لاہور ہائیکورٹ نے ملک میں بے چینی پھیلانے والے پٹرول بحران کی تحقیقات کے لئے اعلیٰ سطحی کمیشن بنانے کا حکم دیا ہے۔ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ جسٹس محمد قاسم خان نے اٹارنی جنرل کو تحقیقاتی کمیشن کے لئے ممبران کے نام دینے اور ٹی او آرز پیش کرنے کی ہدایت کی ہے۔ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ محمد قاسم خان نے قرار دیا کہ عدالت اگر اس بحران سے نمٹنے کی خاطر کئے گئے حکومتی اقدامات سے مطمئن نہ ہوئی تو معاملے کا فیصلہ کرتے وقت اس میں بیڈ گورننس کا لکھ دیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کی موجودگی میں پٹرول بحران پیدا ہوا اور بظاہر پٹرول مافیا نے فائدہ اٹھانے کے لئے پٹرول کی قلت پیدا کی۔ حالیہ برس فروری میں دنیا کو خطرناک وبا کورونا نے گھیر لیا۔ چین میں ساڑھے تین ہزار افراد کی جان لینے کے بعد کورونا کا وائرس یورپ میں پھیلنے لگا۔ سب سے پہلے اس نے اٹلی میں تباہی پھیلائی۔ اس کے بعد سپین اور دوسرے ممالک اس کی زد میں آئے۔ یورپ کے بعد کورونا کی وبا امریکہ میں داخل ہوئی۔ آج صورت حال یہ ہے کہ امریکہ میں یہ مرض سب سے زیادہ نقصان کا باعث بن رہا ہے۔ اس وبا کے ہاتھوں ڈھائی لاکھ امریکی جان کی بازی ہار چکے ہیں۔ بھارت ‘ برازیل ‘ ایران اور عرب ممالک تک کورونا کے ہلاکت خیز اثرات نے عالمی سطح پر اس کے انسداد کی جن تدابیر کی ضرورت مساوی طور پر محسوس کی ان میں سے ایک لاک ڈائون تھا۔ سب سے پہلے چین نے یہ تجربہ کیا اور اسے کارآمد پایا۔ ایشیا‘ یورپ‘ امریکہ‘ افریقہ‘ آسٹریلیا اور کینیڈا جیسے براعظموں میں ٹرانسپورٹ‘ مارکیٹس‘ کاروباری مراکز اور فضائی پروازیں بند ہونے سے تیل کی کھپت میں نمایاں کمی آئی۔ طلب میں کمی نے دنیا بھر میں پٹرولیم کے نرخ پہلی بار منفی سطح پر پہنچا دیے۔ عالمی مارکیٹ میں پٹرول کے نرخ جب 20ڈالر فی بیرل کے لگ بھگ آئے تو پاکستان میں اس کی فی لٹر قیمت 75روپے کر دی گئی۔ ملک میں پٹرولیم کے نرخ کم ہونے پر حکومت نے کسی حد تک عوام کو ریلیف دینے کے اقدامات کئے لیکن اس موقع پر ایک عجیب صورت حال پیدا ہوئی۔ اکثر پٹرول پمپ مالکان نے پٹرول کی فروخت بند کر دی۔ جو ٹرانسپورٹ اور گاڑیاں سڑکوں پر تھیں انہیں چلانے کے لئے جب پٹرول ملنا بند ہوا تو پمپ مالکان نے بلیک میں تیل فروخت کرنا شروع کر دیا۔75روپے لٹر والا پٹرول کئی علاقوں میں 200روپے فی لٹر تک فروخت ہوتا رہا۔روز ایسی بلیک مارکیٹنگ اور فروخت کی خبریں ذرائع ابلاغ میں جگہ پاتی رہیں لیکن وزارت پٹرولیم اور اوگرا نے چپ سادھے رکھی۔ اس سے حکومتی ساکھ مجروح ہوئی۔ وزیر اعظم نے انتظامیہ کو مسئلہ حل کرنے کی ہدایت کی لیکن عوام کے لئے مشکلات میں کمی نہ آ سکی۔ حکومت نے اعلان کیا کہ پٹرول کی قلت کے ذمہ دار مافیا کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ ایسی کوئی کارروائی اس وجہ سے نہ ہو سکی کہ پٹرولیم ڈویژن اور اوگرا اس بحران کی ذمہ داری ایک دوسرے پر عائد کرتے رہے۔ چند روز بعد عالمی منڈی میں پٹرولیم کے نرخ کچھ بڑھے اور حکومت نے 25روپے فی لٹر اضافہ کردیا۔ پٹرولیم نرخوں میں اس اضافے کا اطلاق مشکوک طریقہ کار کے تحت ہوا۔ ٹرانسپورٹر اور دیگر حلقوں نے فوراً کرایوں اور اخراجات میں اضافہ کر دیا۔ اس پر عوامی سطح پر شدید احتجاج سامنے آیا۔حکومت نے انکوائری کا اعلان کیا۔ کچھ تحقیقاتی سرگرمیاں دیکھنے میں آئیں لیکن ان کا نتیجہ عوام کو مطمئن نہ کر سکا۔ اوگرا کا کہنا ہے کہ تیل کمپنیاں اس بحران کی ذمہ دار ہیں۔ ان کمپنیوں نے سستا تیل خریدا نہ اس کا خاطر خواہ ذخیرہ کیا۔یہ امر قابل ذکر ہے کہ تیل کی قلت کا بحران اس وقت سامنے آیا جب ملک میں 8سے 10دن کا تیل ذخیرہ موجود تھا۔ حکومت اس بحران کا بروقت اندازہ کر سکی نہ اس بحران کو ٹالنے کے لئے موثر اقدامات کئے گئے۔ اس سستی اور کوتاہی سے عوام میں یہ تاثر ابھرا کہ حکومتی فیصلوں پر پٹرول مافیا اثر انداز ہو رہا ہے۔ مقام حیرت ہے کہ کئی ہفتے گزرنے کے باوجود اس بحران کے ذمہ داروں کا تعین کر کے ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ وطن عزیز میں جوابدہی کا نظام عشروں کی کوششوں کے بعد اس قدر کمزور کر دیا گیا ہے کہ اب کسی خرابی کو دور کرنے کے لئے کوئی تدبیر کی جائے تو گویا ایک نظام خرابی کا محافظ بن کر سامنے آ کھڑا ہوتا ہے۔ مقام حیرت ہے کہ آئل کمپنیوں کو جو معمولی سا جرمانہ کیا گیا اس کے بعد جلد بازی میں کیا گیا فیصلہ انہیں اربوں روپے کے منافع کا حقدار بنا گیا۔ جمہوری گورننس کا ماڈل عوام کو محور بنا کر فیصلے کرتا ہے۔ حکومت اور تمام ادارے عوام کی خدمت کی خاطر قائم کئے گئے ہیں۔ عوام کا استحصال ہونے سے روکنا ان کے فرائض منصبی میں شامل ہے۔ اگر یہ ادارے اور حکومت اپنا کام درست طریقے سے نہیں کریں گے اور کسی اور کے مفادات کا تحفظ کریں گے تو پھر عدلیہ کے ان فیصلوں کا خیر مقدم کیا جائے گا جو حکومتی بدانتظامی اور مافیاز کی عوام دشمن پالیسیوں کے خلاف ڈھال بن سکیں۔ لاہور ہائیکورٹ نے پٹرول بحران پر اعلیٰ سطحی تحقیقاتی کمشن بنانے کی ہدایت کر کے معاملے کی اصلیت سامنے لانے کا فیصلہ کیا ہے۔ ضروری ہے کہ یہ کمیشن بلاتاخیر اپنا کام شروع کرے اور زیادہ سے زیادہ دو ہفتوں میں اپنی رپورٹ معزز عدالت کو پیش کرے اور اس رپورٹ کی روشنی میں قصور وار افراد کو سخت سزائیں دے کر ریاست کی رٹ بحال کی جائے۔