میرا اپنا تعلق اگرچہ سرائیکی وسیب سے ہے‘ میں حضرت خواجہ غلام فریدؒ کی دھرتی کا جم پل ہوں اور میری سرائیکی زبان کو دنیا بھر میں انتہائی شائستہ‘ شیریں اور دلکش زبان جانا مانا جاتا ہے مگر پنجابی تہذیب و ثقافت اور زبان و بیان میں بھی مجھے وہی شائستگی ‘ مٹھاس اور دلکشی محسوس ہوتی ہے جو پاکستان کی دوسری تہذیبوں‘ ثقافتوں اور زبانوں پشتو‘ بلوچی‘ سندھی اور سرائیکی وغیرہ میں‘ لاہور میں رہتے بستے مجھے بیالیس سال ہو چکے‘ میں طویل عرصہ تک اندرون شہر یعنی لوہاری میں مقیم رہا اور پنجابی زبان و ادب کے چند بڑے ناموں سے قریبی مراسم کے باعث مجھے اس زبان کی باریکیوں کو سمجھنے کا موقع ملا‘ بھاٹی ‘ لوہاری اور موچی دروازے میں مقیم دوستوں سے یادگار صحبتیں میری زندگی کا سرمایہ ہیں۔ جناب سبط الحسن ضیغم مرحوم پنجابی ادبی بورڈ کے کرتا دھرتا اور ٹھیٹھ پنجابی بولنے والوں کی محفلوں کی جان ہوا کرتے تھے اور ہم ان کے خوشہ چیں‘ ان بے تکلف محفلوں میں ہر شخص اپنے ذوق اور مزاج کے مطابق کھلی ڈلی گفتگو کرتا مگر یہ سننے اور جاننے کا موقع کبھی نہیں ملا کہ گالم گلوچ پنجاب کا کلچر ہے اور کوئی پنجابی باشندہ خواہ وہ دانشور اور سیاستدان ہو یا صحافی و استاد بغیر گالی کلام نہیں کر سکتا۔ موجودہ پارلیمنٹ کے بعض فاضل ارکان کا شکریہ جن کے طفیل پنجابی کلچر کا ایک نیا اور حیران کن پہلو سامنے آیا‘ ورنہ ہم یہی سمجھتے تھے کہ گالم گلوچ کسی خطے ‘ زبان‘ تہذیب و ثقافت اور قوم سے مخصوص نہیں‘ ہر جگہ ‘ہر نسلی و لسانی گروہ میں زیادہ تر لوگ گالی کو معیوب اور ناپسندیدہ سمجھتے ہیں مگر کچھ کو یہ مرغوب ہوتی ہے تاہم بڑے سے بڑے گلیمر انسان کی خواہش یہی ہوتی ہے کہ اس کا بیٹا‘ چھوٹا بھائی یا کوئی عزیز زبان کو ناشائستہ الفاظ اور باعث شرم جملوں سے آلودہ نہ کرے ‘ اسے کسی مجلس میں ندامت نہ اٹھانی پڑے‘ نجی محفلوں میں صرف پنجابی ہی نہیں‘ سرائیکی سندھی اور پشتون بھی گالی دیتے اور سنتے ہیں‘ یہ نہیں کہ گالی ہمارے روزمرہ کا حصہ نہیں یا کوئی زبان و ثقافت اس سے پاک ہے لیکن گالی کسی قوم اور علاقے کا کلچر ہے نہ کبھی کسی نے اس پر فخر کیا ہے‘ علامہ خادم حسین رضوی کی اللہ تعالیٰ مغفرت فرمائے‘ عشق رسولؐ میں گندھے اس عالم دین پر سب سے بڑا اعتراض ہمیشہ ہی ہوا کہ وہ مخالفین کی تواضع گالیوں سے کرتے ہیں ‘جو ایک عالم دین اور عاشقان رسولؐ کے شایان شان نہیں‘ پیروکاروں کی بات اور ہے مگر حضرت علامہ نے کبھی اس عادت کا یہ جواز پیش نہیں کیا کہ وہ پنجابی میں تقریر کرتے ہیں اور پنجابی ثقافت گالیوں سے مرصع ہے‘ میں کیا کروں؟۔ گزشتہ روز پارلیمنٹ میں بدکلامی اور فحش گوئی کا مقابلہ ہوا جس پر ابھی تک شرمندگی کا اظہار کسی نے نہیں کیا‘ محترمہ مریم نواز نے عربی زبان کا ایک محاورہ اپنے بیان کی زینت بنایا کہ جب انسان مایوسی کا شکار ہو تو وہ زبان درازی پر اُتر آتا ہے(اذایئس الانسان ‘ طال لسانہ) مگر اپنے زبان دراز ارکان اسمبلی کی سرزنش انہوں نے بھی نہیں کی‘ ان ارکان سے جواب طلبی کی ضرورت ہے جو گالی کو پنجاب کا کلچر قرار دے کر جملہ پنجابیوں کی توہین کے مرتکب ہیں۔ پنجابی ادب‘ پنجاب تہذیب و ثقافت کا نمائندہ ہے اور حضرت بابا فرید الدین گنج شکرؒ ‘ حضرت سلطان باہوؒ ‘ حضرت میاں محمد بخشؒ ‘ حضرت بلھے شاہؒ کی شاعری کے بغیر پنجابی ادب کی تکمیل ممکن نہیں‘ پنجابی زبان میں لکھے گئے شاہکار افسانوں ‘ ناولوں اور نثری ادب میں بھی جابجا گالیوں کی بھرمار نہیں کہ پنجابی کلچر کی شناخت ہو‘ اجڈ لوگ البتہ بھری محفلوں اور بہو بیٹیوں کے سامنے بھی گالیاں بکتے اور اسے جواں مردی سمجھتے ہیں‘ گالی غصے میں دی جائے یا مذاق میں بکی جائے ابتذال اور پست ذہنیت کی غماز ہے‘ ذہنی عدم توازن کا اظہار‘ گالی پر فخر صرف وہ شخص کر سکتا ہے جسے اپنی زبان کی طرح جذبات پر قابو ہے نہ جس کے دل و دماغ میں اعتدال و توازن۔ یہ پست ذہنی پنجابیوں سے مخصوص ہے نہ پنجاب کا کلچر‘ پاکستان کے سابق گورنر جنرل ملک غلام محمد کی جملہ اہلیت و صلاحیت ‘ دیانت و دور اندیشی پرگالم گلوچ کی عادت نے پردہ ڈال دیا اور آج تک انہیں ایک غصیلے ‘گلیمراور تلخ گو انسان و حکمران کے طور پر یاد کیا جاتا ہے‘ حالانکہ گورنر جنرل ‘ہائوس میں کئی برس تک خدمات انجام دینے والے نامور بیورو کریٹ ب م خالد کا دعویٰ ہے کہ غلام محمد عموماً سلیس اور شستہ و شائستہ اردو میں بات کرتے اور علی گڑھ کی تربیت کا عمدہ نمونہ نظر آتے تھے۔ پنجاب سے تعلق رکھنے والے سیاستدانوں میاں مشتاق گورمانی‘ میاں ممتاز احمد دولتانہ‘ نوابزادہ نصراللہ خان‘ محمد حنیف رامے‘ ملک معراج خالد‘ جسٹس رفیق تارڑ‘ میاں نواز شریف‘ چودھری شجاعت حسین میں سے کسی کی شہرت گالی بکنے والے شخص کی نہیں‘ نوابزادہ نصراللہ خان اور میاں ممتاز دولتانہ کی گفتگو میں تو ادنیٰ لفظ کی آمیزش تک نہ ہوتی گویا ع وہ کہیں اور سنا کرے کوئی ساجھے‘ ماجھے اور گامے البتہ ہر قوم‘ معاشرے‘ تہذیب و ثقافت میں ہوتے ہیں جن کی وجہ شہرت صرف گالی نہیں ہوتی اور بھی کئی ادنیٰ اور سفلی عادات و حرکات کا ایسے لوگ مرقع ہوتے اور اس پر فخر کرتے ہیں‘ الطاف حسین کا تعلق کبھی پنجاب سے نہیں رہا مگر انہوں نے پاکستان کے سب سے زیادہ مہذب شہر کراچی میں جو کلچر متعارف کرایا ‘اُسے مہاجروں یا اردو زبان بولنے والوں سے منسوب نہیں کیا جا سکتا‘ راوی اور چناب کے کنارے بسنے والے سادہ لوح جانگلی ہوں یا بھاٹی‘لوہاری اور موچی دروازے میں مقیم بے تکلف وبے ریا لاہورئیے ۔اپنی ترنگ میں زبان کو گالی سے آلودہ ضرور کرتے ہیں مگر یہ ان کا کلچر نہیں‘ پنجاب کا تو ہرگز نہیں‘ دور زوال کی نشانیوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ انسان اسفل خواہشات کا اسیر اوراوچھی حرکتوں ‘ اخلاقی سطح سے گری زبان کا عادی ہو جاتا ہے اس پر فخر مگر وہ نہیں کرتا‘ کرنا بھی نہیں چاہیے۔