اس وقت جب مغربی اور نام نہاد روشن خیال ممالک مذاہب اور مقدس شخصیات کی توہین و تضحیک کو آزادیء رائے کی آڑ میں کھلی چھوٹ دے رہے ہیں اور دنیا کے اربوں دلوں کو زخمی کرنے والے گمراہ کن عناصر کو تحفظ فراہم کر رہے ہیں وہیں پنجاب حکومت نے ہر مذہب کی مقدس ہستیوں کے تقدس کو قانونی تحفظ فراہم کر کے دنیا بھر کے لیے ایک مثال قائم کر دی ہے۔ بدھ (22جولائی2020ئ)کے روز پنجاب اسمبلی نے ’’پنجاب تحفظِ بنیادِ اسلام بل2020ء ‘‘ منظور کر کے دنیا پر واضح کر دیا ہے کہ ’’روشن خیالی‘‘ کی چکا چوند میں چلائی جانے والی اخلاقیات کی کالی آندھیوں کے آگے بند باندھنا ممکن ہے۔ اس کارنامے کا سہرا وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار، سپیکر پنجاب اسمبلی چوھدری پرویز الٰہی، وزیر قانون محمد بشارت راجہ، سیکریٹری اطلاعات راجہ جہانگیر انور اور دیگر متعلقہ افسران کو جاتا ہے۔ یہ قانون نہ صرف دین اسلام بلکہ تمام مذاہب کی مقدس ہستیوں ، شعائر اورتہذیب و ثقافت کے احترام کو یقینی بنا تا ہے۔ اس قانون کی بنیاد گزشتہ سال تین غیر ملکی کتب بنیں جن میں نبیء اکرم خاتم النبیّین ﷺ کے بارے میں نہائت گھٹیا زبان استعمال کی گئی۔یہ بات جب صوبائی وزیر حافظ عمار یاسر کے نوٹس میں آئی تومعلوم ہوا کہ ایسی کتب کے خلاف کارروائی کرنے کے لئے کوئی موثر قانون ہی موجود نہیں چنانچہ وہ پنجاب اسمبلی میں قانون بنانے کے لیے قرارداد لائے جس پر سپیکر نے وزیر قانون کی سربراہی میں سپیشل کمیٹی قائم کی۔ اس کمیٹی نے دن رات محنت کر کے موجود قانون کا مسودہ تیار کیا جسے پنجاب اسمبلی نے کثرت رائے سے منظور کر لیا۔سپیکر نے بل منظور ہونے کے بعد اسے تاریخی قرار دیتے ہوئے کہا کہ وفاق اور دیگر صوبوں کو اس حوالے سے پنجاب کی تقلید کرنی چاہیے۔انہوں نے کمیٹی کے سربراہ محمد بشارت راجہ، حافظ عمار یاسر، ایم پی ایز محمد معاویہ، سید حسن مرتضیٰ، محمد کاشف، خلیل طاہر سندھو، سردار امریش سنگھ اروڑہ اور مفتی محمدتقی عثمانی، مفتی منیب الرحمن، قاری حنیف جالندھری سمیت معاونت کرنے والے دیگر علما ء کرام، پنجاب کابینہ اور اراکین اسمبلی کا شکریہ ادا کیا ۔ انہوں نے خصوصی طور پر سیکریٹری اطلاعات پنجاب راجہ جہانگیر انور اوردیگرمعاون افسران کی تعریف کی کہ انہوں نے قانون کی تیاری میں دن رات محنت کی۔ بل کی منظوری کے بعد وزیر قانون راجہ بشارت نے مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ یہ قانون وزیر اعظم عمران خان کے ریاستِ مدینہ کے ویژن کی طرف اہم پیش رفت ہے ۔انہوں نے کہا کہ ’’یہ قانون فرقہ واریت اور مذہبی منافرت کے خاتمے میں معاون ثابت ہو گا۔اسلام سمیت تمام مذاہب کا احترام آئین ِ پاکستان کا اہم جزو ہے اور اس سے آئین مضبوط ہوا ہے۔اب نصابی کتب سمیت کسی بھی مطبوعہ چیز میں انبیا ء کرام، صحابہ عظام، اہل ِ بیت ، امہات المومنین اور کسی بھی مذہب کی مقدس ہستیوں کا مذاق نہیں اڑایا جا سکے گا بلکہ ایسی ناپاک جسارت کرنے والوں کو بھاری جرمانہ اور قید سخت کی سزا کاٹنا ہو گی۔‘‘ یہ قانون مطبوعہ ذریعہء ابلاغ میں نہ صرف مذہبی منافرت ہی نہیں بلکہ صوبے میں ہر قسم کی دہشت گردی ، انتہا پسندی،فرقہ واریت ، نسل پرستی اور نظریۂ پاکستان یا ملکی سلامتی کی مخالفت اورفحاشی و عریانی کے سدباب میں بھی اہم کردار ادا کرے گا۔قارئین کی آگاہی کے لئے اس قانون کی اہم دفعات اورشقیں بیان کی جارہی ہیں۔ دفعہ 3۔مخصوص مواد کی اشاعت کی ممانعت کوئی بھی پبلشر،مدیر یا مترجم کسی بھی کتاب میں ایسا مواد شائع نہیں کرے گا جس میں درج ذیل شامل ہو۔ (ا)خود کش بمباروں، دہشت گردوں یا دہشت گردی کے شکار متاثرین کے اجسام کی تصاویر ، فوٹو، سوائے ان کے جو قانون نافذ کرنے والے اداروں کو تحقیقات کے لیے درکار ہوں، عسکریت پسنداور انتہا پسندعناصر کے بیانات و اعلانات یا کوئی بھی ایسی چیز جوکسی بھی طرح دہشت گردانہ سرگرمیوں کو فروغ دے یا دہشت گردوں اور دہشت گردی کو نمایاں کرے۔ یا معاونت دے یا دہشت گردو ں اور دہشت گردی کو نمایاں کرے۔ پرستی یا نسلی امتیاز پر مبنی ایسے خاکے یا مطبوعہ مواد یا بیانات، تبصروں، مشاہدوں یا اعلانات (ج)ایسا فوٹو گرافک یا مطبوعہ مواد جوتشددیانفرت یابین العقائد اشتعال پر مبنی ہو یا امن عامہ کے خلاف ہو۔ (ب) فرقہ واریت، نسل پرستی یا نسلی امتیاز پر مبنی خاکے یا مطبوعہ مواد یا بیانات ، تبصرے، مشاہدے یا اعلانات۔ (ج)ایسا فوٹوگرافک یا مطبوعہ مواد جو تشدد یا نفرت یا بین العقائد اشتعال پر مبنی ہو یا امن عامہ کے خلاف ہو۔ (د)ایسا مواد جو نظریہء پاکستان یا پاکستان کی خودمختاری، اتحادیا سلامتی کے خلاف ہو۔ (ر)ایسا مواد جو اخلاقیات اورشائستگی کے عمومی طور پر تسلیم شدہ معیار کے خلاف ہو اوربے حیائی، فحاشی اور عریانی کو فروغ دے (س)ایسا تصویری یا مطبوعہ موادجو کسی بھی شکل میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ، خاتم النبیّین حضرت محمد ﷺ،انبیاء علیہم السلام،فرشتوں،قرآن مجید، زبور، تورات،انجیل،دین اسلام،امہات المومنین رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین، خلفائے راشدین رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین،اہل بیت رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین اور کسی بھی صحابی ء رسول ﷺ کی توہین،تنقید،تضحیک یا تنقیص پائی جائے۔ دفعہ5۔ کتب کی لازمی کاپیوں کابھجوانا ہر ناشر کسی بھی کتاب کی اشاعت کی صورت میں اسی دن کتاب کی ہر جلد کی چار بہترین کاپیاںمجاز افسریا اس مقصد کے لیے حکومت کے مقرر کردہ افسران کو مقرر کردہ جگہ پر پہنچانے کا پابند ہوگا۔ نیز وہ اخبار یا کتاب کے ساتھ شائع ہونے والے تمام نقشہ جات،پرنٹ یا دیگر متعلقہ مطبوعہ مواد بھی مہیا کرے گا۔ دفعہ6۔ لازمی کاپیوں کی ڈسپوزل مذکورہ کاپیوں کی ڈسپوزل طے کردہ طریق کار کے مطابق کی جائے گی۔ دفعہ7۔ ڈائریکٹر جنرل تعلقات عامہ (DGPR) کے اختیارات (1)۔ڈی جی پی آر کواختیار حاصل ہو گا کہ ؛ (الف)کسی بھی چھاپہ خانہ، اشاعتی ادارہ کے دفاتر، کتاب گھر اور نیوز ایجنسی کا دورہ اور معائنہ کرسکتاہے اور کوئی بھی کتاب یا اخبار چھپنے سے پہلے یا بعد،جس میں قابل اعتراض مواد ہو ضبط کرسکتا ہے۔ (ب) تحقیقات کرکے اس کے اندر کسی بھی قابل اعتراض مواد کی موجودگی کا تعین کرسکتا ہے۔ (ج) اشاعتی ادارہ ، پرنٹنگ پریس یا نیوزایجنسی میں موجود اکائونٹس کا ریکارڈ چیک کرسکتا ہے یا اس کی انتظامیہ کو حکم دے سکتا ہے کہ وہ پریس رجسٹرار کے مقرر کردہ کسی بھی اہلکار کے سامنے پیش کرے۔ (2)۔ڈی جی پی آر اپنے اختیارات کسی بھی افسر کو تفویض کر سکتا ہے۔ دفعہ 8۔قومی و بین الاقوامی کتب کی ریگولیشن (1)کاپی رائیٹ کے مروجہ قانون کی رو سے کوئی بھی فرد ، سوائے پریس رجسٹرار کی پیشگی اجازت کے،کوئی ایسی کتاب یا کام کی طباعت یاا شاعت نہیںکرے گا جو اس سے قبل پاکستان یاکسی بیرونِ ملک میں چھپ یا شائع ہو چکی ہو ۔ (2)کسی کتاب یا کام کی طباعت یا اشاعت کی اجازت کے لئے مقررہ فیس کی ادائیگی کے بعد طے کردہ طریق کار کے مطابق درخواست دے گا۔ (3)پریس رجسٹرار ذیلی دفعہ(1) کے تحت دی گئی درخواست کو مسترد کر سکتا ہے اگرمطلوبہ کتاب یا کام قومی مفاد، ثقافت،مذہب یا فرقہ وارانہ ہم آہنگی سے متصادم ہو۔ (4)پریس رجسٹرار پابند ہو گا کہ وہ ذیلی دفعہ(1) کے تحت پیش کی گئی کتاب کوکسی بھی مذہبی موادکی پیشگی منظوری کے لیے متحدہ علما ء بورڈ کو بھجوائے۔ (5)حضرت سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ کے نام سے پہلے لازمی طور پر خاتم النبیین اور آخر میں ﷺ یا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لکھا جائے گا۔ (6)ہر نبی کے نام کے نام کے بعد لازمی طور پرعلیہ السلام لکھا جائے گا۔ (7)حضرت محمد خاتم النبیین ﷺ کی ہر زوجہء محترمہ کے نام سے پہلے لازمی طور پر ام المومنین اور آخر میں رضی اللہ تعالیٰ عنہا لکھا جائے گا۔ (8)ہر خلیفہء راشد کے نام سے پہلے لازمی طور پر خلیفہء راشد اور آخر میں لازمی طور پر رضی اللہ عنہ لکھا جائے گا۔ (9) نبی آخرالزماں ﷺ کی چار صاحبزادیوں میں سے ہر ایک کے نام کے آخر میں لازمی طور پررضی اللہ عنہا اور تین صاحبزادوں میں سے ہر ایک کے نام کے بعدلازمی طور پر رضی اللہ عنہ لکھا جائے گا۔ (10)اہل بیت اطہار یا حضرت محمد خاتم النبیین ﷺ کے ہر نواسے یا نواسی میںسے کسی کا نام بھی لکھا جائے تو آخر میں لازمی طور پر رضی اللہ عنہ یا رضی اللہ عنہالکھا جائے گا۔ (11)ہر صحابی ء رسول ﷺ کے نام کے آخر میں لازمی طور پر رضی اللہ عنہ اور ہر صحابیہ کے نام کے آخر میں رضی اللہ عنہا لکھا ًجائے گا۔ (12)پنجاب میں ہر چھپنے یا شائع ہونے والی کتاب یا کسی دوسرے صوبے یا ملک سے پنجاب میں آنے والی کتاب بھی دفعہ8کی ذیلی دفعات5تا11میں دیے گئے کوائف کی پابندی سے عبارت ہو گی۔ دفعہ 9۔کتب کی فروخت (1)کوئی بھی کتاب فروش یا بک سٹوریا اشاعتی ادارہ اپنے ادارہ کو مجاز افسر کے پاس طے شدہ طریق کار کے تحت رجسٹر کرائے بغیر کوئی کتاب فروخت کرنے کا مجاز نہیں ہو گا۔ (2) کوئی بھی کتاب فروش یا بک سٹوریا اشاعتی ادارہ قانون ہٰذا یا رولز کے برخلاف کوئی کتاب رکھ یافروخت نہیں کر سکے گا۔ دفعہ 10۔منفرد رجسٹریشن نمبر صوبہ کی حدود میں چھپنے والی ہر کتاب کو مجاز افسر طے شدہ طریق کار کے تحت ایک منفرد(یونیک) نمبر الاٹ کرے گا۔ دفعہ11۔سزا اگر کوئی قانون ہٰذا کی دفعہ3(سوائے شق س یا f) خلاف ورزی کا ارتکاب کرے تو وہ پانچ سال تک قیداور پانچ لاکھ روپے تک جرمانہ کا سزاوار ہو گا۔ وضاحت:دفعہ3کی شق س(f) کی ذیل میں آنے والے جرائم کو پاکستان پینل کوڈ1860 ء یا کسی دیگر موجودہ قانون کے تحت سزا دی جائے گی۔ دفعہ 12۔کتب کی عدم فراہمی اگر کوئی پبلشر دفعہ5کے تحت کسی کتاب کی لازمی کاپیاں فراہم کرنے میں ناکام رہے تو جس مجاز افسریا ایسے افسران کو وہ کاپیاں فراہم کرنا تھیں، اس کی شکایت پر وہ فراہم نہ کردہ ہر کاپی کے عوض کم ازکم دس ہزار روپے جرمانہ جمع کرائے گا اور اس جرمانہ کے علاوہ عدالت کی جانب سے عدم فراہم کردہ کاپیوں کی عائد کردہ قیمت بھی حکومت کو جمع کرانے کا پابند ہو گا۔ دفعہ 13۔سرکاری وا جبات کی وصولی قانون ہٰذا کے تحت کوئی بھی واجب الوصول سرکاری رقم سزا سنائے جانے کی تاریخ سے پندرہ دن کے اندرمختص کردہ اکائونٹ میں جمع کرانا ہو گی اور اگر کوئی جمع نہیں کراتا تو اس سے یہ رقم بطور لینڈ ریونیو بقایا جات وصول کیے جائیں گے۔ دفعہ14۔جرم کی سماعت قانون ہٰذا کی کسی بھی خلاف ورزی کی صورت میں جرم کی سماعت مجسٹریٹ درجہ اول سے کم کی عدالت نہیں کر سکے گی اور کوئی بھی عدالت اس وقت تک سماعت نہیں کرے گی جب تک اسے حکومت یا اس مقصد کے لیے مقررکسی مجازافسر کی جانب سے شکایت موصول نہ ہو۔