پنجاب کا کلچر ان دنوں کچھ جاہل ‘غیر مہذب اور نا معلوم افراد کے حملے کی زد میں ہے۔کلچر لباس‘خوراک‘ عقیدے‘ روزگار‘ تخلیقی وتفریحی نفسیات اور ادب سے تشکیل پاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ پنجابی آریائوں کی آمد سے پہلے کی زبان ہے۔ اسی زبان کو مختلف تاریخی ادوار میں سنسکرت کہا جاتا تھا‘ اشوک کے عہد میں اسے پالی کا نام دیا گیا‘ کہیں پراکرت اور کہیں اپ بھرنش(برج بھاشا) کہا گیا۔ پنجابی زبان اور نسل پر تحقیق کرنے والے محققین بتاتے ہیں کہ سب سے پہلے پنجاب میں میں نیگرائیڈ آئے۔ یہ ایک افریقی قبیلہ تھا۔ غاروں میں رہتے اور کچا گوشت کھاتے ،ان کے بعد آسٹرک آئے۔ یہ بحرالکاہل سے پہنچے۔ پہلے سندھ آئے اور پھر پنجاب۔ انہیں نیگرائیڈ کی ترقی یافتہ شکل کہا جاتا۔ پھر دراوڑ آئے‘ یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ دراوڑ کہاں سے آئے لیکن جب یہ پنجاب آئے تو انہوں نے آسٹرک کے ساتھ جنگ کی۔ ان کی زبان منڈاری کہلاتی ہے۔ منڈاری اور پنجابی کے کئی الفاظ ہم آواز اور ہم معنی ہیں۔ مثلاً منڈی‘ جسے اردو میں سر کہتے ہیں‘ اسی طرح منڈاری اور موجودہ پنجابی میں پشت کو کنڈ کہتے ہیں۔ سر کے بالوں کی مانگ کو دونوں زبانوں میں چیرا کہا جاتا ہے۔ دراوڑ کھیتی باڑی کرتے‘ گوشت کو بھون کر کھاتے‘ گائے اور بھینس کا دودھ استعمال کرتے‘ دراوڑں نے منڈا قبائل کے ساتھ لین دین بڑھایا۔ دونوں اقوام نے ایک دوسرے کو لسانی اور سماجی طور پر متاثر کیا‘ ان رابطوں سے ایک نئی زبان دراوڑی وجود میں آئی۔ دراوڑی میں ماں کو اماں کہتے ہیں‘ ابا کو اپا‘ ماما کو مامن اور پگ کو پکا، یہ الفاظ آج بھی پنجابی میں موجود ہیں۔ دراوڑوں سے تین ساڑھے تین ہزار سال بعد وسط ایشیا سے آریا سندھ کے راستے پنجاب آئے۔ انہیں ہریالی اور چراگاہوں کی تلاش تھی۔ پنجاب کے سیراب اور ہرے علاقے ان کی توجہ کا مرکز بنے۔ انہوں نے دراوڑوں کے علاقوں پر قبضہ کر لیا۔ دراوڑ جنوبی ہندوستان کی طرف ہجرت کر گئے‘ یا پھر اپنے ہی علاقوں میں معمولی اور حقیر سمجھے جانے والے پیشوں سے منسلک ہو گئے۔ آریائوں نے پنجاب میں آباد ہو کر یہاں اپنی مقدس کتاب رگ وید لکھی ۔کہا جاتا ہے رگ وید راوی کے کنارے لکھی گئی۔ رگ وید میں پنجاب کا نام سپت سندھو ہے۔ رگ وید جن لوگوں نے پڑھی ہے ان کا کہنا ہے کہ موجودہ پاکستان کے کچھ علاقوں میں آریائوں کی آمد سے پہلے مختلف اقوام کا عروج رہا ہے۔ ہڑپہ‘ موہنجوداڑو‘ کوٹ ڈیجی کے آثار بتاتے ہیں کہ ان علاقوں میں پوری تہذیب کی نمائندگی موجود تھی‘ ان علاقوں کے باشندے تاریخ کے مختلف ادوار میں منڈاری‘ دراوڑی‘ سنسکرت‘ یونانی ‘ عربی‘ فارسی اور انگریزی زبانوں سے متاثر رہے ہیں۔ ان تمام زبانوں نے پنجابی کے لسانیاتی ذخیرے کو وسیع کیا۔ اب آتے ہیں بابا فرید کی پنجابی شاعری کی طرف جو لگ بھگ ایک ہزار سال پہلے سامنے آئی۔ فریدا،، جن لوئن جگ موہیا سے لوئن میں ڈٹھ کجل ریکھ نہ سیندھیاں سے پنکھی سوئے بٹھ فرید ،جن آنکھوں نے دنیا کو موہ لیا ،جو اس قدر نازک تھیں کہ کاجل کی رڑک برداشت نہ کرتیں،آج قبروں میں پڑی ہیں۔ شاہ حسین نے ساڑھے پانچ سو سال پہلے جو زبان استعمال کی وہ آج کی بول چال والی زبان ہے۔ بابا بلھے شاہ اور وارث شاہ نے دو سو سال پہلے جو لکھا اس سے پنجابی زبان کی علمی روایت آگے بڑھتی نظر آتی ہے۔پھر ہاشم شاہ، میاں محمد بخش اور خواجہ غلام فرید ہیں۔ میں نے لگ بھگ ان تمام بزرگوں کا کلام پڑھا اور کسی حد تک سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ اگر کوئی پنجابی زبان اور کلچر کی انتہائی قدیم تاریخ کو کمزور یاکم شواہدہونے کی بنا پر تسلیم نہ کرے تو کم از کم ایک ہزار سال کی تحریری تاریخ تو بتاتی ہے کہ قصہ پورن بھگت‘ دلے دی وار‘ مرزا صاحباں‘ سوہنی مہینوال‘ ہیر وارث شاہ میں کوئی گالی نہیں‘ ریگ وید پانچ ہزار سال پرانا تحریری ریکارڈ ہے،پنجابی اتنی مقدس زبان ہے کہ گروگرنتھ صاحب اسی میں ترتیب پائی۔ اس میں تو کوئی ایسا لفظ نہیں جسے گالی کہا جائے اور پھر اسے پنجاب کے کلچر کا حصہ بتایا جائے۔ لاہور میں شاہدرہ کے پاس ایک علاقہ ہے‘ سنا ہے وہاں کی عورتیں جب لڑتی ہیں تو ان کی گالیوں سے راہگیر مردوں کے کانوں میں سے دھواں نکلتا ہے‘ یہ گالیاں یہاں بسے چند مخصوص خاندانوں تک محدود ہیں۔ ہریانوی میں بھی بھاری بھرکم گالیاں ہیں‘ کسی اردو بولنے والے سے بھی لکھنوی اور دہلوی گالیاں سننے کا امکان موجود ہے۔ مغربی معاشرے میں ہر نوع کی گالیاں موجود ہیں۔ گالیاں لغو اور بدتہذیب افراد کی زبان درازی ہے۔ گالیاں جانے کب سے موجود ہیں لیکن کسی قوم نے کبھی یہ دعویٰ نہیں کیا کہ گالیاں ان کا کلچر ہیں۔ گالیاں دینے والے افراد کا ہنر ہمیشہ کلچر کی شفاف حدود سے باہر رہا۔ اسے کسی دور میں اجازت نہیں ملی کہ وہ سماج کی اجتماعی نفسیات کا حصہ بن بیٹھے۔ یہی وجہ ہے کہ استاد امام دین جیسے قادر الکلام اور بے مثال شاعر نے جب لغو گوئی اختیار کی تو انہیں مسترد کر دیا گیا۔ مجھے نہیں معلوم روحیل اصغر نے کن اساتذہ سے تعلیم حاصل کی‘ وہ پنجابی کو باعث فخر کہتے ہیں لیکن معلوم نہیں اچکزئی جب مینار پاکستان پر کھڑے ہو کر پنجابیوں پر غیر واجب الزام لگا رہے تھے اس وقت روحیل اصغر کہاں تھے‘ میں یہ بھی نہیں جانتا کہ روحیل اصغر نے اپنی تیس چالیس سالہ سیاسی زندگی میں کبھی کوئی علمی یا ثقافتی خدمات انجام دی ہوں۔ کسی شخص کی زبان اس کے ماحول اور خاندان کا تعارف ہوتا ہے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا فرمان ہے کہ اے شخص بول کہ تو پہچانا جائے۔ جو لوگ ہمارے نمائندے ہیں‘ ہمارے حکمران ہیں‘ ہمارے لیے پالیسیاں بناتے ہیں ان کی چپ پر پابندی ہونی چاہیے۔ تاکہ معلوم ہو کہ وہ کیا سوچتے اور کیا بول سکتے ہیں۔ شاہدرہ کی بدنام گلیوں والے ممکن ہے پنجابی کو گالیوں کی زبان ہی سمجھتے ہوں‘ انہوں نے پنجابی کا ابلاغ اسی پہلو سے دیکھا ہے۔