اللہ نے کرم کیا ہے اور روایت یہ ہے کہ کورونا کی شدت میں نمایاں کمی آ رہی ہے ۔ عید الاضحی پر غیر معمولی بے احتیاطی کا مظاہرہ نہ کیا گیا تو ، انشاء اللہ، بہت جلد ہم کورونا سے نجات پا چکے ہوں گے۔کورونا کی بحرانی کیفیت میں اضطراب کا عالم تھا اور دیگر امراض کے علاج پر مناسب توجہ نہ دی جا سکی۔ اس سلسلے میں عوام کافی پریشان بھی رہے کہ دیگر امراض کے شکار مریض کیا کریں۔اب حالات کچھ سنبھل رہے ہیں توامید بندھی ہے کہ معمول کی سرگرمیاں پھر سے شروع ہو جائیں گی۔ معمول کی ان سرگرمیوں میں سے ایک پولیو کے خلاف مہم بھی ہے۔ انسانی صحت اور زندگی سے جڑی کوئی بھی مہم ہو وہ مبارک ہوتی ہے اور اسے کامیاب ہونا چاہیے۔ یہی معاملہ پولیو کی مہم کا بھی ہے۔ اسے کامیاب بنانا ہے تو دو پہلوئوں پر پورے اہتمام اور خلوص سے توجہ دینا ہو گی۔پہلا پہلو انتظامی ہے اور دوسرے پہلو کا تعلق سماج کی فکر اور سوچ سے ہے۔ یہ بات ہمارے مشاہدے کی ہے کہ ہمارے ہی معاشرے کی بہنیں بیٹیاں موسم کی شدت میں بھی گھر گھر پولیو کے قطرے پلانے جاتی ہیں۔پھر ان پر فائرنگ اور ان کے قتل ہو جانے کی خبریں بھی ہماری اجتماعی یادداشت کا حصہ بن چکی ہیں۔ کسی کی بہن بیٹی کے قتل کی دو سطری خبر سے آگے ہمیں کچھ معلوم نہیں ہوتا کہ کیا ہوا۔ کیا معلوم وہ اپنے گھرانے کی واحد کفیل ہو، کسے خبر کن حالات میں مجبور ہو کر وہ اس مہم میں شامل ہوئی ہو اور پھر اس کا لاشہ اس کے گھر گیا ہو۔ یہ انتہائی تکلیف دہ پہلو ہے اور اسے غیر معمولی سنجیدگی سے دیکھا جانا چاہیے۔چند اقدامات میں تجویز کر دیتا ہوں، حکومت چاہے تو ان میں مزید اضافہ کر کے اصلاح احوال کو یقینی بنا سکتی ہے۔ ان رضاکاروںکے معاوضوں میں اضافہ ہونا چاہیے۔ اور ان کی مناسب حفاظت کا بندو بست کیا جانا چاہیے۔اس بات کو یقینی بنایا جانا چاہیے کہ یہ رضاکار کسی حادثے کا شکار نہ ہوں۔ پھر بھی کوئی حادثہ ہو جائے تو پھر انہیں گناہ کی طرح بھلا دینے کی بجائے ان کی لواحقین کی مثالی سرپرستی کی جانی چاہیے۔جو جان سے گزر گیا اسے تو واپس نہیں لایا جا سکتا لیکن اس کے والدین اور بچوں کے سر تو ریاست دست شفقت رکھ ہی سکتی ہے۔ ریاست کے سارے وسائل پر ایک محدود اقلیت کا حق کیوں ہو؟ان پر ہر شہری کا حق ہے۔اور اپنے فرائض کی ادائیگی میں جو جان سے گزر جائے اس کا حق اولین درجے میں ہوتا ہے۔ پولیو مہم میں علامتی طور پر ہی سہی مختلف طبقات کی شمولیت ہونی چاہیے۔ اراکین پارلیمان بھی ایک دن یہ کام کر لیں تو اس کا استحقاق مجروح نہیں ہو گا۔اس طرح کی سوشل سروس کا ہمارے ہاں تصور ہی نہیں ہے۔ اس تصور کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔جب معمولی سے معاوضے پر میدان میں چند رضاکار اتارنے کی بجائے ان رضاکاروں کے ساتھ ملک کے بالادست طبقات سے علامتی طور ہی سہی ، شامل ہو جائیں گے تو گرہیں بھی کھل جائیں گی اور ان بے بس رضاکاروں کی حفاظت کا بندوبست بھی خود بخود ہی ہو جائے گا۔ انتظامی پہلو کے ساتھ دوسرا اہم پہلو فکر کی دنیا کا ہے۔ پولیو ویکسین کے ساتھ بہت سا سینہ گزٹ جڑ چکا ہے۔اس نے ایک خاص فکر اور نفسیات تشکیل دے دی ہے۔ اسے مخاطب بنائے بغیر یہ گرہ کھلنے میں مسائل رہیں گے۔پولیو مہم کی کامیابی کے لیے ضروری ہے اسے فکری سطح پر بھی دیکھا جائے۔سازشی تھیوری کا تو شاید کسی کے پاس کوئی حل نہ ہو لیکن جن سوالات کا تعلق سازشی تھیوری کی بجائے میڈیکل سائنس سے ہے ان کا نہ صرف مدلل اور معقول جواب دیا جانا چاہیے بلکہ اس کی مناسب تشہیر بھی ہونی چاہیے تا کہ کسی بھی سطح پر کوئی الجھن موجود ہے تو وہ دور ہو جائے۔ جیسے یہ سوال پوچھا جاتا ہے کہ شروع میں تو پولیو ویکسین کا ایک مخصوص دورانیہ تھا تو اب یہ کیوں کہا جاتا ہے کہ ہر بچہ ہر بار۔ والدین طبی نکتہ نظر جاننا چاہتے ہیں کہ کیا ہر بچہ ہر بار کا فارمولا ویکسی نیشن کے سائنسی اصول کے مطابق ہے ؟ اب یہ وہ سوال ہے جس کا تعلق سازشی تھیوری سے نہیں ، میڈیکل سائنس سے ہے۔ اس کو پوری دردمندی سے مخاطب بنانا چاہیے۔ کوئی بھی معاملہ ہو ، سوال کا اٹھنا ایک فطری امر ہوتا ہے۔ جو سوالات کسی شر پسندی کی بجائے معقولیت اور درد مندی سے اٹھائے جا رہے ہوں اور ان کی شان نزول کی معقول توجیح ممکن ہو ان کا جواب دیا جانا چاہیے۔ آپ جتنے بھر پور اور معقول انداز سے یہ جواب دیں گے اور پھر اس کا ابلاغ کریں گے ، سماج کی فکری گرہیں اتنی ہی تیزی سے کھلتی جائیں گی۔ریاست کے پاس ابلاغ کی بہت بڑی قوت ہوتی ہے۔ آپ طے کر لیجیے کہ کن علاقوں میں کیا مسائل آ رہے ہیں۔ کہاں کہاں گرہیں موجود ہیں۔ پھر دیکھ لیجیے کہ کون سی گرہ کا تعلق میڈیکل سائنس سے ہے اور کون سی گرہ کا تعلق کسی اور معاملے سے ہے۔ جو گرہ جیسے کھل سکتی ہو ، اسے اسی شعبے کے ماہرین سے کھلوایا جانا چاہیے۔ دلیل کے ساتھ۔مثال کے طور پر اگر سوال طبی نکتہ نظر سے اٹھ رہا ہے تو شعبہ طب کے ماہرین سامنے آ کر ان کو مدلل جواب دیں اور اگر اس کی شان نزول روایتی مذہبی فکر میں ہے تو اہل مذہب سامنے آئیں۔ ماضی میں ہم دیکھ چکے کہ مولانا سمیع الحق صاحب نے بچوں کو ویکسین پلائی تو اس سے بہت سی گرہیں کھل گئیں۔ پولیو مہم کو کامیاب ہونا چاہیے ۔لیکن یہ محض انتظامی تحرک سے کامیاب نہیں ہو گی۔ اس کی کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ معاملے کے فکری پہلو کو بھی مخاطب بنایا جائے تا کہ ابہام کی کوئی گنجائش باقی نہ رہے اور بچوں کو پولیو سے مکمل طور پر بچایا جا سکے۔