جاویدیونس پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومت کا ایک سال مکمل ہو گیا تو اس بات کا جائزہ لینا ضروری ہے کہ اس دوران حکومت نے عوام کی بہتری، خوشحالی اور ریلیف فراہم کرنے کیلئے کیاکچھ کیا۔ پنجاب میں عثمان بزدار حکومت کو اقتدار سنبھالتے ہی بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔پنجاب میں حکومت نے نیا پاکستان کے نعرے کے ساتھ مختلف محکموں کی 8 پالیسیاں تشکیل دی ہیں جوکہ ایک ریکارڈ ہے ۔ ان میں انڈسٹریل پالیسی، واٹر پالیسی، ایگریکلچر پالیسی، لائیوسٹاک پالیسی، لیبر پالیسی، ٹورازم پالیسی، سپیشل ایجوکیشن پالیسی اور نان فارمل ایجوکیشن پالیسی شامل ہے ۔محروم اور پسماندہ طبقہ کیلئے پناہ گاہوں کی تعمیر، جنوبی پنجاب میں 13481ایکڑ زمین پر پودے لگائے ۔ ہزاروں سکولوں کی عمارتوں کو اپ ڈیٹ کیا اور عدم دستیاب سہولیات فراہم کیں۔دریائے چناب پر شہبازپور کے مقام پر ایک بڑا پل تعمیر کیا اورتکمیل جاری رکھی۔ حکومت پنجاب نے وزیراعلیٰ سردار عثمان بزدار کی قیادت میں انڈسٹریل پالیسی تشکیل دی تاکہ ان کو پنجاب میں سرمایہ دوست ماحول فراہم کیا جائے اور ا ایک چھت تلے تمام سہولیات فراہم ہوں ۔نئی انڈسٹریل اسٹیٹ پالیسی کے تحت اگلے پانچ سالوں کیلئے تین ٹارگٹ متعین کئے گئے جن میں 10فی صد سالانہ صنعتی ترقی، سالانہ 12لاکھ ملازمتوں کے مواقع پیدا کرنا اور سالانہ 5لاکھ افراد کو فنی تربیت دے کر انہیں روزگار کے قابل بنانا شامل ہے ۔ اس کے علاوہ غیرملکی کمپنیاں پنجاب میں 753ملین امریکن ڈالر کی سرمایہ کاری کریں گی جس سے 6 ہزار سے زائد افراد کو روزگار ملے گا۔ حکومت نے نئی صنعتوں کے قیام کیلئے Three directional approachکی فراہمی کیلئے بھی اقدامات کئے ہیں۔ مزیدبراں نئی صنعتوں کے قیام کیلئے 9انڈسٹریل اسٹیٹس میں10765ایکڑ اراضی کو ڈویلپ کیاجائے گا۔ گوجرانوالہ میں 150ایکڑ اراضی،وزیرآباد میں 63ایکڑ پر انڈسٹریل اسٹیٹس قائم کی جائیں گی جبکہ فیصل آباد میں 3317ایکڑ زمین پر انڈسٹریل سٹی بنایا جائے گا۔ سمال اور میڈیم انڈسٹری کی ترقی کو ہرگز نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ حکومت پنجاب نے 30ہزار نئی کمپنیوں کیلئے 6ارب روپے مختص کئے ہیں جن سے ساڑھے چارلاکھ روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے ۔ لون مارک اپ سپورٹ پروگرام کے تحت 7475سمال و میڈیم انٹرپرائزز کو 3ارب روپے کے قرضے فراہم کئے جائیں گے ۔ اسی طرح نوکریوں سے محروم 2لاکھ 85ہزار ہنرمند نوجوانوں کیلئے 12ارب روپے رکھے گئے ہیں تاکہ وہ اپنا کاروبار شروع کرکے باعزت روزگار کماسکیں۔ اسی طرح پنجاب یونیورسٹی ٹیکنالوجی منڈی بہاؤالدین اور ڈی جی خان میں میرچاکر خان رند یونیورسٹی کا قیام بھی شامل ہے ۔ نئی لیبر پالیسی کے تحت کام کے دوران اتفاقی حادثات اور خطرات کی طرف توجہ دلانے کے لئے پنجاب آکوپیشنل سیفٹی اینڈ ہیلتھ ایکٹ 2019، معاشرے کے کمزور ترین طبقے گھریلو ملازمین کی داد رسی کیلئے پنجاب ڈومیسٹک ورکرز ایکٹ 2019، مزدوروں کے تحفظ کیلئے پنجاب مینیمم ویجز ایکٹ 2018میں کم سے کم ماہانہ تنخواہ 16500روپے مقرر کی گئی ہے ۔2012ئسے کھٹائی میں پڑی لیبر کالونیوں کی الاٹمنٹ کو بحال کیا گیا ، ملتان اور لاہور میں تین لیبرکالونیوں کی تعمیر مکمل ہو گئی ہے ۔ وزیراعلیٰ سردار عثمان بزار کی قیادت میں چند ماہ کی قلیل مدت میں لاہور میں 5مقامات ریلوے سٹیشن، داتا دربار، سبزی منڈی، لاری اڈہ اور ٹھوکر نیاز بیگ کے علاوہ پنجاب کے پانچ بڑے شہروں میں 12عوامی پناہ گاہیں مکمل کی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ لودھراں، پاک پتن اور لیہ میں شیلٹر ہومز قائم کئے گئے ہیں۔ خواجہ سراؤں کے لئے 5کروڑ روپے کی لاگت سے خصوصی کمیونٹی سنٹر قائم کیا ہے ۔ دوسرے مرحلے میں لاہور کے 6 بڑے ہسپتالوں اور تمام ڈویژنل ہیڈکوارٹرز میں پناہ گاہوں کے قیام کا آغاز کیا گیا ہے ۔ حکومت پنجاب نے تعلیم کے شعبہ کی ترقی اور معیاری تعلیم کے فروغ کے لئے سپیشل ایجوکیشن پالیسی اور نان فارمل ایجوکیشن پالیسی تشکیل دی ہیں۔ اس کے علاوہ جنرل تعلیم کے فروغ کے لئے جامع اقدامات کئے ہیں جس میں 6 نئی یونیورسٹیوں اور 828 ملین روپے کی لاگت سے 43 نئے کالجز کا قیام شامل ہے ۔ اس کے علاوہ ہر ضلع میں ایک یونیورسٹی کے قیام کا منصوبہ تشکیل دیا گیا ہے ۔ ڈیڑھ ارب روپے کی لاگت سے 10 کالجز میں بی ایس بلاکس قائم کئے گئے ہیں۔ پنجاب بھر کے سپیشل ایجوکیشن کے تعلیمی اداروں کے لئے طالب علموں کو سفری سہولیات کی فراہمی کے لئے 335ملین روپے کی لاگت سے ٹرانسپورٹ کا انتظام کیا گیا ہے ۔ جہلم اور ملتان میں سپیشل ایجوکیشن سنٹرز اور سکولوں کی 250 ملین روپے کی لاگت سے تعمیر و تجدید نو کی گئی ہے ۔ تعلیم سے محروم 22 ہزار سے زائد نئے بچوں کو سکولوں میں داخل کیا گیا۔ 12ہزار بچوں کو غیر رسمی عارضی تعلیمی اداروں سے مستند تعلیمی اداروں میں منتقلی کا پروگرام مرتب کیا گیا ہے ۔ خواجہ سراؤں کے لئے 3 ادارے اور خانہ بدوشوں کے لئے 15 تعلیمی ادارے قائم کئے گئے ہیں۔ اسی طرح قیدیوں کی تعلیم کے لئے صوبے کی جیلوں میں 238ایڈلٹ لٹریسی سنٹرز(Adult Litracy Centers) قائم کرنے کے علاوہ پانچ اضلاع میں 220 اداروں کو یونیسیف کے تعاون سے فعال بنایا گیا ہے ۔ پیف سکولوں کا بجٹ بڑھا کر 20ارب روپے کر دیا گیا ہے جو تعلیمی میدان میں سنگ میل ثابت ہو گا۔ حکومت نے زمینداروں اور کسانوں کی بہتری اور زرعی شعبے کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے لئے بھی اقدامات اٹھائے ہیں۔ صوبہ میں ماڈل مارکیٹوں کے قیام کے لئے ایک ارب روپے کی لاگت سے زمین خریدی گئی ہے ۔ 2 ارب روپے سے ڈرپ اور سپرنکلر اری گیشن سسٹم کی سولرائزیشن کی گئی۔ 2 ارب روپے سے جنوبی پنجاب میں Horizantal لینڈ کی ڈویلپمنٹ کی گئی اور 2 ارب روپے ماحول دوست فارمنگ کا نفاذ عمل میں لایا گیا ہے ۔ زرعی ایمرجنسی کے تحت 18ارب روپے کی لاگت سے کھالوں کی تجدیدنو کا کام کیا گیا جس سے پانی کے ضیاع کو روکنے میں مدد ملے گی۔ اسی طرح تیل کے بیج، گندم، چاول اور گنے کی پیداوار بڑھانے کے لئے 18 ارب روپے کی لاگت سے نئے پروگراموں کا اجرائکیا گیا ہے ۔ پرائمری اینڈ سیکنڈری ہیلتھ کیئر کے زیراہتمام میانوالی، لیہ، اٹک اور راجن پور میں 200 بیڈز کے مدراینڈ چائلڈ ہسپتال اور نرسنگ کالج کا قیام عمل میں لایا گیا ہے ۔ اس کے علاوہ ہسپتالوں میں 8.5 ارب روپے کی ادویات کی خریداری کا عمل جاری ہے ۔ڈی ایچ کیوز اور ٹی ایچ کیوز ہسپتالوں میں ٹی بی کے ٹیسٹوں کی 150جدید مشینیں لگائی گئی ہیں۔ہسپتالوں میں 8ہزار 350 بیڈز کا اضافہ کیا گیا۔ حکومت کی نیک نیتی اور اخلاص کا ثبوت ہے کہ وزیراعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب کے بیانیہ کو نہ صرف عام لوگوں نے قبول کیا ہے بلکہ لوگ اس کا ساتھ دے رہے ہیں۔ لوگ اپنے اور اپنے بچوں کے روشن اور خوشحال مستقبل کیلئے اس مشکل وقت میں حکومت کے ساتھ کھڑے ہوئے ہیں کیونکہ ان کو یقین ہے کہ ع یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہوگی