پنجاب حکومت نے مالی سال 2020-21ء کے لئے 22کھرب 40ارب روپے کا سرپلس ٹیکس فری بجٹ پیش کر دیا۔ نئے بجٹ میں جنوبی پنجاب کے لئے بلاک ایلوکیشن کی مد میں 3ارب روپے‘نئے منصوبہ جات کی مد میں 76ارب اور جاری منصوبوں کے لئے 184ارب روپے مختص کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ وفاق اور صوبہ پنجاب میں ایک جماعت کی حکومت ہونے کے باعث دونوں کے بجٹ میں کافی حد تک مماثلت پائی جاتی ہے ۔پنجاب حکومت نے مرکز کی پیروی کرتے ہوئے نیا ٹیکس عائد کیا نہ ہی کچھ ریلیف فراہم کیا۔ سال بھر میں جو مہنگائی ہوئی اس کا ازالہ بھی نہیں کیا گیا۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ ہوا نہ ہی پنشنر کی داد رسی کی گئی۔ گویا اس بار مرکزی و صوبائی حکومت نے کورونا کو آڑ بنا کر بجٹ پیش کیا ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ کورونا نے ہماری معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ سوا تین ماہ ہونے کو آئے ہیں ابھی تک کاروبار رواں نہیں ہو سکا۔ ہفتے میں پانچ دن کاروبار کھلا رہتا ہے لیکن اس میں بھی مخصوص اوقات ہیں جبکہ ستر برس سے ہمارے شہری اس بات کے عادی ہو چکے ہیں کہ وہ رات گئے تک خریداری کرتے ہیں۔ شاپنگ مالز کے چکر لگاتے ہیں۔ خصوصاً ہفتے کے دو آخری دنوں میں تو کاروبار خوب چمکتے ہیں لیکن کورونا کے باعث حکومت نے اوقات کار مقرر کئے ہیں۔ حقیقی معنوں میں ابھی تک کاروبار پھل پھول نہیں سکا۔ شادی ہالز فروری کے آخر سے بند ہیں۔ ان کے ساتھ وابستہ مزدور اور ملازمین بھی بے روزگار ہو چکے ہیں۔ شادی ہالز پر جو ٹیکس عائد کیا گیا تھا اس کی وصولی بھی نہیں ہو پا رہی‘ اسی طرح ہوٹلز میں بیٹھ کر کھانے پر پابندی عائد ہے، جس کے باعث ہوٹلز کی سیل میں بھی خاطر خواہ کمی واقع ہوئی ہے۔ سیاحت کا پہیہ بھی بند ہے۔ پنڈال میں شامیانہ سروسز کی بھی اجازت نہیں۔ لہٰذا حکومت کو جہاں سے ریونیو حاصل ہونا تھا وہ شعبے بدستور بند ہیں ، مستقبل قریب میں ان کے کھلنے کی کوئی امید بھی نہیں ہے۔ اس کے علاوہ ٹڈی دل نے زراعت کو جو نقصان پہنچایا ہے اس سے مشکلات میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ پنجاب کے بجٹ میں سے 125ارب روپے کا سرپلس بجٹ ہے لیکن اس ساری آس کا انحصار این ایف سی پر ہے۔ خدانخواستہ اگر مرکز کی طرف سے توقعات کے مطابق پیسے نہ ملے تو پھر یہ بجٹ سرپلس نہیں رہے گا، اس لئے پنجاب حکومت کو ٹیکس اکٹھا کرنے والے اداروں کی استعداد بھی بڑھانا ہو گی تاکہ جو اہداف مقرر کئے ہیں وہ حاصل بھی کیے جا سکیں۔ اپوزیشن نے ماضی کی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے بجٹ میں رکاوٹیں ڈالنے کی کوششیں کی۔ سپیکر ڈائس کے سامنے احتجاج بھی کیا حالانکہ پہلے اسی غفلت اور لاپرواہی کے باعث میاں شہباز شریف سمیت ایک درجن کے لگ بھگ ن لیگی رہنما کو رونا وائرس کی زد میں ہیں۔ بجٹ کے موقع پر مسلم لیگ(ن)کے کئی ارکان نے بے احتیاطی کی ہے‘ ایک طرف حکمران اور سیاستدان عوام کو احتیاطی تدابیر احتیاط کرنے کا کہتے ہیں دوسری جانب خود ایس او پیز پر عملدرآمد نہیں کرتے‘ تو عوام کیسے باز آئیں گے۔ تحریک انصاف کی حکومت نے 27اضلاع میں موٹر سائیکل ایمبولینس شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس منصوبے کا براہ راست عوام الناس سے تعلق ہے۔ پنجاب کے دیہی علاقوں میں موٹر سائیکل ایمبولینس کے اجرا سے نہ صرف مریضوں کو بروقت ہسپتال پہنچانے میں آسانی ہو گی بلکہ اس سروس سے غریب اور متوسط طبقہ بھی مستفید ہو سکے گا۔ دیہی علاقوں میں سڑکیں خستہ حال ہو چکی ہیں لیکن اب صوبائی حکومت نے پروگرام نیا پاکستان منزلیں آسان کے تحت آئندہ بجٹ میں 15ارب روپے کی لاگت سے دوسرے مرحلے کا آغاز کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یقینی طور پر اس پروگرام سے دیہی علاقوں کو جانے والے راستے اب پختہ ہونگے اورشہری بروقت منزل مقصود تک پہنچ سکیں گے۔ پی ٹی آئی نے اقتدار میں آنے سے قبل جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانے کا اعلان کیا تھا ، اس بجٹ میں جنوبی پنجاب کی ترقی کے لئے 265ارب روپے مختص کئے ہیں۔ یکم جولائی 2020ء سے جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ اپنا کام کرنا شروع کر دے گا۔ اس سے لوگوں کے مسائل کم ہونگے۔ اب انہیں لمبا سفر طے کر کے لاہور میں اپنے مسائل کے حل کے لئے نہیں آنا پڑے گا۔ مسلم لیگ ن نے بھی جنوبی پنجاب کے لئے کافی فنڈز رکھے تھے لیکن بدقسمتی سے پھر وہ فنڈز وہاں سے منتقل کر کے تخت لاہور کو نوازا گیا۔ یہاں پر بڑے بڑے منصوبے تشکیل دیے گئے ہیں، جس کے باعث جنوبی پنجاب کے عوام کے دلوں میں احساس محرومی پیدا ہوا۔ پی ٹی آئی کی حکومت نے نئے مالی سال میں جنوبی پنجاب کے تینوں ڈویژن کے لئے جو فنڈز مختص کئے ہیں ان فنڈز کو رنگ فینسنگ کرنے کی منظوری بھی دے دی ہے۔ یعنی یہ فنڈز کسی اور جگہ منتقل نہیں ہونگے بلکہ جن علاقوں کے لئے یہ مختص کئے گئے ہیں انہیں پر خرچ ہونگے۔ اس سے جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے دلوں میں احساس محرومی کم ہو گا لیکن اس کے ساتھ ساتھ پی ٹی آئی نے اقتدار میں آنے سے قبل جنوبی پنجاب کے لوگوں سے جو وعدے کئے تھے انہیں بھی پورا کرے ،سیکرٹریٹ بنانے سے لوگوں کے مسائل کافی حد تک کم ہو جائیں گے لیکن جب تک آپ ان کی محرومیوں کا ازالہ نہیں کریں گے، ان کے ساتھ کئے وعدوں کو پورا نہیں کیا جاتا تب تک پی ٹی آئی سیاسی میدان میں سرخرو نہیں ہو سکتی۔ اس لئے دیگر منصوبوں کے ساتھ ساتھ حکومت اپنے وعدے کی پاسداری بھی کرے کیونکہ آئندہ انتخابات میں جنوبی پنجاب کے عوام ان سے وعدوں کی بابت بھی سوالات کرینگے۔انھیں اس کے لیے تیار رہنا ہو گا ۔