محکمہ ریونیو کےپٹواری کلچراور پولیس کے 

تھانہ کلچر کی تبدیلی کا ہر حکمران نے وعدہ کیا

انور حسین سمرائی

پنجاب میں ہر سیاسی حکومت نے دو محکموں میں اصلاحات لانے اور عوام کو براہ راست ریلیف فراہم کرنے کا وعدہ کیا اور بظاہر کوششیں بھی کیں کیونکہ عوام کے 70فی صد افراد کو ان محکموں سے زندگی میں کسی نہ کسی موڑ پر واسط پڑتا ہے۔ ان دومحکموں میں اثرورسوخ سے کسی بھی شخص کی چوہدراہٹ قائم کرنے اور معاشرے میں سماجی قد کاٹ کو بڑھانے میں مدد مل جاتی ہے۔ یہ دونوں محکمے عوام کے مسائل حل کرکے نیکی کمانے کے ساتھ ساتھ معاشرے میں عزت پانے میں کامیاب ہوسکتے تھے لیکن بدعنوانی، ظلم ، سفارش ، سیاسی وابستگی او رتشدد کی وجہ سے آج تک عوام میں نفرت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔ان محکموں میںایک محکمہ ریونیو ہے جس کا پٹواری کلچراور دوسرا پولیس جس کے تھانے کلچر کی تبدیلی کا ہر حکمران نے وعدہ کیا کہ ان میں کرپشن، اختیارات کے ناجائز استعمال، جرائم میں معاونت اور تشدد کو ختم کیا جائے گا۔ صوبے میں پٹوار کلچرکے خاتمے کے لئے ورلڈ بنک کی مالیاتی و تکنیکی معاونت سے کمپیوٹرائزیشن آف لینڈ ریکارڈ کا منصوبہ شروع کیا گیا، صوبہ بھر میں 152 لینڈ ریکارڈ سنٹرز قائم کیے گئے لیکن ان میں نئے بھرتی ہونے والے اہلکاروں نے پٹواری کی کرپشن اور اختیارات کے ناجائز استعمال کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔ بدقسمتی سے آج  محکمہ انسداد رشوت ستانی میں پٹواریوں سے زائد لینڈ ریکارڈ سنٹرز کے اہلکاروں پر کرپشن کے مقدمات ہیں۔ پولیس کے تھانہ کلچرل کو تبدیلی کی گونج بہت پرانی ہے ہر حکمران نے اعلان کیا کہ وہ اس پولیس کو روایتی پولیس سے ایک عوام دوست فورس بنا کر معاشرے میں جرائم کا خاتمہ کرے گی، کوششیں کی گئی، اربوںکے فنڈز استعمال کیے گئے لیکن اخلاص نہ ہونے کی وجہ سے مطلوبہ نتائج آج تک حاصل نہ ہوسکے۔ شہباز شریف نے 90کی دہائی میں صوبے میں تھانہ کلچر ل کے خاتمے کے لئے دو دفعہ براہ راست 90اعلی تعلیم یافتہ نوجوانوں کو بطور انسپکٹر بھرتی کرکے ایس ایچ او لگانے کا تجربہ کیا۔ ان پولیس افسران کو صاف ستھرے ماحول میں جدید تربیت دی گئی لیکن روائتی کرپٹ سسٹم ، پروموشن کی فقدان، سفارش کلچرل ، سیاسی مداخلت اور مناسب سروس سٹرکچر نہ ہونے کی وجہ سے 50فی صد نوکری چھوڑ گئے کیونکہ ان کی حوصلہ شکنی کی جاتی تھی اور باقی کرپٹ اور ظالم سسٹم کا حصہ بن کر کرپٹ اور بندے مار پولیس افسران بن گئے۔ ماضی میں تھانہ کلچر کی تبدیلی اور جرائم پر قابو پانے کے لئے سابق آئی جی شعیب سڈل نے کراچی میں آزمائشی بنیادوں پر اے ایس پیز کو ایس ایچ او لگایا جبکہ سابق صدر مشرف کے دور میں اسلا م آباد میں اے ایس پیز کو ایس ایچ او تعینات کیا گیا اور مقابلے کے امتحان میں 60 اے ایس پیز کو بھرتی کیا گیا تاکہ وفاقی دارالحکومت کے بعد صوبوں میں اس تجربے کو لاگو گیا جاسکے لیکن مجموعی طور پر مطلوبہ نتائج حاصل نہ ہوسکے اور یہ منصوبہ بھی اپنی موت مرگیا لیکن پولیس کے فنڈز میں بے تحاشا اضافہ کرگیا۔ چوہدری پرویز الہی جب پنجاب کے وزیر اعلی تھے تو اس وقت کے آئی جی پنجاب ضیاالحسن نے لاہور میں تمام تھانوں پر اے ایس پیز و ڈی ایس پیز کو بطو رسپروائزری افسر(ایس پی او) تعینات کیا تھا لیکن یہ تجربہ بھی ناکام ہوا اور جرائم گراف میں کمی بھی نہ آئی اور پولیس عوام دوست فورس بھی نہ بن سکی کیونکہ اے ایس پیز تجربے کے فقدان کی وجہ سے جرائم کی روک تھام میں ناکام رہے اور تھانے کی سطع پر تعیناتی سے بددل بھی ہوئے جبکہ ڈی ایس پیز کیونکہ اسی تھانہ کلچر کا حصہ تھے جب کی وجہ سے وہ مطلوبہ پراگرس نہ دے سکے بلکہ ایس ایچ اوز اور ڈی ایس پیز کے درمیان اختیارات اور منتھلی کی تقسیم کی ایک نئی جنگ چھڑ گئی جس سے کرپشن کے ریٹس بھی بڑھ گئے اور کارکردگی کا گراف گرگیا۔

 ہمارے ہاں پولیس افسران میں وژن کی کمی کی وجہ سے نیشنل پولیس پلان کبھی بھی مرتب نہیں کیا گیا جس میں اہداف رکھے جائیں کہ پولیس کی پرفارمنس کو کیسے بہتر کیا جاسکے۔ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے الیکشن مہم کے دوران پنجاب پولیس کے سیاسی ہونے اور حکمرانوں کا غلام بن کر سیاسی مقاصد کے لئے استعمال ہونے پر بہت سخت تنقید کی اور عوام سے وعدہ کیا کہ وہ ظالم پولیس افسران کو جیلوں میں ڈالیں گے اور پولیس کلچر کو ٹھیک کریں گے تاکہ عوام میں پولیس کا مورال بہتر ہو اور سیاسی قیادت اس کو اپنے سکور سیٹل کروانے کے لئے استعمال نہ کرسکے۔ وزیر اعظم پاکستان عمران خان کی ہدایات پرپنجاب میں تھانہ کلچر کی تبدیلی ، جعلی پولیس مقابلوں کے خاتمے، کرپشن پر قابو پانے، جرائم پیشہ اورکرپٹ پولیس افسران سے جان چھڑوانے، پولیس کو عوام دوست فورس بنانے اور پولیس کو سیاسی مقاصد کے استعمال کے خاتمے کے لئے تبدیلی سرکار نے عملی اقدامات کرنے کا بار بار عندیہ دیا اور مختلف منصوبہ بنائے گئے۔پولیس کی کارکردگی کو بہتر کرنے کے لئے ایک دفعہ پھر ڈی ایس پیز و اے ایس پیز کو ایس ایچ او لگانے کے ناکام تجربے کی بازگشت سنائی دےرہی ہے جبکہ پولیس کو ضلعی سطح پر ڈپٹی کمشنر کے ماتحت کرنے کا فیصلہ بھی کیا گیا ہے ۔ صوبے میں تھانوں کی تعداد 713جبکہ پولیس فورس میں ڈی ایس پیز کی تعداد 638اور اے ایس پیز کی تعداد 65ہے۔اب اگر ڈی ایس پیز اور اے ایس پیز کو تمام تھانوں میں ایس ایچ او لگایا گیا تو پھر وہی اے ایس پیز جو پہلے بھی اس تجربے میں بددل ہوئے تھے کارکردگی نہ دکھا سکیں گے جبکہ ڈی ایس پیز جو ایسی تھانہ کلچر کی پیداوار ہیں بھی پرانی شراب نئی بوتل کے مصداق ہوںگے۔ 

 پولیس کو ڈپٹی کمشنر کی ماتحتی میں دینے سے پولیس اور سول انتظامیہ کے درمیان اختیارات کی نئی جنگ شروع ہوجائے گی کیونکہ سول افسران17سال قبل آئینی ترامیم کے نتیجے میں چھوڑے گئے ایگزیکٹو و جوڈیشنل اختیارات واپس لینے کے لئے بے تاب ہیں جس سے جرائم پر قابو پانا، عوام کو ریلیف دینا اور پولیس ذیادتیوں کے ازالے کو ڈھال بنایا جارہا ہے جو پولیس کمانڈ کو قعطی قبول نہ ہوگا۔ صوبے میں پولیس اصلاحات لانے سے قبل وفاقی و صوبائی سیاسی قیادت کو حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے اہم اور دواندیشی سے فیصلے کرنے کی ضرورت ہے۔ تھانے میں نفری کی تعیناتی کا فارمولہ پولیس رولز 1934 کے مطابق 450 افراد کی آبادی کے لئے ایک پولیس افسر ہے جسے 90سال بعد بھی تبدیل نہیں کیا گیا جبکہ موجود آبادی کے تناسب سے ایک پولیس افسر 1200کی آبادی کے لئے مختص ہے۔ اس وقت پنجاب پولیس کی کل نفری 191215ہے ۔ پولیس ریکارڈ کے مطابق اس نفری میں سے 30فی صد نفری اعلٰی سیاسی افراد، بیورکریٹس، پولیس افسران، جج صاحبان اور غیر ملکی افراد کی حفاظت کے لئے ان کے ساتھ، گھروں اور فارم ہائوسز پر تعینات ہیں۔ پولیس افسران کے گھروں میں بھی کافی بڑی تعداد میں پولیس اہلکار گھریلوں کاموں کی انجام دہی کے لئے  تعینات ہیں۔  

سابق آئی جی طارق سیلم ڈوگر نے بتایا کہ موجود ہ دور سپشلائزیشن کا دور ہے جس میں پولیس کمانڈ کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ سول بیور کریٹس ارباب اختیار کے قریب ہوتے ہیں اور ان کو غلط مشورے دیتے ہیں جن میں یہ مشورہ بھی ہے کہ پولیس کو دوبارہ ڈپٹی کمشنر کے ماتحت کردیا جائے۔ انہوں نے سوال کیا کہ کیا ڈپٹی کمشنر کے ماتحت ریونیو اور پٹواری کلچر ٹھیک ہوگیا ہے ؟کیا پولیس کے علاوہ جو محکمے ان کے ماتحت ہیں وہ ٹھیک کام کرکے عوام کو ریلیف دے رہے ہیں؟ جو پولیس بھی دوبارہ ان کے ماتحت کردی جائے۔ یہ بیورکریٹس اپنے جعلی وقار اور اختیارات کو انجوائے کرنے کے لئے یہ تجویز دے رہے ہیں جبکہ اس میں مفاد عامہ کی کوئی بات نہیں۔ نئی تجاویز قابل عمل نہیں بلکہ یہ محاز آرائی کو دعوت دے گی۔ ماضی میں بھی سول بیورکریسی کی طرف سے ایسے حملے کیے گئے ہیں۔پولیس کو سیاسی مداخلت سے پاک ، پوسٹنگ ٹینور کی یقین دہانی، محکمانہ احتسابی عمل کو شفاف بنا کر اور ورکنگ ماحول کو بہتر بنا کر ٹھیک کیا جاسکتا ہے۔ پولیس ایک فورس ہے اور فورس سول اداروں کے ماتحت کام نہیں کرسکتی۔ پولیس میں پولیس آرڈر 2002کے تحت پبلک سیفٹی کمیشن بنا کر ٹھیک کیا جاسکتا ہے۔

انسپکٹر جنرل کے دفتر کو بااختیار، آزاد اور سیاسی مداخلت سے پاک کرکے صوبے میں پولیس کلچر تبدیل کیا جاسکتا ہے۔

مختلف سینئر پولیس افسران کی رائے ہے کہ پنجاب میں تھانہ کلچر کی تبدیلی اے ایس پی/ڈی ایس پی کو ایس ایچ او لگانے اور پولیس کو ڈپٹی کمشنر کے ماتحت کرکے نہیں بلکہ پولیس میں سیاسی مداخلت ختم کرنے،تقرر و تبادلے میرٹ پر کرنے، سفارش کے خاتمے ،جدید تربیت دینے، اخلاقیات کانفاذ کرنے، بے لاگ اندرونی احتساب لاگو کرنے،اوقات کار مختص کرنے اور ورکنگ ماحول کو بہتر کرنے سے ممکن ہے ۔ پولیس میں ہرسال 15سے20ہزار پولیس افسران مختلف عہدوں پر نئے بھرتی کیے جاتے ہیں جن کو اعلٰی تربیت دے کر پائلٹ پراجیکٹ کے طور پر چھوٹے اضلاع میں پرانی تمام نفری کو فارغ کرکے، ان کی جگہ تعینات کرکے مطلوبہ نتائج حاصل کیے جاسکتے ہیں کیونکہ پرانے پولیس ملازمین عام طور پر کرپٹ اور جرائم پیشہ افراد سے تعلق رکھنے کی وجہ سے چند نئے آنے والے پولیس اہلکاروں کو اپنے رنگ میں رنگ لیتے ہیں۔ چھوٹے اضلاع میں کل نفری 700سے 1000کے درمیان ہوتی ہے اس طرح ایک فیز میں چھ سے سات اضلاع کی مکمل نفری کو تبدیل کرکے نئے خون اور تربیت یافتہ ہیومین ریسورس سے بہتر نتائج لئے جاسکتے ہیں۔ پولیس کے کرپٹ، بدعنوان، جرائم میں ملوث پولیس افسران کا آڈٹ کروایا جائے جو نوکری کے دوران دو دفعہ سے زائد سنگین الزامات پر معطل ہوچکے ہوں۔جن پر کرپشن ، غلط مقدمات درج کرنے اور بے گناہ افراد کو جعلی پولیس مقابلوں یا دوران تفتیش تشدد سے مارنے کا مقدمہ درج ہوچکا ہو یا کسی سنگین الزام پر محکمے سے برخاست ہوئے ہوں۔ان کو فوری طور پر محکمے سے برخاست کرکے چھٹکارا حاصل کرنے سے بھی پولیس کے احتسابی عمل کو لاگو کیا جاسکتا ہے ۔ پنجاب حکومت نے پولیس افسران کی شہرت کو جانچنے کے لئے ڈیرہ غازی خان ڈویژن میں جو احتسابی عمل شروع کیااسے سارے ملک میں لاگو کرنا چاہیے۔اس میںچھ ایس ایچ او ز سمیت 73پولیس افسران منشیاف فروشی، قحبہ خانے اور جوئے کے اڈے چلانے میں ملوث ہونے پر فوری طور پر فارغ کیا گیا۔حکومت کو پولیس میں جدید اور قابل عمل سسٹم کو متعارف کروانا ہوگاکیونکہ ہماری سیاسی قیادت بدنیت ہے اور پولیس قیادت نااہل جس کی وجہ سے اخیتارات کی جنگ ایک بار پھر شروع ہوگئی ہے۔ 

پولیس میں تفتیش کے عمل کو جدید خطوط پر استوار کرکے تشدد سے ہلاکتوں پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ پولیس افسران کو جدید تفتیش کے کورس کروانے ہونگے اور تفتیش کے عمل میں فرانزک سائنس کی مدد لینا ہوگی۔ نئے بھرتی ہونے والے پولیس اہلکاروں کی تربیت میں بھی مناسب ماحول کے ساتھ ساتھ بہتر خوراک،اعلی رہائشی سہولیات، جدید نصاب اور اخلاقیات کو ترجیح دی جائے کیونکہ مشاہدے میں آیا ہے کہ نیابھرتی ہونے والے اہلکار تربیت کے بعد تعیناتی کے وقت ناجائز اسلحہ رکھنا، چوری کی موٹر سائیکل استعمال کرنا، شراب پینا، جوئے کے اڈے میں حصہ داری رکھنا اور قحبہ خانوں میں حاضر رہنا اپنا حق سمجھتا ہے ۔یہ عادات شاید اس نے بھرتی ہونے کے بعد تربیت کے دوران اپنائی ہوتی ہیں جس سے محکمے کی نیک نامی مزید خراب ہوتی ہے۔ پولیس کلچر  کی تبدیلی کے لئے حکومت کو اصلاحات کے ساتھ فنڈز کی فراہمی کو بھی یقینی بنانا ہوگا جبکہ پولیس کی کمانڈ کے لئے نڈر، بیباک اور اچھی شہرت کا حامل کمانڈر جس کو اپنی پوسٹنگ جانے کا ڈر نہ ہو تعینات کرکے اور سیاسی مداخلت سے پاک کرکے بہتر نتائج لیے جاسکتے ہیں۔