سے برابر رفتار سے کھینچا جائے تو؟ یہی کچھ پنجاب میں گورننس کا ہورہا ہے۔ سیاسی مجبوریاں بھی ہیں۔ قوت کے ایک سے زیادہ مراکز کی مسلسل مداخلت بھی ہے۔ مگر … شخصیت کا ایک اپنا کردار ہوتا ہے۔ عمران خان کسی طاقتور شخصیت کو پنجاب میں اس لیے کمانڈ نہیں دیتے کہ بنیادی طور پر پنجاب ہی سے اسلام آباد کا راستہ ہموار ہوتا ہے۔ عمران خان کسی اورکو لاکر کسی ممکنہ منظور وٹو کا جنم نہیں چاہتے۔ مگر وزیر اعظم کی یہ حکمت عملی پنجاب میں بیک فائر کررہی ہے۔ شہباز گل کی روانگی … صرف ٹپ آف دی آئس برگ ہے۔ چیف منسٹر صاحب عمرے سے واپس آتے ہیں۔ پورا پنجاب سیاسی اعتبار سے بھی اور بیورکریسی کے حوالے سے بھی شیک اپ ہوجاتا ہے۔ کیا مطلوبہ نتائج برآمد ہوجائیں گے؟ تحریک انصاف ایک سیاسی جماعت ہے۔ پنجاب میں وہ ڈلیور نہیں کر پارہی۔ اس کی سیاسی ٹیم پرفارم نہیں کر رہی۔ مسلم لیگ (ن) کا بیانیہ طاقت پکڑ رہا ہے۔ تحریک انصاف کا ووٹ بینک ماند پڑ رہا ہے۔ بیورو کریسی منہ زور ہے۔ عوام مایوس ہورہے ہیں۔ عمران پنجاب کو دوبارہ سٹارٹ کرکے دیکھ لیں ممکن ہے کچھ برآمد ہوجائے۔ مگر قرائن اور آثار کسی اور جانب اشارہ کررہے ہیں۔