فرق شاہی و بندگی برخاست چوں قضائے نوشتہ آید پیش گر کسے خاک مردہ باز کند نہ شناسد تونگر از درویش پنجاب کی آخری شہزادی‘ شہزادی بمباں سدر لینڈ۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ کی پڑپوتی۔ مہاراجہ دلیپ سنگھ کی پوتی کی قبر پر اس روز بھی کوئی پھول کوئی گلدستہ نہ تھا جس روز پورے قبرستان میں غریب ترین اور گمنام ترین شخص کی قبر پر پھول بکھرے ہوئے تھے۔ مندرجہ بالا رباعی گویا شہزادی کی اس حالت زار کی گواہی دیتی تھی کہ ہاں آج تو بادشاہ اور درویش میں کچھ فرق باقی نہیں رہا۔ موت نے شاہی و بندگی کے فرق مٹا دئیے…’’نے چراغِ نے گلے… کی کیفیت نورجہاں کے مقبرے کی زبوں حالی ہی نہیں بیان کر رہا بلکہ شہزادی بمباں سدر لینڈ کی قبر کی ویرانی کا نقشہ بھی کھینچ رہا ہے… آج سے تقریباً پچاس برس پیشتر جب میری شادی ہوئی اور بارات ماڈل ٹائون گئی تو زاں بعد جب کبھی میں اپنی بیگم میمونہ کو سکوٹر پر بٹھا کر اس کے ماں باپ کے گھر چھوڑنے جاتا تو وہ ایک اجاڑ اور ویران کوٹھی کی جانب اشارہ کر کے کہتی یہ رانی کی کوٹھی ہے۔ کون سی رانی؟ کیا وہ اس کوٹھی کے اندر موجود ہے تو وہ کہتی۔ نہیں وہ مر چکی ہے۔ اب اس پر اس کے منشی کا قبضہ ہے لیکن اسے بھی کسی نے نہیں دیکھا۔ وسیع کوٹھی کے گرد کھٹی کی ایک بے ترتیب اور الجھی ہوئی باڑ تھی۔باڑ میں کبھی کبھی سفید پھول بھی کھلتے تھے۔ ویسے مشہور تھا کہ اس باڑ میں بے شمار سانپوں کا بسیرا ہے جو لوگوں کو اس ویران گھر کے قریب نہیں آنے دیتے۔ طرح طرح کی افواہیں مشہور تھیں۔ مجھ میں تجسس کے جو جرثومے پیدائشی طور پر رہائش پذیر ہیں انہوں نے سنپولیوں کی مانند سر اٹھا کر سرسرانا شروع کر دیا۔ کلبلانے لگے کہ پتہ کرو۔ کھوج لگائو کہ اگر واقعی کوئی شہزادی ماڈل ٹائون کی اس وسیع اور ویران کوٹھی میں رہتی تھی تو وہ کون تھی۔ کسی ریاست کی شہزادی تھی یا عین ممکن ہے کوئی مغل شہزادی ہو۔ ماڈل ٹائون کے پرانے باسیوں سے استفسار کیا۔ تحقیق کی کتابوں کی ورق گردانی کی اور بہت جستجو کے بعد یکدم یہ بھید کھلا کہ وہ تو پنجاب کے آخری مہاراجہ رنجیت سنگھ کی پوتی تھی۔ ایک شب یار خوش آثار اور خوشگوار اشفاق نقوی سے تذکرہ کیا تو اس نے ایک قصہ سنایا۔ اشفاق نقوی اور ان کا خاندان ماڈل ٹائون میں رہائش پذیر قدیم ترین لوگوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ ان کی کولونیل طرز کی دل کش کوٹھی کے پورچ میں ایک بھس بھرا ریچھ دونوں ٹانگوں پر کھڑا نظر آتا تھا جو غالباً اشفاق صاحب کے والد نے شکار کیا تھا اور اسی لئے اسے ’’ریچھ والی کوٹھی‘‘ بھی کہا جاتا تھا۔ اشفاق نے بتایا کہ یہ شائد 1938ء کے لگ بھگ کا قصہ ہے۔ سکول کے زمانے تھے وہ اور ان کا ایک دوست چھٹی کے روز بے آباد سڑکوں پر سائیکل چلا رہے تھے کہ انہیں چوک کے قریب کسی نوجوان اور چھریری لڑکی کی پشت نظر آئی۔ اس نے شائد سرخ ساٹن کی قمیص اور چست پاجامہ پہن رکھا تھا۔ انہوں نے نیم جوانی کے جوش میں لڑکی کو دیکھنے کے چائو میں سائیکلوں کے پیڈل خوب چلائے اور قریب جا پہنچے۔ لڑکی کے سامنے آئے تو ان کی چیخیں نکل گئیں کہ وہ ایک بوڑھی عورت تھی جس کا چہرہ جھریوں سے بھرا ہوا تھا۔ یہ شہزادی بمباں سدر لینڈ تھی جو ابھی کچھ عرصہ قبل سکاٹ لینڈ سے لاہور منتقل ہوئی تھی۔ وہ تقریباً گوری تھی کہ اس کی ماں بھی برطانوی تھی لیکن اس کا باپ مہاراجہ دلیپ سنگھ تھا۔ دلیپ سنگھ اپنے باپ مہاراجہ رنجیت سنگھ سے بھی زیادہ ایک دلچسپ اور لاابالی کردار تھا۔ لاہور دربار کے خاتمے پر انگریز اسے انگلستان لے گئے اور تب وہ شائد سات آٹھ برس کا تھا۔ ملکہ وکٹوریہ کو وہ بیٹوں کی مانند عزیز تھا اور ملکہ نے اسے اوائل میں اپنے ساتھ شاہی محل میں رکھا۔ چھوٹے دلیپ سنگھ کے پاس اس کے باپ کی وراثت کا سب سے بڑا اور مشہور عالم خزانہ یعنی کوہ نور ہیرا تھا اور ملکہ وکٹوریہ نے نہائت’’قانونی‘‘ طریقے سے یہ ہیرا دلیپ سنگھ سے حاصل کر لیا۔ یعنی بچے دلیپ سنگھ کو اس کی انگریز گورنس نے بہلایا پھسلایا کہ دیکھو ملکہ تم سے کتنا پیار کرتی ہیں۔ تمہیں شاہی مرتبہ عطا کیا ہے۔ ایک وسیع جاگیر تمہارے نام کر دی ہے تو تم یونہی یہ حقیر سا تحفہ اس کی مہربانیوں کے عوض اسے پیش کر دو چنانچہ باقاعدہ قانونی کاغذات میں تحفہ درج کر کے ایک شاندار تقریب کے دوران ننھے دلیپ سنگھ نے اپنی ’’مرضی‘‘ سے کوہ نور ملکہ وکٹوریہ کی خدمت میں پیش کر دیا۔ اس کی پرورش عیسائی ماحول میں ہوئی اور شاید اپنی مرضی سے یا وکٹوریہ کو خوش کرنے کی خاطر خود بھی عیسائی ہو گیا۔ اس کی تفصیل چند برس پیشتر شائع ہونے والی کتاب’’مہاراجہ کا صندوق‘‘ میں دیکھی جا سکتی ہے۔ تقریباً ایک انگریز ہو جانے کے باوجود‘ عیسائی ہو جانے کے باوجود دلیپ سنگھ کے اندر اپنے باپ کی سلطنت کھو دینے کا شدید احساس تھا۔ اسے اپنے سکھ ماضی پر بے حد فخر تھا۔ اس دوران کچھ سکھ انقلابیوں نے دلیپ سنگھ سے رابطہ کیا کہ اگر وہ ان کی تحریک کی سربراہی قبول کر لے تو وہ پنجاب کی سلطنت کی آزادی اور سکھ بادشاہی کی واپسی کے لئے مسلح جدوجہد شروع کر دیں گے اسی زمانے میں کہا جاتا ہے کہ پیرس میں دلیپ سنگھ کی ملاقات مولانا عبید اللہ سندھی سے بھی ہوئی تھی۔ انگریزوں کو خبر ہوئی تو انہوں نے دلیپ سنگھ کو پابند کر دیا۔ بالآخروہ تائب ہوا اور اس نے ملکہ کی خدمت میں حاضر ہو کر معافی کی درخواست کر کے اپنی جان چھڑائی۔ دلیپ سنگھ کی ماں رانی جنداں ایک نہائت باحوصلہ اور جرّی خاتون تھی۔ اس نے تخت لاہور کی شکست کو کبھی تسلیم نہ کیا بلکہ تلوار سونت کر انگریزوں کے خلاف جنگ کا آغاز کر دیا۔ جنداں نے دو معرکوں میں سکھ افواج کی کمان کی۔ نہائت بے جگری سے لڑی لیکن انگریز کی قوت کے سامنے کچھ پیش نہ گئی۔ انگریزوں نے اسے گرفتار کر کے کال کوٹھڑی میں ڈال دیا جہاں وہ بوڑھی ہو گئی اور بالآخر اندھی ہو گئی۔ جب وہ قریب المرگ تھی تو اس سے پوچھا گیا کہ تمہاری آخری خواہش کیا ہے تو اس نے کہا ’’مجھے میرے بیٹے دلیپ سنگھ سے ملا دو‘‘ انگریز اسے بیڑیوں میں جکڑ کر یورپ کے کسی ملک لے گئے اور دلیپ سنگھ کو لندن سے لایا گیا اور اب وہ ایک بچہ نہ تھا ایک دراز قامت مرد تھا۔ جنداں نے اسے گلے لگا لیا۔ وہ اسے دیکھ نہ سکتی تھی کہ اندھی تھی۔ اس کے بدن پر ہاتھ پھیرتی روتی رہی اور جب اس نے دلیپ سنگھ کے سر پر پیار دیا تو اسے جھٹکا سا لگا۔ دلیپ تمہارے بال کہاں ہیں کیا تم نے اپنے کیس کٹوا دئیے ہیں؟ تم کیسے سکھ ہو۔ وہ اس سے الگ ہو گئی کہ تم میرے بیٹے نہیں ہو سکتے کہ اس زمانے کے سکھوں کے لئے کیس اور پگڑی اس کے مذہب کی مقدس ترین علامت تھی۔ اگر دلیپ سنگھ اپنی ماں جنداں کو بتا دیتا کہ میں تو عیسائی ہو چکا ہوں تو اس پر کیا گزرتی! چند روز بعد وہ کلکتہ میں مر گئی۔ جنداں برصغیر کی تاریخ میں رضیہ سلطانہ اور جھانسی کی رانی سے کم نہ تھی لیکن پنجاب کی اس رانی کی شجاعت کو فراموش کر دیا گیا۔ قصہ مختصر دلیپ سنگھ کے ہاں دو بیٹیاں پیدا ہوئیں اور ان میں سے ایک بمباں تھی جو سدر لینڈ سے بیاہی گئی۔دونوں بے اولاد رہیں۔ عمر کے آخری حصے میں بمباں نے لاہور منتقل ہونے کا فیصلہ کیا کہ وہ اپنے آپ کو مہاراجہ رنجیت سنگھ کی اکلوتی وارث سمجھتی تھی اور ان کا سب سے بڑا ثبوت یہ تھا کہ ورثے میں اسے رنجیت سنگھ کی بھس بھری گھوڑی’’اسپ لیلیٰ‘‘ اور اس کا ہیروں سے مزین ساز ملا تھا۔ علاوہ ازیں چند نایاب پینٹنگز لاہور دربار کی بھی اس کی ملکیت میں تھیں۔ اس نے ماڈل ٹائون میں ایک کوٹھی خریدی اور پیر بخش نام کے ایک شخص کو اپنا نائب مقرر کیا۔ کہا جاتا ہے کہ کئی بار ماڈل ٹائون بس سروس پر سوار وہ لاہور شہر کی جانب سفر کرتی اور اگر نشست نہ ملتی تو بلند آواز سے مسافروں کو مخاطب کر کے کہتی’’میں لاہور دربار کی آخری شہزادی ہوں‘ میرے احترام میں ایک نشست خالی کرو‘‘ بمباں نے موت سے پیشتر اپنا بیشتر ورثہ پاکستانی حکومت کے سپرد کر دیا تاکہ اس کی دیکھ بھال کی جا سکے۔ وہاں پراسرار طور پر ’’اسپ لیلیٰ‘‘ کا ہیروں سے مزین سازو سامان چوری ہو گیا۔ کچھ اشیا اس نے وفادار پیر بخش کو تحفے کے طور پر عطا کر دیں۔ ناول’’راکھ‘‘ میں بمباں سدر لینڈ کا تفصیلی تذکرہ درج ہے۔ میں نے اندازہ لگایا کہ چونکہ وہ عیسائی تھی اس لئے اس کی قبر یہیں کہیں کسی عیسائی قبرستان میں ہو گی۔ بالآخر میں اپنی تلاش میں کامیاب ہو گیا۔ وہ جیل روڈ پرواقع گورا قبرستان میں دفن ہوئی اور اس کی قبر’’رانی کی قبر‘‘ کہلائی۔ میں نے پنجاب کی آخری شہزادی کا مدفن دریافت کر لیا… چنانچہ کبھی کبھار میں وہاں چلا جاتا۔ اس بار کرسمس کے موقع پر بھی اس کی قبر پر کوئی ایک پھول بھی نہ تھا۔ داتا صاحب کے مزار پر گیندے کے پھولوں کے جو ہار میرے گلے میں ڈالے گئے تھے میں نے انہیں اتار کر شہزادی بمباں کی قبر پر چڑھا دیے تاکہ اس کی ویرانی میں کچھ تو کمی ہو۔ کہ وہ بہر طور پنجاب کی آخری شہزادی تھی۔ پیر کریم بخش سپرا نے تدفین کا انتظام کیا’’پرنسس بمباں سدر لینڈ دختر کلاں مہاراجہ دلیپ سنگھ اور پوتی مہاراجہ رنجیت سنگھ آف لاہور۔ پیدائش 29ستمبر 1869ء لندن۔ وفات 10مارچ 1957ء لاہور: فرق شاہی و بندگی برخواست چوں قضائے نوشتہ آید پیش اے واقفِ اسرار ضمیر ہر کس در حالت عجز دستگیر ہمہ کس یار رب تو مرا توبہ دہ و عذر پذیر اے توبہ دہ و عذر پذیر ہمہ کس