جنوں کی تیز بارش میں تجھے پانے کی خواہش میں میں دل کی سطح پر اکثر کھلی آنکھوں کو رکھتا تھا بڑھا دیتی ہیں عمروں کو نہ جانے یہ کتابیں کیوں میں چھوٹا تھا مگر سر پر کئی صدیوں کا سایہ تھا جب میں پنجاب یونیورسٹی نیو کیمپس کے فیصل ایڈیٹوریم میں مشاعرہ پڑھنے کے لئے اس کے رہائشی علاقے کی طرف سے داخل ہوا تو بارش ہو رہی تھی۔ دسمبر کی اس بارش نے مجھے کیا کچھ یاد دلا دیا کہ جب میں انہی سڑکوں پر موسم اور وقت سے بے نیاز شاموں کو گھوما کرتا تھا اور مشق سخن جاری رہتی تھی‘ وہ خاموشی تھی پیڑوں کی‘ تنہائی تھی سڑکوں کی ردائے شب سے اکثر میں ستارے چنتا رہتا تھا۔ میں نے گاڑی کا شیشہ کھول کر بارش کی آواز سنی۔ کبھی ہمیں اس میں بھیگنا کتنا سکون دیتا تھا۔ ایسے موسم میں بھیگتے رہنا۔ ایک شاعر کی آرزو دیکھو۔ اس فیصل ایڈیٹوریم میں ہم نے بہت مشاعرے پڑھے۔ اس وقت تو میں پنجابی ڈیپارٹمنٹ کی چیئرمین نبیلہ رحمن کی دعوت پر آیا تھا۔ یقینا اس ادبی سرگرمی کے پیچھے ایک ادب شناس شخصیت اور پنجاب یونیورسٹی کے پرو وائس چانسلر اور ہمارے دوست ڈاکٹر محمد سلیم مظہر ہوںگے۔ وہ مجھ سے چھوٹے ہیں۔ مگر میرے استاد کہ میں نے ان سے اور ڈاکٹر ناصر خان سے گلستان سبقاً سبقاً پڑھی تھی۔ اس پنجابی مشاعرہ کی صدارت مہا شاعر انور مسعود نے کی۔ بلا شبہ طنزو ظرافت میں وہ لیجنڈ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر نوید شہزاد جو میری میڈم نوید شہزاد کا ہم نام بھی ہے۔ بڑا باصلاحیت شاعر ہے۔ اس نے کمال کمپیئرنگ کی۔ بہت اچھا شاعر ہوتے ہوئے بھی اس نے بطور میزبان کلام نہیں سنایا کہ مہمانوں کو سننا تھا۔سامنے سننے والوں میں ڈاکٹر ضیاء الحسن جیسا پیارا شاعر بھی موجود تھا۔ کئی اردو شاعر بھی۔ وقت کیسے گزر جاتا ہے ایک وہ وقت تھا کہ جب بڑے بڑے شاعروں کی کہکشاں موجود تھی۔ اسی ہال میں احمد ندیم قاسمی کی صدارت میں منیر نیازی سے لے کر امجد اسلام امجد سب موجود تھے۔ انور مسعود بھی تھے تو میں جونیئر ترین شاعر کے طور پر شامل ہوا۔ یہ 1982ء کی بات ہے اور اب یہ عالم کہ انور مسعود کے بعد میں تھا۔ انور مسعود اسی طرح چاق و چوبند۔ چلیے ایک دو اچھے شعر بھی لکھ دوں کہ ہمارے نوجوان اب کیسے کاٹ دار شعر کہہ رہے ہیں۔ سرفراز صفی نے داد پائی! جھلیا جی نوں جی ہوندی اے ہور محبت کہیہ ہوندی اے جیڑا رنگ پتاشے دا اوہیو تیرے ہاسے دا پروفیسر شاہد گل اسی یونیورسٹی کے استاد ہیں اور بہت ہردلعزیز ۔ انہیں سٹیج پر آنے سے پہلے داد مل گئی۔ انہوں نے نظم منو بھائی کے نام کی اور بہت اچھے انداز میں کارڈیاوجی پر حملے کے حوالے سے طنز کے تیر چلائے کہ ’’بندے وندے مردے رہندے‘‘لوکی گلاں کر دے رہندے۔کجھ نہیں ہویا‘ کجھ نہیں ہونا‘‘ سعادت علی ثاقت نے آغاز میں نعت پیش کی تھی تلاوت کرنے والے کا نام ذہن میں نہیں رہا۔ اس سے بھی پیشتر مشاعرہ آغاز ہونے سے پہلے پنجاب یونیورسٹی کے بچے بچیاں پنجابی کلام کی گائیکی کر رہی تھیں تو اس سے ایک پنجابی ثقافت اور ان کی صلاحیت سامنے آئی۔ کچھ لوگ باہر کے ممالک سے بھی آئے تھے اور مجھے حیرت ہو رہی تھی کہ وہ کتنے اچھے شعر سنا رہے تھے۔ اصل میں ماں بولی تو ماں بولی ہے۔ اس میں کی گئی بات شاید بغیر کسی میڈیم کے سیدھی دل سے نکل کر دل میں اترتی ہے۔ ظفر اعوان نے متوجہ کیا: ایہہ نہ سمجھیں تھڑکے آیاں میں منزل تو مڑ کے آیاں کچھ پتے کی باتیں بھی شاعری میں آ جاتی ہیں جو لطف دیئے بغیر نہیں رہتیں۔ سرفراز صفی نے کہا ’’لہجہ تیرا شہدائے یار۔ شہد وی چھوٹی مکھی دا‘‘ میاں محمد کا ایک شعر ذہن میں آ گیا: گئی جوانی آیا بڑھاپا جاگ پئیاں سب پیڑاں ہن کس کم محمد بخشا سونف جوین ہریڑاں صدف مرزا اور انجم قریشی نے جدید نظمیں پیش کیں اور ہماری بہن حمیدہ شاہین نے ہمیشہ کی طرح مشاعرے کو چار چاند لگا دیے۔ اچھا لگتا ہے کہ ان کی شاعری میں مقصد کو مرکزی حیثیت حاصل ہوتی ہے: پانیاں دے بھید نہیں سکیاں تے کھلدے پنڈے اتے جھلنی اے جھال میرے سوہنیوں افضل ساحر کے اشعار دیکھیے: مینوں کلا ہون دے‘ اللہ ای اللہ ہون دے سر پیراں تو وار دے دل نوں جھلا ہون دے میرا خیال ہے کہ دو شعر میں اپنے بھی تو لکھ دوں کہ پھر بھول جائوں گا: آیا جد میں لہر دے وچ کجھ وی نہ تکیا زہر دے وچ پنڈ دے پنڈگواچے نیں کنی بھیڑ اے شہر دے وچ اس مشاعرے میں مزاح کا رنگ بھی غالب آیا کہ اس میں دو نوجوان مرلی چوہان اور طاہر شاہیر شامل تھے اور بچے ان سے جی بھر کر سننا چاہتے ہیں۔ دونوں نے اپنے اپنے انداز میں مشاعرہ لوٹا۔ ان کی نظمیں کالم کی تنگ دامانی کے باعث درج نہیں ہو سکتیں۔ شاعروں میں رزاق شاہد ‘ تجمل کلیم اور انجم سلیمی بھی شامل تھے۔ فیصل آباد سے آئے ہوئے نہایت خوبصورت شاعر انجم سلیمی کے دو شعر: کاغذاں اتے لیک لیک کے پٹھیاں سدھیاں لیکاں ہور دہیانے پائیاں ہویاں میں اندر دیاں چیکاں میں جس دی بے قدری کر کے پچھے چھڈ آیا ساں اوسے چنگے ویلے نوں ہن رو رو پیا اڈیکاں انور مسعود صاحب جب پڑھنے آتے ہیں تو ایک اور ہی فضا پیدا ہو جاتی ہے۔ ظاہر ہے لوگ انہیں سننے آتے ہیں۔ پھر وہ ہوتے ہیں اور حاضرین۔ بعض اوقات تو وہ دو دو گھنٹے لوگوں کی فرمائشیں پوری کرتے رہتے ہیں۔ مزاح مزاح میں ایسی سنجیدہ باتیں کرتے ہیں کہ بس۔ مثلاً موہنجوڈارو کے بارے میں کہتے ہیں’’عبرت کی ایک چھٹانک میسر نہ آ سکی۔ کلچر نکل پڑا ہے منوں کے حساب سے۔ ان کی پنجابی نظمیں۔ اج کیہ پکائیے‘ امبڑی‘ لسی تے چاہ دی لڑائی‘ اور بنیان سدا بہار نظمیں ہیں اور پنجابی شاعری کا اثاثہ۔ آخر میں ایک مرتبہ پھر ڈاکٹر محمد سلیم مظہر ‘ ڈاکٹر نبیلہ رحمن اور ڈاکٹر نوید شہزاد کو مبارکباد کہ انہوں نے بھر پور قسم کی پنجابی کانفرنس کروائی جس کا آخری آئٹم یہ پنجابی مشاعرہ تھا۔ ایک شعر کے ساتھ اجازت: خوشبو دے وس وچ نہیں ہوندا وا چلے تے پھل وچ رہنا