کچھ کام وزیراعظم عمران خان اس لئے نہیں کرپارہے کہ ارکان ِاسمبلی ناراض نہ ہوجائیں اور کچھ کام بیوروکریسی نہیں کرنے دے رہی۔ وزیراعظم افسروں کے استعفوںکی پرواہ کیے بغیر پولیس میں جواصلاحات کرنا چاہتے ہیں کرگزریں۔اس کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ پنجاب پولیس میڈیا اور عوام میںمعمول سے زیادہ ہدف ملامت بنی ہوئی ہے۔ حالیہ دنوں میںپے در پے بچوں کے اغوا اور ان سے جنسی زیادتی کے بعد موت کے گھاٹ اتاردینے کے واقعات ہوئے۔ پولیس کی حراست میں ملزمان کی مبینہ تشدد کے باعث متعدد اموات ہوئیں۔ عوامی دبائو کے پیش نظر وزیراعظم نے ایک کمیٹی بنا دی جس نے پولیس کی نگرانی کو موثر بنانے کے لیے اسکو ڈپٹی کمشنروں کے ماتحت کرنے کی سفارش کردی جیسا کہ برسوں پہلے ہُوا کرتا تھا۔ پنجاب کے سینئر پولیس افسران اِس پر خفا ہیں‘ استعفوں کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ پولیس اور ڈپٹی کمشنرزکا یہ جھگڑا بہت پرانا ہے۔ پولیس سروس آف پاکستان (پی ایس پی)کے افسران پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس (پی اے ایس) سے تعلق رکھنے والے ڈپٹی کمشنروں اور اسسٹنٹ کمشنروں کی نگرانی قبول کرنے کو تیار نہیں۔ چند سال پہلے اس وقت وزیراعلی پنجاب شہباز شریف نے بھی پولیس کو ڈپٹی کمشنروں کی نگرانی میں دینے کا فیصلہ صرف اسلئے واپس لے لیا تھا کہ پولیس افسران نے اسے ماننے سے انکار کردیا تھا۔ حالانکہ شہباز شریف ایک طاقتور وزیراعلی سمجھے جاتے تھے لیکن پولیس اسٹیبلشمنٹ کے سامنے وہ بھی بھیگی بلی بن گئے۔ بنتے بھی کیوں نہیں؟ پولیس ہی تو ان کے اور ہر حکمران کے اچھے برے‘ جائز ناجائز کام کرتی ہے۔ اسی کے بل پر تو ہمارے حکمران اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہیں اور اپنی چودھراہٹ قائم رکھتے ہیں۔ وہ سیاستدان جو پولیس کے دست نگر ہوں اس کے احتساب کا کوئی بھی نظام کیسے بنا سکتے ہیں؟ اسی وجہ سے تو جنرل پرویز مشرف کے دور میں لایا گیا پولیس آرڈر ناکام ہوا تھا کہ اس کے مطابق پولیس کی نگرانی کیلیے دو ادارے پبلک سیفٹی کمیشن اور پولیس کمپلینٹ اتھارٹی تشکیل دیے جانے تھے لیکن بننے نہیں دیے گئے۔ پاک فوج کے بعد پولیس ملک کا طاقتور ترین ادارہ ہے۔ حکمران اس کے ذریعے ہی عوام کو کنٹرول کرتے ہیں۔ اس ادارہ کو چھیڑنا کسی عام سیاستدان کے بس کی بات نہیں۔ دو ہی طریقوں سے پولیس کے نظام میں تبدیلیاں اور اصلاحات کی جاسکتی ہیں۔ ایک طریقہ تو یہ ہے کہ پولیس اسٹیبلشمنٹ سے زیادہ طاقتور ریاستی ادارہ اس کا کنٹرول سنبھال لے اور پولیس افسروں کی مزاحمت کی پرواہ کیے بغیر اس میں تبدیلیاں نافذ کردے۔ ملک کے موجودہ آئین اور قانون کے مطابق یہ ممکن نہیں۔ مارشل لاء ادوار میں اس طرف توجہ نہیں دی گئی۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ ملک میں ایک انقلابی سیاسی جماعت اقتدار سنبھالے اور پولیس کو بدل کر رکھ دے۔ اس وقت ملک میں کسی انقلابی سیاسی جماعت کا کوئی وجود نہیں۔ اس میں نام نہاد الیکٹ ایبلز کی بھرمار ہے۔ یہ لوگ حکومت کو کبھی اس بات کی اجازت نہیں دیں گے کہ پولیس کو غیرسیاسی‘ پروفیشنل اور عوام دوست بنایا جائے جیسا کہ عمران خان دعوے کیا کرتے تھے۔ اگر ایسی کوئی کوشش کی گئی تو یہ سیاستدان حکومت کے خلاف بغاوت کردیں گے اور کسی نہ کسی بہانے پنجاب میں حکومت بدلنے کی تحریک عدم اعتماد لے آئیں گے۔ عمران خان کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں۔ پارلیمان میں ان کی دو تہائی اکثریت نہیں کہ وہ دستور میں تبدیلی کرسکیں۔ سینٹ میں ان کی اکثریت نہیں کہ وہ کوئی قانون بھی بدل سکیں۔ ان حالات میں وہ انتظامی اقدامات ہی سے پولیس کی کارکردگی میں کچھ بہتری لانے کی کوشش کرسکتے ہیں۔ اس وجہ سے انہوں نے پولیس پر ڈپٹی کمشنروں کی نگرانی بڑھانے کی منظوری دی لیکن پولیس افسران اسے ماننے کیلیے تیار نہیں۔ پولیس کا بیشتر کام ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس (ڈی ایس پی) کے عہدہ تک کے افسران تک مکمل ہوجاتا ہے۔ نگرانی اور رابطہ کاری کیلیے کچھ کام ایس پی کی سطح پرکیا جاتا ہے۔ اس کے اوپر جتنے عہدے ہیں و ہ فالتو اور قومی خزانہ پر بوجھ ہیں۔ پولیس کا بیس فیصد بجٹ یہ ہڑپ کرجاتے ہیں لیکن کرتے کراتے کچھ نہیں۔ ایک ایک بڑے افسر کے پاس چار چار‘ پانچ پانچ سرکاری گاڑیاں ہیں۔ ماتحت پولیس اہلکار خدمت گاروں کی فوج ظفر موج ہے۔ ہر سال لاکھوں روپے کا صوابدیدی فنڈ ہے جو ان کے ذاتی اخراجات میں صرف ہوتا ہے۔ ان افسروں کی پوسٹیں روز بروز بڑھتی جارہی ہیں اور کارکردگی صفر ہے۔ آج سے تیس برس پہلے جب میں نے صحافت اور رپورٹنگ شروع کی تو پنجاب میں بیس گریڈ کے صرف دو ایڈیشنل انسپکٹر جنرل ہوتے تھے۔ آج درجن بھر سے زیادہ ہیں‘ وہ بھی اکیس گریڈ میں۔ پنجاب میں پولیس کے سربراہ انسپکٹر جنرل کے دفتر میں جن پوسٹوں پر انیس گریڈ کے افسر انسپکٹر جنرل کی معاونت کرتے تھے ۔اب ان عہدوں پربیس‘ اکیس گریڈ کے افسرکام کررہے ہیں۔ سینئر پولیس افسران کی ایک ذمہ داری تھانوں اور فیلڈ میں پولیس کی نگرانی کرنا ہوا کرتا تھا۔ اب یہ افسران اپنے پُر تعیش دفتروں سے باہر جانا پسند نہیں کرتے ۔ برسوں گزر جاتے ہیں تھانوں کا انسپکشن نہیں کیا جاتا۔ ان تھانوںمیں تشدد اور جرائم نہیں پنپیں گے تو اور کیا ہوگا؟ جو ایماندار اور غیرجانبدار پولیس افسران ہیں اکثر اچھی پوسٹنگ سے محروم ‘ کھڈے لائن لگے رہتے ہیں۔اچھے عہدے انہیں ملتے ہیں جو سیاستدانوں اور بڑے کاروباری افراد کے ساتھ گٹھ جوڑ کرتے ہیں۔ بیشتر افسران سروس شروع کرتے ہوئے نچلے متوسط طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں لیکن یہ جب ریٹائر ہوتے ہیں توکروڑ پتی‘ ارب پتی بن چکے ہوتے ہیں۔ اِن پولیس افسروںسے یہ توقع کرنا کہ وہ اپنی نگرانی اور احتساب کا کوئی نظام قائم ہونے دیں گے حد رجہ سادگی ہے۔ وزیراعظم کو پولیس افسروں کی بلیک میلنگ میں آنے کی ضرورت نہیں۔ سو دوسو بڑے پولیس افسروں کے استعفوں سے پولیس کے نظام میں کوئی بگاڑ نہیں آئے گا بلکہ اخراجات کم ہونگے۔پولیس کے کئی بڑے عہدے ختم ہی کردیے جائیں تو زیادہ بہتر ہے۔ بچت کی یہ رقم تھانوں کو بہتر بنانے میں استعمال کی جائے توعوام کا زیادہ فائدہ ہوگا۔پولیس کو بہتر بنانے کی خاطرپی ایس پی افسروں سے زیادہ اسسٹنٹ سب انسپکٹروں ‘ سب انسپکٹروںاور انسپکٹروں کی تعداد بڑھانے ‘اُن کی تربیت کا معیار‘ کام کاج کا ماحول اور ملازمت کی شرائط بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ یہ جونئیر افسران ہی اصل میں پولیس کاکام کرتے ہیں اور اِن سے عوام کابراہ راست واسطہ پڑتا ہے۔