کیا انسانی تاریخ انسانی(اسلامی نہیں) میں ایسے لوگ بھی پیدا ہوئے ہیں جن کے بارے میں وثوق سے کہا جا سکے کہ انہوں نے ساری مصلحتوں کو بالائے طاق رکھ کر سب سچ بولا، سب سچ لکھ ڈالا ؟ میکسم گورکی کی ’’ماں‘‘ شاہکار ہے یا مصنف کی زندگی کی سچائیاں ؟ کیا جوش ملیح آبادی کی یادوں کی بارات ، جوش صاحب کی زندگی کے سارے سچ ہیں ؟ یا بہت سارے واقعات کا اختصار؟،کیا شکاگو والے افتخار نسیم افتی کا ایک سچ اس کی زندگی کے تمام سچ تھے؟ کیا کوئی آدمی سارے داغ دل نہاں کر سکتا ہے؟ کیا کوئی عورت اپنی مرضی کے مرد کا اور اپنی پسند کا بچہ جنم دے سکتی ہے؟کیا سقراط نے زہر کا پیالہ پینے سے پہلے کبھی مصلحتا بھی جھوٹ نہیں بولاہوگا؟ دنیا کے دیگر معاشروں میں، مختلف مذاہب میں، تواریخ کے صفحات پر، قرون اولیٰ میں، قرون وسطیٰ میں،، مکمل سچ،، کے بے نقاب ہونے کے کون کون سے اور کتنے واقعات موجود ہیں؟ کیا انسان مکمل سچ بولنے پر قادر بھی ہے؟ اس سے پہلے کہ آپ دوست اس موضوع پر میری راہنمائی فرمائیں، میں اعتراف کرتا ہوں کہ میرے پاس کچھ کہانیاں، بلکہ بہت سی کہانیاں ایسی ہیں جو سنائی یا لکھی نہیں جا سکتیں، کچھ واقعات ایسے ہوتے ہیں ، جنہیں بیان کرنے کے لئے ہم مناسب وقت کے انتظار میں زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں ، میں نے ایک کہانی لکھی، عنوان تھا، اڑتالیس سال بعد ایک دوست سے معذرت،، اس کہانی میں اعتراف کیا کہ 1970ء میں، میں نے ایک اچھے دوست پر مذاقاً تہمت لگائی، جس کے باعث اسے ہزیمت اٹھانا پڑی، میرا دوست اس کہانی میرے اس اعتراف پر بہت ناراض ہوا، اس کے بعد میں ایک دوسرے دوست کے بھی ناراض ہوجانے کے خدشے سے اس کہانی کو بھی سامنے نہ لا سکا جس کا عنوان تھا۔۔۔ ’’یہ جو صدر پاکستان ہیں‘‘ آٹھ دس سطریں لکھیں اور قلم رک گیا، کئی دوستوں کے نام آتے ہیں اس کہانی میں، کچھ دنیا چھوڑ جانے والے عظیم لوگوں کے نام بھی ہیں اس داستان میں، اور ان چلے جانے والوں کے وارثوں کی حیاء کا بھی سوال ہے، مجھے کیا لکھنا ہے، کیا نہیں لکھنا،، فیصلہ تو میں نے خود ہی کرنا ہے، عزم ہے ابھی بے شمار کہانیاں لکھنے کا، لیکن آپ سب دوستوں کی مشاورت بھی درکار ہے، اپنے کالم اور کالم کہانیاں پڑھنے والوں سے ایک سوال ہے ،کیا واقعی کچھ کہانیوں کو اپنے مر جانے سے پہلے دفن کر دینا ہی بہتر ہوتا ہے۔ ٭٭٭٭٭ اب ایک کہانی جو ایک سچ بھی ہے اور میرے ضمیر پر ایک بوجھ بھی۔ مرحوم اللہ انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے، تھے تو عطائی حکیم لیکن کہلاتے ڈاکٹر تھے،لائل پور(میں لائل پور کو کبھی فیصل آباد نہیں کہتا) کے جھنگ بازار میں بیٹھتے تھے، قلمی ،نام تھا ساحر قدوائی، شاعری کے میدان میں خود کو ساحر لدھیانوی کے ہم پلہ سمجھتے تھے ،ساحر قدوائی کے بنائے ہوئے شربت، مربے اور کشتے بہت مقبول تھے،لاکھوں کی کمائی تھی صرف کشتوں اور شربتوں سے،ساحر قدوائی شادی شدہ اور بال بچیدار تھے،، ادھیڑ عمری میں ایک دراز قد،گوری چٹی تیکھے نینوں والی عورت ٹکرا گئی، جو نہ صرف خود بھی شادی شدہ بلکہ جوانی کی دہلیز پر کھڑی بیٹی کی ماں تھی،اس عورت سے ملاقات کے بعد حکیم ساحر قدوائی کے تو ہوش ہی نہیں طوطے بھی اڑ گئے، حکیم صاحب نے شادی کی پیشکش کی تو اس نازنین نے شرط یہ رکھ دی کہ حکیم صاحب ایک فلم بنائیں گے، جس کی ہیروئن وہ خود ہوگی۔ اس زمانے میں دس پندرہ لاکھ میں فلم بن جاتی تھی، حکیم صاحب کے لئے سودا مہنگا نہ تھا، اس خاتون نے پہلے شوہر سے طلاق لی اور بیٹی سمیت حکیم صاحب کے نکاح میں آ گئی، اب حکیم صاحب نے اپنا وعدہ وفا کرنا تھا،سوال یہ تھا کہ فلم بنائی کیسے جائے؟ کشتے اور شربت بنانے کی صلاحیت یہاں کام نہیں آنے والی تھی،ہاں کشتوں، مربوں اور شربتوں کی کمائی کا صحیح استعمال ضرور ہونے والا تھا۔ فلم بنانے کے لئے انہیں ملا انہی کے شہر میں پیدا ہونے والا فلمی صحافی زاہدعکاسی جو لاہور میں ایک اخبار کا فلمی صحافی تھا ،اس نے فلمی صحافی بننے سے پہلے فلم لائن میں کافی دھکے کھائے تھے، حکیم صاحب نے زاہد عکاسی سے خفیہ معاہدہ یہ کیا کہ فلم تو ضرور بنے گی، مگر اس کی بیوی کو کسی نہ کسی طور ایکٹنگ سے دور رکھا جائے گا، عکاسی اس ٹاسک میں کامیاب رہا، حکیم کی بیوی کو اس بات پر آمادہ کر لیا گیا کہ وہ اس فلم کی پروڈکشن کی نگرانی کرے گی اور اس دوران اداکاری کے اسرار و رموز سیکھے گی اور اگلی فلم کی ہیروئن وہ خود ہوگی، زاہد عکاسی نے اپنے ایک لائلپوریے ساتھی وطنی کو فلم کی ڈائرکشن سونپی اور باقی کرتا دھرتا خود بن گیا، فلم کا نام رکھا گیا’’گولڈن چانس‘‘ یہ واقعی فلمییریا زدہ اس گروپ کیلئے گولڈن چانس تھا،فلم کا سارا یونٹ عکاسی کے ارد گرد رہنے والوں پر مشتمل تھا۔ حکیم صاحب خود کبھی کبھار شوٹنگ پر آتے،سارے اختیارات ان کی جواں سال خوبرو بیوی کے ہاتھ میں تھے، حکیم صاحب کے نوٹوں سے فلم ہی شروع نہیں ہوئی، کئی اور پراجیکٹ بھی کھل گئے، ایک بڑا پراجیکٹ تھا عکاسی کے ساتھ ساتھ رہنے والے فوٹو گرافر کاشی کا جس نے حکیم صاحب کی بیوی کو اپنے دام میں پھانس لیا، جوں جوں فلم بنتی گئی۔ یہ عشق بھی تکمیل کے مراحل طے کرتا رہا،حکیم صاحب کی کثیر سرمایہ کاری کے بعد فلم مکمل ہو کر سینما تک پہنچ گئی، یہ الگ بات کہ دوسرے شو میں سارا ہال خالی تھا، فلم کی ناکامی کے بعد زاہد عکاسی اور اس کے یونٹ کے سب لوگ تتر بتر ہو گئے، حکیم صاحب کنگلے ہو کر بستر مرگ سے جا لگے، ہیروئن بننے کے جنون میں مبتلا ان کی حور جیسی پکی عمار کی بیوی فلم نگر کی سچائیوں کو جان چکی تھی، اسے علم ہو چکا تھا کہ زاہد عکاسی کے دست راست فوٹو گرافر نے صرف اس سے ہی نہیں اسکی بیٹی سے بھی پیچے لڑائے ہوئے تھے، فوٹو گرافر کاشی ایک دن اس کی بیٹی کو بھگا کر کراچی لے گیا، جہاں دونوں نے شادی کرلی ,اس لڑکی کانام شہلا تھا، فل انگریز تھی ، مشروبات سکھوں کی طرح پیتی تھی، فوٹو گرافر نے کچھ مہینوں بعد شہلا سے جان چھڑا لی تو وہ لاہور آ گئی ، ماں سے زیادہ سوہنی، گلبدن شہلا نائٹ پارٹیوں میں جانے لگی، وہ دیکھنے والوں کے ہوش اڑا دیا کرتی تھی، دو انتہائی گہرے دوستوں میں نفاق ڈلوانا ہو تو شہلا کو ساتھ بٹھادیں، ساری دوستی رفو چکر ہو جاتی تھی۔۔ کہتے ہیں کہ جوانی اور مشروب کا نشہ ایک ہو جائے تو کوئی نہ کوئی حادثہ ضرور ہوتا ہے، یہاں بھی یہی ہوا، شہلا ایک دن دوستوں کے ساتھ کار پر لاہور ہوئی۔ شہلا سے میری دو ملاقاتیں بھی ہوئیں جو بذات خود مکمل کہانیاں ہیں، یہ کہانیاں بھی امانت ہیں آپ کی میرے پاس ، آپ کو یہ امانتیں بھی لوٹاؤں گا انشااللہ بشرط زندگی۔ ٭٭٭٭٭ ہمارے بعد نیرنگئی دوراں کون دیکھے گا انہیں اپنے تغافل پہ پشیماں کون دیکھے گا اٹھیں گے جس طرف پاؤں،چلے جائیں گے دیوانے دم دشت جنوں، دشت و بیاباں کون دیکھے گا میری دیوانگی تو حشر میں بھی جوں کی توں ہوگی کسی کے حسن کو، سر در گریباں کون دیکھے گا کھلیں گے پھول گلشن میں،شگوفے مسکرائیں گے بہار آئی تو اپنا چاک گریباں کون دیکھے گا سبھی دیکھیں گے اس ماہ جواں کے گیسوئے پر خم مگر اے خاور، ترا حال پریشاں کون دیکھے گا (یہ میری ایک وہ غزل ہے جس میں مجھے اپنی پوری زندگی کا عکس نظر آتا ہے)