ہم ہیں پھولوں جیسے بچے ہم ہیں سب کو پیارے اپنے دم سے گھر ہے روشن ہم ہیں آنگن تارے آنگن آنگن تارے میرے پیارے قارئین!مندرجہ بالا مکھڑا بچوں کے ایک رنگ رنگ پروگرام آنگن آنگن تارے۔ کے ٹائٹل سانگ کا ہے جسے آغا ذوالفقار خاں نے پی ٹی وی سے پیش کیا تھا۔ امجد بوبی نے اس کی کمپوزیشن کی تھی اور ارم حسن نے پہلی مرتبہ گایا اور اس کے بعد عمیر ضیا اور حدیقہ کیانی نے بھی اسے دہرایا۔مجھے وہ سب ننھے منے بچے ایک ایک کر کے یاد آ رہے ہیں۔ یہ 1992ء کی بات ہے اب تو وہ بچے بچوں والے ہو چکے ہونگے اور میرے مخاطب بھی وہ ہیں۔اصل میں آج مجھے پولیو آگاہی کے حوالے سے لکھنا ہے کہ اس بیماری کا تعلق انہی پھول جیسے بچوں سے ہے اور ہمیں ان نرم و نازک پھولوں کو محفوظ بنانا ہے۔ یہ نونہال گھر کے آنگن کی رونق ہیں۔ ان کی نگہداشت بڑوں کی ذمہ داری ہے۔ بچوں کے بارے میں شفیق الرحمن نے کہا تھا کہ بچے بہت پیارے ہوتے ہیں بس ان میں ایک ہی خامی ہے کہ وہ بڑے ہو جاتے ہیں۔غفلت ہمیشہ بڑوں ہی سے ہوتی ہے کہ وہ بچوں کو پولیو قطرے پلانا بھول جاتے ہیں یا پھر وہ پراپیگنڈہ کی نذر ہو جاتے ہیں یہ پراپیگنڈا کم علمی یا لاعلمی کے باعث پھیل جاتا ہے۔ حیرت ہوتی ہے کہ پھیلنے والے پولیو وائرس کو عالمی سطح پر سنجیدگی سے لیا جاتا ہے اور یونیسف جیسا عالمی ادارہ، اس ہمیشہ کے لئے بچوں کو مفلوج کر دینے والی بیماری کو جڑ سے ختم کر دینا چاہتا ہے۔ ایسے ہی بے بنیاد باتیں پھیلا دی جاتی ہیں کہ اسلام دشمن اس ویکسین میں وہ کچھ ملاتے ہیں کہ مسلمانوں کی بچے پیدا کرنے کی صلاحیت نہ رہے۔ اب بتائیے ہماری بڑھتی ہوئی آبادی دیکھ کے لگتا ہے کہ کوئی ایسی سازش ہمارے خلاف چل رہی ہے۔ بقول انعام الحق جاوید کا کے یہ کا کا چل رہا ہے۔ اور پھر بچے دو ہی اچھے کا مطلب بھی ہم نے یہ لیا کہ 7یا 8میں سے دو اچھے نکل ہی آئیں گے۔ کوئی ہمارے خلاف سازش نہیں کر رہا اگر ہم پولیو مہم میں رکاوٹ بنتے ہیں تو ہم اپنے ہی خلاف سازش کر رہے ہیں۔ اس بیماری کا علاج بھی تو کوئی نہیں ہے۔ بہرحال اس کے لئے اس کی ویکسی نیشن ہے۔ بچوں کو یوں عمر کی معذوری سے بچایا جا سکتا ہے۔ آپ کے علم میں ہونا چاہیے کہ پولیو دنیا بھر سے ختم ہو چکا ہے اور اس وقت صرف دو ملکوں میں پایا جاتا ہے اور یہ افغانستا ن اور پاکستا ن ہیں۔ دنیا حیرت زدہ ہے کہ ہمارے جیسے ملکوں میں لوگ پولیو کے قطرے پلانے سے کیوں اجتناب کرتے ہیں یہ وائرس منہ کے ذریعے انتڑیوں میں جاتا ہے وہاں نشو نما پاتا ہے اور پھر ہمارے نروس سسٹم پر حملہ آور ہوتا ہے مسلز کمزور ہوتے ہیں یہ برین تک پہنچ کر انہیں متاثرہ مسلز کو برین سے منقطع کر دیتا ہے۔ یہ بات سمجھنے والی ہے کہ وائرس فوراً اثر انداز نہیں ہوتا کہ اسے بدن کی مدافعت کرنے والی قوت کا سامنا ہوتا ہے ظاہر ہے ویکسین اس جنگ میں دفاع میں مدد دیتی ہے ایک خاص بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ ویکسین کا سائیڈ افیکٹ نہیں ہے اگر یہ فائدہ نہ بھی پہنچائے یہ نقصان نہیں پہنچاتی۔یہ دلچسپ پراسس ہے کہ پولیو کا زخمی وائرس جس میں داخل کیا جاتا ہے اور اندر کا مدافعتی نظام ایکش کرتا ہے اور ان زخمی وائرس کو چن چن کر مار دیتے ہیں یہ ایک ایکٹویٹی ہے جسے اس نظام کو پہلے ہی سے اس ایکشن کے لئے تیار کیا جاتا ہے تاکہ ضرورت پڑنے پر یہ اپنے عمل کو دہرا سکیں۔ خاص طور پر اسامہ بن لادن کے حوالے سے یہ بات سامنے آئی کہ امریکہ نے اس کھیل میں حصہ لیا شکیل آفریدی کے ذریعہ ایبٹ آباد میں پولیس کمپین لانچ کی گئی پورے شہر میں قطرے پلانے کے ساتھ سملنگ شروع کی تاکہ اسامہ کے ڈی این اے میچ ہو جائے اس سے لوگوں کے دل کھٹے ہو گئے گوریا امریکہ کی سی آئی اے نے اس کاز کو نقصان پہنچایا لیکن یہ کوئی یہودی چال بھی نہیں ہے۔اس لئے کہ اگر یہ کوئی سازش ہوئی تو باقی مسلمان ممالک میں یہ مرض کیوں ختم ہو گیا وہاں بھی تو پولیو ویکسی نیشن کے باعث ہی ایسا ہوا آپ کو یاد ہو گا کہ بعض علاقوں میں تو پولیو ٹیم پر حملے بھی کئے گئے۔ یہ کم علمی اور جہالت کے علاوہ پروپیگنڈہ کے باعث ہوا۔ اس وقت لوگوں میں شعور بیدار کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں پولیو ٹیموں کے ساتھ مکمل تعاون کرنا چاہیے۔ وہ بے چارے تو سرکار کے ملازم ہیں جو تھوڑی تھوڑی تنخواہوں پر سردی گرمی میں گھر گھر پہنچ کر بچوں کو پولیو کے قطرے پلاتے ہیں تاکہ ان کو معذوری سے محفوظ بنایا جا سکے۔ ڈاکٹرز اس حولے سے آپ گوگائیڈ کر سکتے ہیں کہ یہ ان کا فیلڈ ہے۔ اسی طرح آپ دیکھیے کہ تھیلسیمیا میں بھی ہمیں بتایا جاتا ہے کہ شادی سے پہلے خاص طور پر کزن میریج میں اپنا ٹیسسٹ کروا لیں کہ اگر دونوں طرف سے یعنی لڑکا اور لڑکی کیریئر ہیں تو پھر امکان بڑھ جاتا ہے کہ آنے والا اس بیماری کا شکار ہو جائے گا کہ جہاں خون پیدا نہیں ہو گا ایک بڑا مسئلہ پیدا ہو جائے گا اب ہوتا یہ ہے کہ کسی کو اگر ٹیسٹ کروانے کاکہیں تو وہ اس کو اپنی توہین محسوس کرتا ہے کہ کیا ہمارا بچہ یا بچی بیمار ہے حالانکہ یہ ایک سائنٹیفک معاملہ ہے سمجھدار لوگ ٹیسٹ کروا لیتے ہیں اور مستقبل کی پریشانی سے بچ جاتے ہیں۔ اسی طرح ذہنی بیماری بھی ہے کہ اگر کسی کو مشورہ دیں یا کوئی اس حوالے سے بات کرے تو فوراً پاگل کا لیبل لگا دیا جاتا ہے اور مریض کو ایک نئی الجھن میں ڈال دیا جاتا ہے حالانکہ ذہنی بیماری بھی دوسری بیماریوں کی طرح ہے اور قابل علاج ہے ۔پولیو کی مصیبت یہ ہے کہ قابل علاج نہیں صرف پچھتاوا ہی رہ جاتا ہے کہ اس میں ڈیمیج ہونے والے مسلز ریپئر نہیں ہو سکتے عمر کی محرومی مل جاتی دانشمندی کا ثبوت دینا چاہیے اور اپنے پھولوں جیسے بچوں کو آنے والی بیماری سے محفوظ کرنا چاہیے پہلے چیچک وغیرہ کی ویکسین بھی لگائی جاتی تھی اب بھی بعض کے بائیں بازو پر نشان ہونگے چیچک ختم ہو چکی پولیو کے شواہد بنوں‘ کراچی اور دوسرے علاقوں میں موجود ہیں از بس اس کا شعور ضروری ہے۔