دل تو چاہتا تھا کہ کراچی کی حالت زار پر کچھ لکھوں۔ اتنی بربادیوں کے باوجود روشنیوں کے اس شہر کی جو گت بنائی جا رہی ہے وہ اب ناقابل برداشت ہے۔ نام نہاد منصوبہ بندی کے باوجود بہتری کی کوئی امید اس لیے نظر نہیں آتی کہ سب کی نیتوں میں فتور ہے مگر پنجاب میں ایک نیا مسئلہ کھڑا ہو گیا ہے جو بات پاکپتن کے گردونواح سے شروع ہوئی تھی اور ایک ڈی پی او کے تبادلے پر منتج ہوئی تھی۔ وہ یہاں تک آ پہنچی ہے کہ اس نے پنجاب جیسے صوبے کے پانچ پولیس سربراہوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ یہ ایک غیر معمولی بات ہے۔ میں اس وقت نہ جانے والے آئی جی سے واقف ہوں نہ آنے والے سے۔ مجھے اندازہ نہیں جو اپنی لڑائی بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں میرا تعلق جنوبی پنجاب سے ہے‘ وہ چپکے سے اس بات کی تائید کر رہے ہیں کہ میں پنجاب کے وزیراعلیٰ کا گرائیں ہوں۔ جنوبی پنجاب سے ہونا کوئی منفی بات نہیں مگر بزدار پنجاب جس ذہنی کیفیت میں حکمرانی کر رہے ہیں اس میں یہ اہم بن جاتا ہے۔لگتا ہے کہ انہیں ایک خاص پس منظر میں بلایا گیا ہے۔ ان سے شاید کچھ کام لینا مقصود ہے۔ وہ اس بات کا اصرار کرتے ہیں کہ ان میں کم صلاحیتیں نہیں۔ ازراہ احترام وہ آئی جی کو اپنا کمانڈر بتاتے ہیں۔ مگر یہ بھی ظاہر کردیتے ہیں‘ میں اتنا جونیئر بھی نہیں۔ دو سال ہی کا فرق ہے اور یہ کہ ان کے خلاف جو رپورٹیں ہیں وہ بس ایسے ہی ہیں۔ ماضی میں تو ایسا کبھی نہیں ہوا۔ عمران کہتے تھے ہم پولیس کو خود مختار فورس بنائیں گے۔ یہاں سفارش چلے گی نہ دبائو۔ یہ بھی کہا کرتے تھے ہم نے خیبر پختونخوا میں ایسا کر دکھایا۔ سارے اختیارات آئی جی کو دے دیئے‘ تبادلے‘ ترقیاں سب سربراہ کی صوابدید تھی۔ پھر اسی آئی جی کو ریٹائرمنٹ کے بعد پنجاب میں اس کام کی نگرانی سونپ دی مگر یہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکی۔ ایک ہی ماہ میں ناصر درانی نے استعفیٰ دے کر اپنی عزت کمائی۔ اس کے بعد تو لائن لگ گئی۔ جب دیکھو آئی جی بدلا جارہا ہے۔ چار چیف سیکرٹری بدل ڈالے۔ کیا اس طرح نظم و نسق چل سکتا ہے۔ نچلے لیول پر تو کوئی شمار قطار ہی نہیں۔ ڈپٹی کمشنر‘ ایس پی‘ سیکرٹری جانے کتنے لوگ بدلے جاتے رہے۔ مجھے نہیں معلوم آئی جی صاحب نے چارج چھوڑا یا نہیں‘ نئے آئی جی نے البتہ بڑھکوں کے انداز میں کہنا شروع کردیا ہے کہ جس کسی نے میرے ساتھ کام نہیں کرنا وہ میری ٹیم کا حصہ نہیں۔ ایسا انہوں نے اس لیے کہا کہ ایڈیشنل آئی جی نے کہا تھا کہ میں اس نئے آئی جی کے ماتحت کام نہیں کروں گا کہ وہ مجھ سے جونیئر ہیں۔ فوج میں بھی ایسا ہوتا ہے‘ جب کوئی سپر سیڈ ہو جاتا ہے تو مستعفی ہو جاتا ہے۔ اسے وردی کی شان سمجھا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے‘ اس وقت پنجاب پولیس چار گروپوں میں بٹی ہوئی ہے۔ ایسے میں آپ کیا توقع کرسکتے ہیں کہ صوبے کا امن و امان باقی رہے گا۔ سول سروس گروپوں میں بٹی ہے یا نہیں۔ اس کی مجھے خبر نہیں‘ مگر اتنا جانتا ہوں ہماری افسر شاہی کوئی کام کرنے سے اس لیے کنی کتراتی ہے کہ جانے اس کا انجام کیا ہوگا۔ جب آپ ٹاپ لیول پر چار چار چھ چھ مہینے میں تبادلے کرتے جائیں گے تو کون سلیقے کا مشورہ دینے کا سوچے گا۔ آج کہا جارہا ہے پنجاب پولیس یا بیوروکریسی شریفوں کی پروردہ ہے جب یہ اقتدار میں آئے تھے تو کہا جاتا ہے یہ چودھریوں کے لوگ ہیں۔ شریف ان سے کیسے کام لیں گے۔ آپ کی نااہلی نہ سہی‘ بیوروکریسی کے عدم تعاون نے ملک کے سارے بندوبست کا انجر پنجر ڈھیلا کر کے رکھ دیا ہے۔ اس سے زیادہ کیا ہو سکتا ہے کہ آپ کے ان دعوئوں کے باوجود کہ ادارے آپ کے ساتھ ایک ہی پیج پر ہے‘ آپ کا کسی چیز پر کنٹرول نہیں‘ چینی پر ہاتھ ڈالا قیمت دگنی ہو گئی۔ گندم کی طرف رجوع کیا اناج ملک سے ناپید ہوگیا۔ پٹرولیم کی قیمتیں کم کیں‘ پٹرول پمپ خشک ہو گئے۔ گیس‘ بجلی بحران کی طرف بڑھ رہے ہیں کیونکہ آپ ایسے فیصلے کرتے ہیں جس کا کوئی مثبت اثر ظاہر نہیں ہوتا۔ جو بڑے بڑے منصوبے اعلان کئے جا رہے ہیں اگر وہ چل بھی گئے تو ان کے اثرات برسوں میں ظاہر ہوں گے اگرچہ عام آدمی یہ سمجھتا ہے کہ یہ منصوبے بھی بس خواب و خیال ہیں۔ گزشتہ ماہ اس گردان میں گزرا کہ ایکسپورٹ جولائی اور اگست میں بڑھ رہی ہیں۔ اس ماہ کیا کہا کہ ستمبر میں کم ہونی ہیں۔ وجہ یہ بتائی کہ بارشیں ہوئی ہیں۔ جون جولا ئی کا بھی بتا دیتے کہ قدرے اضافہ اس لیے ہوا ہے کہ کورونا کی وجہ سے سب کچھ رکا ہوا تھا جو اب کھلا ہے۔ یہی حال بینکوں کی وصولی کا ہے۔ بار بار کہتے ہیں کہ سب ادارے ایک پیج پر ہیں۔ اتنی بڑی طاقت کی پشت پناہی کے باوجود کچھ نہیں ہو پارہا تو خدا کے لیے کچھ سوچئے۔ آپ نے نیب میں ایک آرڈیننس کے ذریعے تبدیلی کی کہ کسی بزنس مین اور بیوروکریٹ پر ہاتھ نہیں ڈالا جائے گا۔ کیا کہیں اس شق کا کسی کو آپ پر اعتبار نہیں ہے۔ کرا چی پیکیج کا اعلان کیا مگر سب یک زبان ہو کر کہہ رہے ہیں کہ پیسے کہاں سے آئیں گے اور یہ کام کیسے ہوں گے۔ صوبوں اور وفاق کی چپقلش نے یہ بھی واضح کر دیا کہ سب زبانی کلامی ہے۔ بجٹ میں کوئی گنجائش نہیں اور عالمی امداد پر لڑائی یہ ہے کہ یہ صوبہ لارہا ہے یا وفاق۔ پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کا قصہ بھی واضح نہیں ہے۔ ایسے میں اب پنجاب میں جو سول سرول اور پولیس کے خلاف طبل جنگ بجایا گیا ہے اس کے نتائج نہایت خوفناک ہوں گے۔ لاہور کے نئے سی سی پی او کہتے ہیں تین ماہ کے اندر تبدیلی دکھائی دے گی۔ لیجئے یہ بھی تبدیلی کا نعرہ بیچنے آ گئے ہیں۔ سیاست کی زبان بول رہے ہیں۔ خدا ہی جانے کون سی بات درست ہے لیکن یہ سچ ہے کہ سب کچھ آپ کے ہاتھ سے نکلا جارہا ہے اور ہاں ایک بات چپکے سے عرض کردوں کہ تاریخ بتاتی ہے کہ عوام لمبا عرصہ چپ نہیں رہا کرتے۔