برصغیر کی مسلم آبادی میں سے نوے فیصد حنفی المسلک اورصوفی المشرب ہیں، ممکن ہے کہ کسی خاندان کا تعلیمی ادارے یا علمی روایت سے تعلق نہ ہو ، مگر ایسا بہت کم دیکھنے میں آیا کہ کوئی خوش عقیدہ خاندان کِسی صوفی ، سلسلہ طریقت یا کسی خانقاہ سے وابستگی سے محروم ہو۔ صوفیأ اور بالخصوص ان کی خانقاہیں۔۔۔ہماری اس خطّے کی مسلم سوسائٹی کا نیو کلس/مدار تھی،اور اب بھی ہیں، صوفیأ کے کردارو عمل اور خانقاہوں کے موثر نظام نے ہی اس سوسائٹی میں وہ عظیم سماجی انقلاب بر پا کیا، جس سے یہ قریہ اسلام کے نور سے منور ہوا۔ میری زندگی کا معتدبہ حصہ صوفیأ کی مجالس اور خانقاہوں سے اکتسابِ فیض میں گزرا۔ انتظامی طور پر مجھے ان مزارات پر خدمت کی سعادت بھی میسر رہی ، لیکن براہ ِراست مجھ پر کبھی ایسی کوئی ’’روحانی واردات‘‘ کا ظہور نہیں ہوا، جس کے سبب میں باطنی دنیا کے اسرار و رموز سے آگاہی کا دعوٰی کرسکوں، نہ ہی مجھ میں کوئی ایسی طلب اور جستجو پیدا ہوسکی ، جس کے لیے وظائف ،عملیات، چِلّہ کشی اور’’اولیائے مستورین‘‘ سے بالمشافہ ملاقات کا سودا، دماغ میں سماسکے ، البتہ میر احلقہ، دائرہ اور"Aura" ایسا ہے، جہاں کی نشست و بر خاست میں ایسی ماورائی باتیں سنتا ہوں، جس کا سادہ سا مطلب اور مفہوم یہی ہے کہ اس خطّہ کا رائج الوقت ظاہری نظم و نسق۔۔۔ درونِ پردہ اس باطنی نظام کے رہینِ منّت ہے ، جس کی کارکشائی اور کارسازی میں حضرت داتا صاحبؒ اور حضرت بابا صاحبؒ(پاکپتن شریف) کلیدی حیثیت اور اہمیت کے حامل ہیں۔ بلا شبہ تصّوف و طریقت، دینِ اسلام کا باطنی پِہلو ہے، جس کو حدیثِ جبرئیل میں’’احسان‘‘سے تعبیر کرتے ہوئے فرمایا گیا :’’تم خدا کی اس طرح عبادت کرو، جیسے تم اس کو دیکھ رہے ہو، اگر یہ مقام نہ پاسکو، تو پھر یہ خیال کرو کہ وہ تمہیں دیکھ رہا ہے’’یعنی ‘‘حالتِ مشاہدہ یا حالتِ مراقبہ‘‘۔علوم شریعت کے دو شعبے ہیں، ایک ’’علم الا حکام‘‘ ہے ، اور ایک ’’علم ا لا سرار‘‘۔ علم ا لا حکام میں مسائل شریعت ۔۔۔ جس کے تحت عالم ، محدّ ث، فقیہہ ، اور’’علم ا لا سرار‘‘ کے ماہردرویش، صوفی ، ابدال اوراقطا ب کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ تاہم بعض صاحبِ کمال ہستیاں ان دونوں شعبوں میں دسترس اور عروج کی حامل اور بیک وقت شریعت و طریقت کے امام اور سرخیل ہوتے ہیں۔ اہل طریقت و معرفت کو مزید دو شعبوں میں تقسیم کیا جاتا ہے ۔ ایک تشریعی یعنی دعوت و ارشاد کے حامل اور ایک ’’تکوینی‘‘یعنی صاحبانِ طریقت و اختیار ۔پہلا قطبِ ارشاد کے جبکہ دوسرا ’’قطبِ مدار‘‘ کے زیر نگین ہوتا ہے۔اوتاد، ابدال، نقبأ، نجبأ اور رجال الغیب وغیرہ ’’قطب مدار‘‘ کے زیر اثر حکومت و سلطنت، اختیار و اقتدار، فتح و شکست اور جنگ وامن بشمول حیات و سماج سمیت دیگرامور۔۔۔ ایسے ہی اہلِ باطن کے روحانی تصّرفات سے متعلق ہوتے ہیں ۔ میاں عبدالرشید ، جو ایک معاصر قومی اخبار میں "نورِ بصیرت "کے عنوان سے شذرہ تحریر فرماتے اور خوب فرماتے، اختصار، جامعیت اور سادگی کے ساتھ، قرآن و سنت کی ترسیخ ، محبتِ رسول ﷺ، عقائد کی صیانت ، اسلام اور پاکستانیت ان کی تحریروں کا خاصہ تھا، میاں صاحب ایک دیندار گھرانے سے تعلق رکھتے اور ان کے والد سکول ٹیچر، اور ریٹائرڈ ہیڈماسٹر اور از خود میاں صاحب 1937ء میں ایم اے ریاضی کے طالب علم تھے، اور ریاضی طالب علم تو محض دو اور دو چار کا ہی قائل ہوتا ہے، لامحالہ ایسا آدمی’’تقلیدِ محض‘‘کی بجائے عقل، فکر ، تدبر، تفکر، Logic اور منطق کو ترجیح دیتا اور پھر ایک قاعدے،ضابطے اور اصول و عقیدے کو اسی زینے اور کسوٹی پر ماپتا ہے۔ میاں صاحب کہتے ہیں کہ میں نے 1937میں فیصلہ کیا کہ اب ذہن سے پرانے سارے نقوش مٹا کر ، سُنی سنائی باتیں ختم کر کے،آئندہ صرف وہی بات مانوں گا جس کی سمجھ آے گی۔ ظاہر ہے یہ ایک مشکل بلکہ کٹھن سفر تھا، جس کے بارے میں میاں صاحب کہتے ہیں کہ : یہ تجربہ اعصاب شکن تھا ، اور اللہ تعالی کے بغیر زندگی گزارنا اور اس کے جھمیلوں کا بوجھ اُٹھانا کس قدر مشکل تھا۔۔۔ اس کا اندازہ مجھے اسی مرحلے پر ہوا ۔ وہ کہتے ہیں کہ انہی دنوں میں مہاتما بدھ کے فلسفے کی طرف مائل ہوا، اور مجھے بھی ابتدائی سطح پر اسی طرح گیان ہوا، جیسے بدھ کو ہوا تھا، میں نے زندگی کے کچھ اصول وضع کر لیے، جیسے ہمیشہ سچ بولا جائے، وعدہ پورا کیا جائے، ہر چیز کی پوری قیمت ادا کی جائے، احسان فراموشی سے بچا جائے، انسانیت کا احترام اور اس کی خدمت کی جائے ، جیسے بدھ کے فلسفہ میں اللہ تعالیٰ کا کہیں ذکر نہیں ، اسی طرح ان اصولوں کی پیروی میں بھی اللہ اور اس کے دین و شریعت سے میرا کوئی واسطہ نہ تھا۔ میں صبح اُٹھ کر ان اصولوں کو تازہ کرتا اور پھر رات کو اپنی کارگزاری کا جائزہ لیتا کہ کہاں کوتاہی ہوئی ہے اور کہاں سرخروئی۔۔۔ بہرحال اس سارے مرحلے میں اعصاب تنے رہتے اور روح کو شادابی اور سکون میسر نہ آتا۔ وہ کہتے ہیں کئی برس ایسے ہی گزر گئے ، پاکستان بننے سے دو سال قبل ، یعنی 1945ء میں ، ایک صاحب ملے ، جو یہ کہتے تھے کہ داتا صاحب ’’پنجاب کے روحانی گورنر‘‘ہیں، اگر کسی شخص نے ، جناب رسول اکرمﷺ کی خدمت میں کوئی درخواست گذارنی ہو ، تو وہ پنجاب کے روحانی گورنر کی وساطت سے (Through proper channal)پیش کر سکتا ہے، میاں عبدالرشید کہتے ہیں، مجھے یہ بات کچھ عجیب سی محسوس ہوئی، بالخصوص اس لیے بھی کہ میرا بچپن ذرا اہل حدیثوں میں گزرا تھا، اس لیے میں ان چیزوں کے حوالے سے زیادہ خوش عقیدہ نہ تھا، بہرحال ایک روز میں ، ان صاحب کے پاس چلا گیا، وہاں بہت سے سائل جمع تھے، اور اپنی درخواستیں لکھوا رہے تھے، ہر ایک کی اپنی غرض، اپنی ضرورت، کوئی مال ، کوئی مکان، کوئی روپیہ کوئی پیسہ ۔۔۔۔ مجھے کچھ تعجب بھی ہوا کہ اتنی بڑی سرکار سے، یہ لوگ کیا مانگ رہے ہیں، بہرحال۔۔۔ میاں صاحب کہتے ہیں ، میں نے کاغذ لیا اور درخواست لکھ کر ایک طرف رکھ دی، وہ صاحب ذرا فارغ ہوئے تو انہیں درخواست پیش کر دی، درخواست کے مندرجات کیا تھے ، یہ تو صیغہ راز میں ہے، لیکن میاں صاحب کے مطابق میری درخواست دیکھ کر وہ صاحب اُچھل پڑے اور بولے:میاں! سوچ لیا: میں نے عرض کیا: خوب سوچ کر درخواست لکھی ہے۔ میں نے پوچھا یہ منظور ہو جائے گی، بولے،بھلا ایسی درخواستیں بھی منظور نہیں ہوتیں، اور پھر یہ شعر پڑھا: لیے پھرتی ہے بلبل چونچ میں گُل شہید ناز کی تربت کہاں ہے اتفاق سے ان دنوں داتا صاحب کا عرس تھا۔ شام ہونے کو تھی ، وہ صاحب کہنے لگے چلو!داتا صاحب چلتے ہیں، میں نے کہا: میں وہاں نہیں جاؤں گا ، وہاں لوگ شرک کرتے ہیں ،جس سے میری طبیعت متعفن ہوتی ہے۔ انہوں نے اصرار کیا، میں نے انکار کیا ۔ آخر اس بات پر فیصلہ ہوا کہ حضرتؒ کے دربار کے سامنے جو چھوٹی سڑک گزرتی ہے وہیں کھڑے ہو کر دُعا اور فاتحہ پڑھ لیں گے ۔ تم بے شک اندر نہ جانا۔ بہرحال۔۔۔ اس واقعہ کو چند دن گزر گئے، ان سے ملاقات ہوئی تو فرمایا ۔ میاں ! تمہاری درخواست منظور ہو گئی ہے۔ اس کے بعد سب سے پہلے پیرانِ پیر حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ کی کتاب’’فتح الربانی‘‘دستیاب ہوئی اور اس سے فیض یاب ہوا۔پھر حضرت میاں صاحب شرقپوری ؒکے متوسلین سے روشنی اور راہنمائی کا سلسلہ جاری رہا۔ پھر مسلسل دو سال تک ہر اتوار کو حضرت میاں میر صاحب کی حاضری نصیب ہوتی رہی ۔ وہاں سے طبیعت خود بخود حضرت داتا صاحب کی طرف ایسی مائل ہوگئی کہ پندر برس تک ہر جمعرات یہاں حاضری دیتا ، اور آپ کی خصوصی توجہ سے ایسے روحانی مشاہدات نصیب ہوئے جن کے بارے میں صرف کتابوں میں پڑھا تھا، میاں صاحب پر حضرت داتا صاحب کا خصوصی کرم ہوا کہ پھر انہوں نے قوم اور بالخصوص نسلِ نو کو روشن مستقبل کی نوید دی اور ہمیشہ لکھا کہ :’’پاکستان ہمیشہ قائم و دائم رہنے کے لیے بنا ہے ۔ ‘‘