بھارت مودی جی اور ان کی ارغوانی سوچ کے ہاتھوں یرغمال ہے۔اسے اتفاق کہئے یا کہ قدرت کی ستم ظریفی، آج کا ہندوستان اسی تاریک گلی میں جا چکا ہے کہ جس سے گزرتے ہوئے چالیس سال ہم نے بہت مشکلات کا سامنا کیا ۔ انتہا پسندی سے پھوٹنے والی دہشت گردی کی گہری اندھی کھائی سے باہر نکلنے کیلئے ہماری ایک نسل نے خون کا خراج ادا کیا توکہیں جا کردورکناروں پر اجالا نظرآیا ہے۔ لیکن مودی کا ہندوستان تو نفرت کی مکمل تاریکی میں ڈوب چکا ہے۔ نوے کی دہائی کے کسی سال ،ایک معروف خاتون صحافی نے ’ انڈیا ٹوڈے‘ میں پاکستان یاترہ کے بعد لکھا تھاکہ ملک نہیں پاکستان انتہا پسندوں کا معاشرہ ہے۔ اقلیتوں پرظلم ڈھانے والے ہمہ وقت تشدد پر آمادہ لوگ ۔جہاں جہادی تنظیمیں سرِ عام چندہ جمع کرتی ہیں ۔محلوں میں،بازاروں میں لشکروں کے ناموں پر بھرے جانے والے ڈبے، نامعلوم لوگ آتے اور خالی کر کے لے جاتے ہیں۔ اسی مضمون میں بھارتی خاتون نے جھرجھری بھرتے ہوئے پوچھا تھا ،’ یہ کیسا ملک ہے کہ جس کے دارلحکومت میں ایک بھی سینما گھر نہیں!‘ کم وبیش بیس پچیس سال گزر گئے ، مضمون نگار کا نام تو مجھے یاد نہیں رہامگر آخری فقرہ میرے دماغ کے اندر آج بھی چپکا ہے ۔ 80کی دہائی طلوع ہوئی تو فرقہ پرست جدید ہتھیاروں سے لیس دندناتے پھرتے تھے۔عشروں تک پاکستان کی گلیوں اور بازاروں میں موت ناچتی رہی۔ دور دراز سرحدی ویرانوں کے اندر دہشت گردی کے بے چہرہ عفریت سے لڑتے بھڑتے ہمارے سجیلے جوان جانیں دیتے تو شہروں میں سکولوں ، عبادت گاہوں اور عوامی مقامات پر معصوم پاکستانی خون میں نہلا تے رزق خاک ہوتے رہتے۔اس دوران کئی ایک اندرونی اور بیرونی عوامل تھے کہ پاکستان دوراہے پر کھڑا صحیح سمت ایک قدم اٹھاتا تو دو قدم پیچھے ہٹتا۔ وہ جو تاریخ کا ادراک رکھتے ہیں حالات کے اس جبر کے پیچھے کارفرما عوامل سے آگاہ ہیں۔الاّ، وہ کہ جن کی رگوں میں نفرت کا دریا دوڑتا ہے۔ یا پھروہ کہ جن کے دل مغربی دارلحکومتوں یا آس پڑوس سرحد پار دھڑکتے ہیں۔بہت دیر سے سہی مگر کسی نہ کسی صورت ریاست کو درست سمت کا ادارک ہوہی گیا۔پاکستان کی گلیوں، بازاروں ، عبادت گاہوں، مزارات اور تفریح گاہوں میںموت بانٹنے والے تو اپنے انجام کو پہنچے۔ ابھی بہت ریاضت باقی ہے۔ اس سب کے باوجود مگر یہ کہنا بے جا نہیں کہ تا ریکی کے کونوں سے روشنی پھوٹ رہی ہے۔ اب قائدِ اعظم کے پاکستان کی بات صرف پاکستان میں نہیں ہندوستان میں بھی ہو رہی ہے۔پاکستان تیزی سے بدل رہا ہے مگر بھارت تو کب کا بدل چکا ۔گاندھی جی کے ہندوستان پر ’گوڈسے ‘کی اولاد حکمران ہے۔ نسل در نسل صدیوں کی غلامی ، غربت اور ذلت کے بعد حال ہی میں دستیاب ہونے والی مالی آسودگی نے متوسط بھارتی طبقے کو اسی خمار و تکبر میں مبتلا کر دیا ہے جو ہمارے معاشرے میں نو دولتیوں سے وابستہ ہے۔ کم و بیش چار سو آگ اگلتے ٹی وی چینلز نے بھارتیوں بالخصوص شہروں میں آباد نوجوانوں کے ذہنوں میں ’قومی تکبر‘ کا یہ تصورراسخ کر دیا ہے کہ بھارت ایک ایسی سپر پاور ہے کہ جس کا مقابلہ اب پاکستان نہیں بلکہ امریکہ، روس، فرانس اور چین سے ہے۔ٹی وی سکرینوں کے سامنے جوان ہونے والے بھارتیوں کی اکثریت پاکستان کومحض ایک پسماندہ جہادی ملک کی حیثیت سے دیکھتی ہے جوبھارتی قبضے والے کشمیر میں ہونے والی’دہشت گردی‘ کا ذمہ دارہے ۔چنانچہ بھارتیوں کی اکثریت مودی سرکار کی اندھی حمایت کرتی ہے کہ ایک نہ ایک دن مودی جی پاکستان کو ضرور’سجا‘ (سزا )دیں گے۔ سوشل میڈیا استعمال کرنے والے بھارتیوں کی تعداددنیا کے کئی ملکوں کی کل آبادی سے بھی بڑھ کر ہے۔ اکثریت پاکستان کے خلاف زہر اگلتی ہے۔ ٹویٹر ،فیس بک اور گوگل سرچ انجن بھارتیوں کا سودا بیچتے ہیں، دنیا جسے بخوشی خریدتی ہے۔ فوراً سے پیشتر مشتعل ہوجانے کا مزاج رکھنے والے اُن بھارتیوں کی جھنجلا ہٹ، چڑ چڑے پن اور مایوسی میں مگر اضافہ ہو رہا ہے کہ جویہ جانتے ہیں کہ کشمیر پر لا محدود مدت کیلئے قبضہ اب بھارت کے بس کی بات نہیں رہی۔ افغانستان میں دنیا کو حیران کر دینے والے واقعات کے بعد بھارت میں صفِ ماتم بچھی ہے۔بھارتی میڈیا رات دن یہی دہائی دے رہا ہے کہ افغانی طالبان جلد یا بدیر کشمیر پر حملہ آور ہوں گے ۔یہ مگر ماننے کو تیار نہیں اپنی آزادی کے لئے کشمیریوں کو اب کسی بیرونی امداد کی ضرورت نہیں۔ پچیس تیس سال قبل خاتون صحافی نے لکھا تھا کہ پاکستان ملک نہیں انتہا پسندوں کا معاشرہ ہے۔ آج پاکستان تو جہاں کھڑا ہے سو کھڑا ہے، گاندھی جی کا بھارت مگراب مودی جی کے شکنجے میںہے ۔ایک ایسی ریاست کہ جس کی پیشہ ور فوج اب ہندو انتہا پسندوں کی زبان بولتی ہے۔بالی ووڈ دنیا میں خوابوں کا سب سے بڑا سوداگر ہے۔ بھوک افلاس ، جنسی اور معاشی محرومیوں کے مارے کروڑوں بھارتی ، ٹانگیں سکیڑے ہر شام ملک کے طول وعرض میں پھیلے سینما گھروں کی سکرینوں پر،فوجی وردیوں میں ملبوس بالی وڈ ہیروزکو پاکستانیوں کو ’گھس کر مارتے‘ ہوئے دیکھتے ہیں۔پاکستان کے دارالحکومت میں بھی جیسے تیسے کچھ سینما گھر نمودار ہو ہی گئے ہیں۔ دلّی کے سینکڑوں کے سامنے اگرچہ چند ہی سہی، مگر اسلام آباد کے سینما گھر فلم بینوں کی رگوں میں نفرت نہیں بھرتے۔ تمام تر پاک بھارت تلخی کے باوجود ایک روایت رہی ہے کہ دونوں ملک آزادی کے دن ایک دوسرے کر تہنیتی پیغامات بھیجتے ہیں۔اس سال بھارتی وزیراعظم نے یہ روایت توڑتے ہوئے پاکستان کے یومِ آزادی سے عین ایک روز قبل خود ایک ٹویٹ کر تے ہوئے ہجرت کے دوران مارے جانے والوں کی یاد میں 14 اگست کو ’ یومِ سیاہ ‘ کے طور پر منانے کا اعلان کیا۔کیا مودی جی تاریخ سے یکسر نا بلد ہیں۔کیا انہیں معلوم نہیںکہ فسادات کی بنیاد بننے والی پنجاب کی تقسیم کا فیصلہ مائونٹ بیٹن اور کانگرس کے گٹھ جوڑ کا نتیجہ تھا۔کیا انہیں یہ بھی نہیں معلوم کہ آر ایس ایس کے غنڈے لٹے پٹے قافلوں پر حملوں اور قتل و غارت میں پیش پیش تھے۔گجرات میں2000 مسلمانوں کے خون سے جس شخص کے ہاتھ رنگے ہوں،اقلیتیں جس کے دورِحکومت میں شہریت کے دوسرے تیسرے درجے پر جا پڑی ہوں،مسلمانوں کو جنونی جتھے بیچ بازار ڈنڈے ما ر مار کر ہلاک کرتے ہوں،ایسے شخص کے حکمران ہوتے ہوئے صرف ایک دن نہیں، بھارت کو لگاتار یومِ سیاہ مناتے رہنا چاہیئے۔یہی نہیں،صدیوں کی دانش جس کی مٹی میں گھلی ہے، اس پورے خطے کو ماتم کنا ں ہونا چاہیئے۔