ماسٹر جگت سنگھ1885ء میں کیمبل پور(اٹک) کے قصبے پنڈی گھیب میں پیدا ہوئے۔1902ء میں راولپنڈی سے ہائی سکول پاس کیا۔ پہلے پرائمری سکول گولڑہ اور پھر میونسپل بورڈ ہائی سکول جہلم میں مدرس رہے۔ مزید تعلیم کے شوق میں سنٹرل ٹریننگ کالج لاہور سے ایس وی کا امتحان پاس کیا۔ واپس پنڈی گھیب آئے اور وہاں خالصہ سکول کے نام سے تعلیمی ادارہ قائم کیا۔ خود بھی اس میں پڑھاتے رہے۔1905ء میں پنڈی گھیب ہی سے خالص تعلیمی مقاصد کے لئے ایک ماہانہ رسالہ ’’رہنمائے تعلیم‘‘ جاری کیا۔ ماسٹر جگت سنگھ کے اپنے الفاظ میں۔ ’’32اس کے صفحات ہوتے تھے۔ میں خود ہی اس کے مضمون لکھتا۔ مسودہ خود ہی راولپنڈی لے جاتا کسی کاتب کی منت سماجت کر کے لکھواتا۔ بازار جا کر خود ہی کاغذ لاتا۔ پھر مطبع والوں کی خوشامد کر کے پاس کھڑا ہو کر چھپواتا۔ چھپے ہوئے فرمے سر پر اٹھا کر پنڈی گھیب لاتا۔ خود ہی انہیں فولڈ کرتا۔ خود پیکٹ بناتا۔ ٹکٹ لگا کر ڈاکخانے لاتا یعنی ایڈیٹر بھی میں تھا منیجر بھی میں تھا اور چپڑاسی بھی‘‘ خالص تعلیمی مزاج کا یہ رسالہ ڈسٹرکٹ انسپکٹرآف سکولز میر عبدالواحد کی سرپرستی میں شائع ہوتا۔ بچوں کا اس میں ایک خصوصی گوشہ ’’گلدستۂ اطفال‘‘ کے نام سے تھا۔ کرنل محمد خان کی بارہ برس کی عمر میں پہلی کہانی’’بلی اور ’’چوہا‘‘’’رہنمائے تعلیم‘‘ ہی میں شائع ہوئی۔ دو سال یعنی 1905ء سے 1907ء تک رسالہ ’’رہنمائے تعلیم‘‘ پنڈی گھیب سے شائع ہوتا رہا۔1907ء میں ماسٹر جگت سنگھ لاہور آ گئے تو رسالہ بھی ساتھ ہی لے آئے۔ یہاں مخالفین نے الزام لگایا کہ سرکاری ملازم ہو کر ذاتی پرچہ نکال رہا ہے جو غیر قانونی ہے مولانا حالی کے فرزند خواجہ سجادحسین پنجاب میں انسپکٹر تعلیمات تھے۔ انہوں نے اجازت لے دی۔ کچھ اور بااثر افراد نے بھی تعاون کیا۔ رسالہ پنجاب کے تمام سکولوں میں جانے لگا۔ اشاعت ہزاروں تک گئی۔ بڑے بڑے مشہور لوگ اعزازی حیثیت میں ایڈیٹر کے طور پر ماسٹر جگت سنگھ کے رسالے سے وابستہ رہے۔ ان میں جوش ملسیانی اور شیخ محمد اسماعیل پانی پتی بھی تھے۔1931ء میں ماسٹر صاحب نے ’’رہنمائے تعلیم‘‘ کا جوبلی نمبر نکالا۔ اس کے صفحات 738تھے۔ پچیس سال تک اس کی ضخامت کا ریکارڈ قائم رہا یہاں تک کہ ’’نقوش‘‘ نے بڑے بڑے نمبر نکالنے شروع کئے۔ بعد میں ماسٹر صاحب نے افسانہ نمبر ریڈ کراس نمبر‘ تاجپوشی نمبر اور دیگر نمبر بہت شان سے نکالے۔ ریڈ کراس نمبر پر انگریزی سرکاری نے انہیں ’’سردار صاحب‘‘ کا خطاب دیا۔ سنٹرل ٹریننگ کالج لاہور میں 31برس تک تدریسی فرائض سرانجام دینے کے بعد 1938ء میں سردار صاحب سبکدوش ہو گئے۔ اب ’’رہنمائے تعلیم‘‘ کی مسلسل اشاعت ان کی زندگی کا واحد مقصد تھا۔ انہوں نے اس میں ادبی مضامین شائع کرنے کا فیصلہ کیا اس کے ساتھ ہی انہیں برصغیر کے نامور ادیبوں کا قلمی تعاون حاصل ہو گیا۔ مذہبی تنگ نظری کا یہاں شائبہ تک نہ تھا۔ حسن نظامی‘ پریم چند‘ حکیم یوسف حسن‘ اسماعیل پانی پتی‘ ریاض خیر آبادی‘ جلیل مانک پوری‘ نوح ناروی ‘ جگر مراد آبادی‘ تلوک چند محروم‘ عرش ملسیانی اور صوفی تبسم جیسے مشاہیر اس رسالے میں لکھتے رہے۔ ماسٹر جگت سنگھ نے لاہور میں اپنا مکان بنا لیا تھا۔ پھر ہندوستان تقسیم ہو گیا۔ ماسٹر صاحب ہجرت کر کے دہلی چلے گئے۔ ’’رہنمائے تعلیم‘‘ کو دل سے لگا کر ساتھ لے گئے۔ اس کی اشاعت دہلی سے جاری رہی! یوں پنڈی گھیب ضلع اٹک سے نکلنے والا رسالہ لاہور سے ہوتا ہوا دہلی جا پہنچا۔ جہاں نوح ناروی جیسے معروف شاعر‘ جو داغ دہلی کے شاگرد تھے، ’’رہنمائے تعلیم‘‘ کی سرپرستی کرتے رہے۔ماسٹر جگت سنگھ 1962ء میں اس دنیائے فانی سے کوچ کر گئے۔ ان کے فرزند ہربھجن سنگھ تھاپڑ نے رسالہ جاری رکھنے کا عزم کیا اور جاری کیا۔ شیخ اسماعیل پانی پتی لکھتے ہیں: ’’1930ء میں رسالہ ’’رہنمائے تعلیم‘‘ لاہور سے میرا ادرات کا تعلق قائم ہوا جو آج تک چونتیس برس ہو چکے ہیں قائم ہے۔ یہ رسالہ آج کل میری ادارت میں دہلی سے نکل رہا ہے۔ رسالہ کے مالک اور بانی سردار صاحب ماسٹر جگت سنگھ فوت ہو چکے ہیں اب ان کے لائق فرزند سردار ہربھجن سنگھ تھاپڑ یہ رسالہ نکال رہے ہیں میری ادارت میں رسالہ ہذا کے بعض خاص نمبر بڑی شان سے شائع ہوئے ہیں‘‘ ہربھجن سنگھ تھاپڑ 1920ء کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ آنرز ان پنجابی(فارسی رسم الخط میں) پنجاب یونیورسٹی سے پاس کیا۔ انہیں ادبی علمی اور صحافتی خدمات پر بھارت کی حکومت اور علمی اداروں نے کئی انعامات سے نوازا۔ہربھجن سنگھ نے رسالے کے کئی نمبر شائع کئے ان میں نوح ناروی نمبر‘ مبشر علی صدیقی نمبر ماسٹر جگت سنگھ نمبر اوربیدل بیکاری نمیر بہت مشہور ہوئے۔2005ء میں انہوں نے رسالے کا’’صدی نمبر‘‘ نکالا اور طویل العمر ہونے کا رسالے نے ریکارڈ قائم کیا۔ ہر بھجن سنگھ کی وفات پر ان کے وارثوں نے رسالہ بند کرنے کا فیصلہ کیا مگر شمع کچھ اور باہمت ہاتھوں نے سنبھال لی۔ 2007ء سے ابونعمان ’’رہنمائے تعلیم جدید‘‘ کے نام سے رسالے کی اشاعت جاری رکھے ہوئے ہیں۔ بدقسمتی یہ ہوئی کہ جرائد کی تاریخ اور تذکروں میں اس رسالے کا نام جس طرح آنا چاہیے تھا نہ آ سکا۔ بھارت میں مولانا امداد صابری نے اردو صحافت کی تاریخ کئی جلدوں میں لکھی۔ انہوں نے رہنمائے تعلیم کو 1906ء کے رسالوں میں شمار کیا۔ جو غلط ہے۔ پرچے کا آغاز 1905ء میں پنڈی گھیب سے ہوا تھا۔ پھر امام مرتضیٰ نقوی ’’اردو ادب میں سکھوں کا حصہ‘‘ کے عنوان سے اپنی تحقیق منظر عام پر لائے۔ انہوں نے بھی سال اشاعت غلط لکھا یعنی 1907ء دیگر تذکروں میں پرچے کا ذکر ہی مفقود ہے۔ اکادمی ادبیات پاکستان نے انور سدید کو جرائد کی تاریخ لکھنے پر مامور کیا۔ ان کی تحقیق کا نام’’پاکستان میں ادبی رسائل کی تاریخ‘‘ہے۔ انہوں نے اپنے کام کو بارہ ابواب میں تقسیم کیا اور آغاز سے لے کر 1988ء تک کے عرصہ کو موضوع بنایا۔ مگر بدقسمتی سے یہ رسالہ جو لاہور سے 1907ء سے لے کر 1947ء تک مسلسل چالیس برس باقاعدگی سے شائع ہوتارہا ۔ ان کی نگاہوں سے اوجھل رہا۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہماری لائبریریوں میں اس رسالے کی مکمل فائل کہیں نہیں! جنوری 2014ء میں دہلی میں ایک تقریب ابونعمان کے اعزاز میں منعقد ہوئی۔ اس میں رہنمائے تعلیم کا بھر پور تذکرہ ہوا۔ اسی سال 9نومبر کو یوم اقبال کے حوالے سے ’’عالمی اردو آرگنائزنگ کمیٹی نئی دہلی نے کچھ دیگر اداروں کے ساتھ مل کر ایک روزہ سیمینار کا انعقاد کیا۔ ماہر اقبالیات پروفیسر عبدالحق نے صدارت کی۔ اس موقع پر عالمی یوم اردو کی مناسبت سے ماہنامہ ’’رہنمائے تعلیم جدید‘‘ نے خصوصی شمارہ بابائے اردو عبدالحق نمبر شائع کیا۔ کیا ’’رہنمائے تعلیم‘‘ کو قدیم ترین جریدہ سمجھا جا سکتا ہے جو پنجاب کے مغربی علاقے سے آغاز ہوا؟ اس پر محققین کو کام کرنا چاہیے۔ اس پرچے کی مکمل فائل کم از کم مقتدرہ قومی زبان اور اکادمی ادبیات پاکستان کے کتب خانوں میں ضرور ہونی چاہیے۔ پھر یہ تحقیق کرنے والوں کا کام ہے کہ اس کے ایک صدی سے زیادہ عرصہ پر پھیلے ہوئے ذخائر سے لعل و جواہر نکالیں‘ ترتیب دیں اور اردو ادب کے شائقین کو پیش کریں۔ اس تحریر کے لئے نوجوان محقق اور ادیب ارشد سیماب ملک کے طویل تحقیقی مضمون’’اردو جریدہ نگاری اور‘‘ ’’رہنمائے تعلیم‘‘ سے استفادہ کیا گیا ہے۔ یہ مضمون ماہنامہ ذوق میں چھپا ہے۔ ارشد سیماب ملک اٹک میں بیٹھ کر‘ اپنے بے حد محدود وسائل کے ساتھ بھر پور ادبی اور تحقیقی خدمات سرانجام دے رہا ہے۔ اٹک کے حوالے سے اس نے ان ادیبوں اور شاعروں کے بھی احوال قلم بند کئے ہیں جو تقسیم کے وقت سرحد پار چلے گئے۔ ادب اور تحقیق کا کوئی علاقہ ہوتا ہے نہ مسلک! غالب اور اقبال بھارت میں بھی مقبول ہیں۔ پریم چند اور رتن ناتھ سرشار کو پاکستان میں بھی پڑھایا جاتا ہے۔ اردو کے لئے جس نے بھی کام کیا ہے اور جو بھی کام کرے گا‘ اس کا نام اردو کی تاریخ میں ضرور آئے گا!