آنسوئوں سے بھیگی متورم آنکھیں‘ استرے سے منڈھا ہوا سر اور جسم پر جگہ جگہ تشدد کے نشانات‘ ڈی ایچ اے ‘ رہبر کی رہائشی‘ ستم رسیدہ اسماء عزیز میڈیا کو اپنے اوپر ظلم کی کہانی سنا رہی تھی۔ وہ اگر اپنی کہانی بہت سارے لفظوں میں نہ بھی بیان کرتی تو اس پر بیتنے والے ظلم کی داستان اس کے چہرے مہرے سے عیاں ہو رہی تھی۔ ان گنت زخموں کے وہ نشان مگر میڈیا دیکھنے سے قاصر تھا جو اپنے شوہر کے ہاتھوں ذلت‘ رسوائی اور جبر سے اس کی روح پر لگے ہوں گے۔ میں سوچتی ہوں کہ کسی بھی سانحے اور جرم کی سنگینی اور حساسیت طے کرنے کے لئے کیا یہ ضروری ہے کہ اس کی بازگشت سوشل میڈیا پر اور میڈیا سنائی دے۔ اور جب تک کسی جرم پر میڈیا دہائیاں نہ دے قانون نافذ کرنے والے ادارے حرکت میں ہی نہیں آتے۔ اسماء عزیز جس پر ظلم کی کہانی اسوقت میڈیا میں وائرل ہو چکی ہے وہ بھی اپنے اوپر ہونے والے ظلم سے تحفظ لینے جب قانون نافذ کرنے والے ادارے میں گئی تو وہاں قانون کے رکھوالوں نے سب سے پہلے اس کی کہانی پر یقین کرنے سے انکار کر دیا، اس کا مذاق اڑایا۔ پھر اس ستم رسیدہ سے کارروائی کرنے کی رشوت طلب کی۔ اس کے بعد ہی اسماء عزیز نے اپنے اوپر ہونے والے ظلم کی کہانی سناتے ہوئے ایک ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر ڈالی۔ سوشل میڈیا صارفین نے اسے شیئر کیا۔ چند ہی گھنٹوں میں اسماء کی یہ ویڈیو وائرل ہو چکی تھی۔ کہانی پھر ٹی وی چینلوں تک پہنچی۔ بریکنگ نیوز‘ سپیشل پیکج بنے۔ تو وزیر اعلیٰ پنجاب اور انسانی حقوق کی وزیر شیریں مزاری نے نوٹس لیا۔ وزیر اعلیٰ پنجاب نے متاثرہ خاتون کو وزیر اعلیٰ ہائوس بلا کر اسے مکمل تعاون کی یقین دہانی کروائی اور متعلقہ تھانے کے جن اہلکاروں نے ستم رسیدہ خاتون کا مذاق اڑایا اور رشوت طلب کی انہیں فوری معطل کر دیا گیا۔ سوال پھر وہی ہے کہ کیا کسی جرم اور سانحے پر قانون اسی وقت حرکت میں آتا ہے جب سوشل میڈیا پر کہرام برپا ہو۔ ٹی وی چینلوں پر خبریں چیخ اٹھیں۔ وزیر اعلیٰ نوٹس لیں اور معطلیاں کریں۔ایسے متاثرین تو چند ایک ہی ہوں گے۔ جن پر ہونے والا ظلم خبروں کی شہ سرخی بنے اور انہیں انتظامیہ کی ایسی توجہ حاصل ہو۔ ان متاثرین کا والی وارث کون ہو گا جو بے آسرا ہیں۔ جن کی کہانیاں سوشل میڈیا پر وائرل نہیں ہوتیں۔ جھجھک اور مصلحت کے کئی تقاضوں کے تحت لوگ ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر ڈالنا پسند نہیں کرتے۔ ایسے بدقسمتوں کو نہ توجہ ملتی ہے نہ انصاف۔ اسماء عزیز صرف ایک عورت تو نہیں اس صوبے میں جس پر ایسا ظلم ڈھایا گیا۔ کئی عورتیں ایسی ہیں جو مصلحت کی چار دیواری کے اندر شوہروں کا ظلم سہتی ہیں۔ سسرال کی ناانصافیاں برداشت کرتی ہیں۔ کبھی جلائی جاتی ہیں۔ کبھی بیٹی پیدا کرنے پر موت کی نیند سلا دی جاتی ہیں۔ کتنی ہی ایسی بدقسمت عورتیں جن کی عزتیں‘ اپنے قریبی رشتوں کے ہاتھوں پامال ہو جاتی ہیں لیکن وہ اس ظلم پر آواز نہیں اٹھا سکتیں۔ آواز اٹھائیں تو سو مصلحتیں آڑے آتی ہیں۔ اور اگر کوئی جرأت کرکے قانون نافذ کرنے والے اداروں تک رسائی حاصل کرے تو پہلے ہی مرحلے پرتعفن زدہ‘ تھانہ کلچر میں پولیس کی وردیوں میں ملبوس مخلوق‘ ایسی بے بس عورتوں کو مزید روندنے اور پامال کرنے میں پیش پیش ہوتی ہے۔ خرابی اور بددیانتی نہ جانے کہاں ہے؟ اور اس کی اصلاح کس طرح سے ہو گی؟ کیسے ہم مردوں کو ’’عورت‘‘ کی عزت کرنا سکھائیں گے؟ مرد رشتوں کی عزت تو کرتا ہے مگر عورت بحیثیت انسان‘اس معاشرے میں محض ایک تماشا ہے۔ حظ اٹھانے اور روند کر گزر جانے والی شے ہے۔ کل ہی ایک دوست نے ایک ویڈیو بھیجی اور ساتھ یہ لکھا کہ اس پر بھی کوئی کالم لکھیں۔ ویڈیو دیکھی تو جیسے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ ایک مظلوم لڑکی باپ کے ہاتھوں عزت پامال ہونے کی کہانی کسی چینل کی اینکر کو روتے ہوئے سنا رہی تھی۔ درندہ صفت باپ پولیس میں کانسٹیبل ہے اور اب اس گھنائونے جرم پر اس کے پیٹی بند بھائی اس کو تحفظ فراہم کر رہے ہیں۔ نتیجتاً متاثرہ لڑکی کی شنوائی نہیں ہو رہی۔ اس سے بڑھ کر اخلاقی گراوٹ اور کیا ہو گی۔ اخلاقیات‘ اقدار‘ رشتوں کے تقدس کا جنازہ نکالنے والا سانحہ ہے، سماج میں ناانصافی اور ظلم کا راج ہے۔ ظالم یہاں دندناتے پھرتے ہیں اور مظلوم اس بدبودار سسٹم کے ہاتھوں اپنی عزت بچاتے پھرتے ہیں۔ ہم عموماً ایسے موضوعات پر کالم نہیں لکھتے جس میں عورتوں پر ظلم کی کہانیاں بیان کی گئیں ہوں۔ آئے روز ایسے واقعات ہوتے رہتے اور ہم ایسی خبریں سننے اور ایسے سانحے دیکھنے کے عادی ہوتے جا رہے ہیں۔ کوئی عورت جلا دی گئی‘ کسی کو بیٹی پیدا کرنے کی پاداش میں طلاق دے دی گئی‘ کسی کا سر مونڈھ دیا گیا‘ کسی کو گھر سے نکال دیا گیا۔ ہم یہ خبریں پڑھتے تو اسے بس روٹین کا کوئی واقعہ سمجھ کر آگے بڑھ جاتے ہیں۔ میرا خیال ہے خرابی یہیں پر ہے۔ سماج کے پورے مائنڈ سیٹ اپ کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ نفسیاتی علاج کی ضرورت صرف ظلم ڈھانے والے مردوں کو نہیں اس پورے سماج کو ہے۔ عورتوں پر ہونے والے ظلم کو ایک روٹین کا واقعہ سمجھ کر نظر انداز کر دیا جاتاہے۔