سچ کی تلاش اور جھوٹ کا فریب صدیوں پر محیط ہے‘بقول جون ایلیا ’’ایک ہی حادثہ تو ہے اور وہ یہ کہ آج تک...بات نہیں کہی گئی‘بات نہیں سنی گئی‘‘-تاریخ گواہ ہے کہ جس نے سچ بات کہی اور حق سچ پر ڈٹ گیا‘وہ نہ صرف تاریخ رقم کرنے میں کامیاب رہا بلکہ تاریخی کامیابیاں اس کی شجاعت کی محتاج رہیں۔ قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کو صحیح طرح اردو بھی بولنا نہیں آتی تھی مگر وہ سچ بولتے تھے۔ گویا تاریخ آج بھی ان کو سلام پیش کرتی ہے۔ سچ‘جھوٹ اور بہادری میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔ دلیری کیساتھ سچ بولا جائے تو خلق خدا کھچی چلی آتی ہے۔ یہ بات حکمران اتحاد میں شامل پی ڈی ایم جماعتوں کی سمجھ میں نہیں آرہی۔تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کا بخار تا وقت تمام سیاسی جماعتوں کے سر پر سوار ہے‘ہر دوسری سیاسی جماعت‘اس کے رہنما ان پر تندو تیز جملے کسنے اور شدید تنقید کرنے میں مصروف ہیں۔کوئی موقع ان کیخلاف نا جانے دینے کی ٹھان لی گئی ہے جبکہ عمران خان عوام کے سامنے ہر بات پوری دلیری کیساتھ رکھ رہے ہیں،ان کے ہر جملے کو متعدد مرتبہ سکین کرکے کاروائیوں کے جوازگھڑے جارہے ہیں۔ میدان سے باہر کرنے کی ہر کوشش جاری ہے، مگر عمران خان اپنے موقف سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں۔ آرمی چیف کی تقرری کے ضمن میں ان کے بیان کہ زرداری اور نواز شریف جیسے کرپٹ لوگ ان کا انتخاب کرینگے‘پر شدید ردعمل سامنے آیا۔جبکہ عمران خان کا موقف ہے کہ انہوں نے کچھ غلط نہیں کہا:فوج بھی ان کی ملک بھی ان کا اور وہ صرف پاک فوج کے ادارے کو مزید مضبوط بنانے کے خواہاں ہیں۔ گزشتہ روز چشتیاں، ملتان میں انکے بھرپور جلسہ ہوا۔ عوام کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر تھا‘ عمران خان نے بانگ دہل اعتراف کیا کہ پنجاب حکومت گرانے کی سازشیں ہورہی ہیں۔مسٹر ایکس وائے اراکین کو دھمکیاں دے رہے ہیں‘ پیسہ چل رہا ہے اور لوٹے خریدنے کی کوششیں ہورہی ہیں‘ انہوں نے مزید کہا کہ نواز شریف کی واپسی کیلئے ایسا کیا جارہا ہے‘ہمیں اداروں سے لڑانے کی سازشیں کامیاب نہیں ہونگی۔نواز شریف ملک واپس آؤ‘ تمہارا ایسا تاریخی استقبال کرینگے کہ اس سے پہلے ملک میں کسی کا نہیں ہوا ہوگا۔ عمران خان اپنی پوری جرات رندانہ کیساتھ عوام کے پاس جارہے ہیں‘انہوں نے حقیقی معنوں میں طاقت کا سرچشمہ عوام کو بنا لیا ہے۔ عمران خان کی سیاسی مقبولیت عروجِ پر ہے‘چند ماہ قبل جب ان کیخلاف تحریک عدم اعتماد لائی گئی تو تب ہی پی ڈی ایم کو تجویز کیا گیا کہ سارا معاملہ الٹ ہوجائیگااور ایسا ہی ہوا‘اب اگر پنجاب حکومت گرائی گئی‘اسکا بھی سارا فائدہ عمران خان کو ہوگا‘ ان کی سیاسی و عوامی مقبولیت میں مزید اضافہ ہوگا‘ وہ مزید طاقت ور ہوکر سیاسی میدان میں اتریں گے‘جس سے پیپلز پارٹی‘ن لیگ اور جمیعت علمائے اسلام (ف)کیلئے مزید مسائل کھڑے ہونگے‘پنجاب حکومت گرانے کے علاوہ کوئی بھی کارروائی چاہے کسی بھی کیس میں عمران خان کیخلاف کی جاتی ہے‘اس کے فائدے سے عمران خان کو بہرہ مند ہونے سے محروم نہیں رکھا جاسکتا،ا ن کی عوامی قوت بڑھتی رہے گی‘ایک بات لکھ لیں:چاہے آئندہ عام انتخابات جب بھی ہوں‘جیسے بھی ہوں‘ عمران خان بھاری اکثریت سے کامیاب ہونگے‘ اسکی وجہ کا اندازہ ان کے جلسوں میں عوامی ہجوم کو دیکھ کر لگا لیں۔درحقیقت عوام تذلیل کے 75برس فراموش کرنے کو تیار نہیں‘سٹیٹس کو کے کلچر نے عوام کیساتھ جو سلوک روا رکھا‘عوام اس کے انتقام کیساتھ ساتھ اپنے حقوق کے حصول سے ایک انچ پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں‘ تاہم عمران خان پر آسلام آباد ہائیکورٹ نے فرد جرم عائد کرنے کا فیصلہ دیدیا ہے۔ مخترمہ مریم نواز نے چشتیاں جلسہ میں کہا: ہم گالی دیکر فیصلے نہیں لیتے، عمران خان اپنے جلسوں میں ن لیگ، دیگر جماعتوں کے عدلیہ کیخلاف ویڈیو کلپس چلا رہے ہیں۔ پنجاب اسمبلی کے تین الیکشن بھی ملتوی کر دئیے گئے ہیں، یقیناً تحریک انصاف جمہوری اصولوں کے مطابق عوام میں ازسرنو شعور بیدار کرنے میں کامیاب ہوچکی ہے۔ عوام حقیقی آزادی کو اپنا حق مان کر عمران خان کے پیچھے چل دئیے ہیں‘لہذا پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومت ہو یا حمزہ شریف دوبارہ برسراقتدارمیں آئیں‘تحریک انصاف کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑیگا‘ الٹا پی ڈی ایم کے کرتائوں کو سیاسی طور پر لینے کے دینے پڑ جائینگے۔آجیاکل جب بھی انتخابات کروائیں‘ کے پی کے‘پنجاب میں بری طرح جمعیت علمائے اسلام (ف) اور ن لیگ کو بالترتیب شکست اور ہزیمت کا سامنا کرنا پڑیگا۔ سندھ کے مختصر دورے نے ثابت کردیا‘عمران خان اپنا پڑاؤ سندھ میں ڈال لیں تو پیپلز پارٹی کو بڑا ڈینٹ پڑ سکتا ہے۔ پنجاب کا محاذ اسلام آباد کی فتح کیلئے سب سے اہم ہے‘یہاں تقریباً تحریک انصاف ماحول بنا چکی ہے‘یہ بات پی ڈی ایم کے نالائق حکمرانوں جن کی کارکردگی مہنگائی اور معیشت کا بیڑہ ڈبونے کے سوا کچھ نہیں‘ اس کی سمجھ میں آچکی ہے‘اس لئے وہ انتخابات سے فرار کی ہر راہ اپنا رہے ہیں۔ایسی تمام باتیں جھوٹے فسانے کے سوا کچھ نہیں کہ نواز شریف فوری انتخابات چاہتے ہیں‘یہ بات غلط ہے‘اپنی ناکامی کو قبل از وقت بھانپتے ہوئے‘عمران خان کو ہر غیر جمہوری طریقے سے میدان سے باہر کرنے کے اقدامات کئے جارہے ہیں لیکن وہ ان کے قابو میں نہیں آپارہے۔ نواز شریف ان حالات میں واپس آنے سے بھی خائف نظر آتے ہیں‘ یقین نہ آئے تواڑھائی ماہ قبل اسحاق ڈار کی طرف سے وطن واپسی کے اعلان کے بعد واپس نہ آنے کی خبروں کا ماہرانہ جائزہ لے کر دیکھ لیں‘کون کتنے پانی میں ہے؟ اس کا عملی نمونہ آئندہ ان ضمنی انتخابات سے حاصل ہوجائیگا‘ جن میں عمران خان براہ راست 9نشستوں سے الیکشن میں اترے ہیں‘ ایسا بھی ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہونے جارہا ہے‘عمران خان کا یہ فیصلہ خطرناک تھا‘وہ ہر خطرہ مول لے کر ملک و قوم کی بات کررہے ہیں‘ اسی لئے ان کی مقبولیت کا گراف بلند تر ہوتا چلا جارہا ہے‘انہیں اب جب کہ محاذ فیصلہ کن مرحلے میں رینگ رہا ہے‘احتیاط کا دامن بھی تھامنا ہوگا اور آئندہ عام انتخابات میں کامیابی کی صورت میں عوام کو وہ سب ڈلیور کرنا ہوگا‘جو 75سالوں میں ممکن نہ ہوسکا۔اللہ رب العزت سے دعا ہے:پاکستان کا عام آدمی ایسے دن دیکھ سکے! پنجاب حکومت گرائیں یا بنائیں؟ یہ مرحلہ بہت پیچھے رہ گیا۔