اس ملک میں بڑے بڑے پاٹے خان حُکمران آئے‘ لیکن پولیس کے محکمہ کو سیدھا نہ کرسکے۔ بلکہ مرض بڑھتا گیا جُوں جُوں دوا کی۔عوام کی خواہشات کے مطابق بہتری آتی بھی کیسے؟ اس ظالم پولیس ہی کے سہارے تو صاحبانِ اقتدار کا سِکّہ چلتا ہے۔ پنجاب پولیس کی زیادتیوں اور ُپر تشدد‘ طریقے استعمال کرنے پر میڈیا میں شور برپا ہے۔گزشتہ دنوں تین چار واقعات میں چند ملزم پولیس کی تحویل میں ہلاک ہوگئے۔ الزام ہے کہ پولیس نے انہیں بہیمانہ تشدد کرکے مار ڈالا۔ رحیم یار خان میں اے ٹی ایم مشین توڑ کر روپے چُرانے والا صلاح الدین ہو یا لاہور کینٹ میں چوری کا ملزم مالی عامر مسیح یا لاہور کا امجد جو منشیات فروشی کے الزام میں میں پولیس کے ایک نجی ٹارچر سیل میں زیرِحراست تھا۔ میڈیا میں مطالبہ کیا جارہا ہے کہ سزا کے طور پر پولیس کے موجودہ اعلی افسران کو اُنکے عہدوں سے ہٹایا جائے۔ حکومت پر تنقید کی جارہی ہے کہ تحریک انصاف نے اقتدار میں آنے سے پہلے پولیس اصلاحات کے بڑے بڑے وعدے کیے تھے لیکن گزشتہ ایک سال میں کوئی عملی کام نہیں کیا۔ ہر خاص و عام جانتا ہے کہ پولیس عام لوگوں پر ہمیشہ سے تشدد کرتی آئی ہے۔ جو غریب‘ سفید پوش آدمی پولیس کے رُوبرو ہوتا ہے اس کی عزتِ نفس محفوظ رہنا دشوار ہے۔ پولیس کا موجودہ نظام انگریزوں نے بنایا اس طرح تھا کہ یہ لوگوں کو جبر و تشدد سے دبا کر انکا مطیع بنائے رکھے۔ آزادی ملنے کے بعد اس نظام میں وقتاً فوقتاً معمولی ترامیم کی گئیں لیکن بنیادی نظام اب بھی وہی ہے۔ پہلے پولیس انگریز حکمرانوں کی ضروریات پوری کرتی تھی‘ اب پاکستان کی اشرافیہ ‘ طبقہ امراکی نوکری کرتی ہے۔ عوام کی خدمت کبھی اسکا مقصد نہیں رہا۔ عوام اور پولیس کے درمیان کبھی اعتماد کا رشتہ بن نہیں سکا۔ البتہ اس ادارہ کا اربوں روپے کا خرچ عوام سے نچوڑے گئے ٹیکسوں سے پورا کیاجاتا ہے۔ انگریز دور میں پولیس پر ایک طرح سے روک ٹوک کا نظام موجود تھا۔ پولیس فورس کو ضلعی ڈپٹی کمشنر کے کنٹرول میں رکھا گیا تھا۔ ہمارے حکمرانوں نے ڈپٹی کمشنر کی نگرانی ختم کردی۔ جنرل مشرف کے دور میں کہا گیا کہ پولیس کی نگرانی ضلع اور صوبہ کی سطح پر پبلک سیفٹی کمیشن اور پولیس کمپلینٹ اتھارٹی کرے گی۔ لیکن پولیس افسران اور منتخب ارکانِ اسمبلی نے مل جل کر یہ ادارے بننے نہیں دیے۔ ڈپٹی کمشنر کی خبر گیری بھی ختم ہوگئی اور احتساب کے نئے ادارے بھی نہیں بن سکے۔ اب پولیس حکومت میں شامل سیاستدانوں کے ہاتھوں میں کھلونا بن چکی ہے۔ قومی اور صوبائی اسمبلی کے ارکان کی سفارش پر پولیس افسران اور اہلکار تعینات ہوتے ہیں‘ انکے تبادلے کیے جاتے ہیں۔ تفتیشیں ایک افسر سے دوسرے افسر کو منتقل کی جاتی ہیں۔ جب بھی پولیس میں عوام کے مفاد میں تبدیلی لانے کی کوشش کی جاتی ہے ارکانِ اسمبلی مزاحمت کرتے ہیں۔ غریب اور سفید پوش لوگوں کیلیے پولیس کے پاس صرف ذلت و خواری ہے جس کا ایک ادنیٰ مظاہرہ حال ہی میں ہم نے دیکھا کہ کس طرح آئی جی پولیس کے دفتر کے باہر ایک پولیس اہلکار نے بوڑھی عورت کی تذلیل کی۔ اگر کسی بااثر آدمی کے ہاں کوئی چوری یا ڈکیتی ہوجائے تو پولیس کے تفتیشی اہلکاروں پر ملزم پکڑنے اورمال برآمد کرانے کیلیے اتنا دباو ڈالا جاتا ہے کہ پولیس مشکوک افراد پر تشدد کرکے بعض اوقات انہیں مار ہی ڈالتی ہے جیسے لاہور کینٹ میں عامر مسیح کو مارا گیا کیونکہ چوری کی واردات کا مدعی ایک بڑا ریٹائرڈ افسر تھا۔ کچھ عرصہ پہلے تھانوں میں سی سی ٹی وی کیمرے لگائے گئے تاکہ پولیس تشدد ریکارڈ پر آجائے‘ اس ڈر سے پولیس اہلکار تشدد نہ کرسکیں۔ لیکن اس کا توڑ یہ نکالا گیا کہ لاہور میں تھانیداروں نے نجی مکانات میں اذیت خانے بنالیے۔ ہماری پولیس ٹارچر کے بغیر نتائج نہیں دے سکتی کیونکہ یہ سائنسی بنیادوں پر تفتیش نہیں کرسکتی۔ تفتیشی عملہ بھی بہت کم ہے‘ کام کا بوجھ زیادہ ہے۔ تفتیشی اہلکاروں کے پاس نہ سورای ہے‘ نہ ایندھن کی رقم‘ نہ کھانے پینے کا خرچ۔ یہ اہلکار تشدد کے ذریعے ہی اپنا کام چلاتے ہیں۔ استغاثہ (پراسیکیوشن) اور عدالتی نظام اتنے ناقص ہیں کہ پولیس صحیح ملزم پکڑ بھی لے تو وہ عدالتوں سے بری ہوجاتا ہے۔ جب جرائم بڑھنے لگتے ہیں تو حکمران نظام کو صحیح کرنے کی بجائے شارٹ کٹ استعمال کرتے ہیں‘ پولیس کے ہاتھوں مجرموں کو جعلی مقابلوں میں قتل کروا دیتے ہیں۔ پولیس کی افسر شاہی بھی حکمران اشرافیہ کا حصّہ ہے۔ انہیں عیش و عشرت کی تمام تر سہولیات حاصل ہیں‘ بڑے بڑے پُر آسائش بنگلے‘ تین تین چار چار کاریں‘ نوکر چاکر‘ ایئرکنڈیشنڈ دفاتر ۔ دوسری طرف‘ فیلڈ میں تمام تر‘ دشوار کام کرنے والے اے ایس آئی‘ سب انسپکٹر اور انسپکٹر ہر طرح کی ضروری سہولتوں سے محروم ہیں۔ تھانوں میں اسٹیشنری خریدنے تک کی رقم نہیں ہوتی۔ متعدد تھانے کرائے کی عمارتوں‘ دکانوں میں قائم ہیں۔ یہ سب خرابیاں انتظامی اقدامات سے ٹھیک کی جاسکتی ہیں۔ پولیس کے اصل کام کرنے والے اہلکاروں کی تعداد بڑھانا اور تربیت بہتر بنانا کونسی راکٹ سائنس ہے؟ لیکن یہ اقدامات کون کرے؟ جو لوگ اقتدار میںہیں اور موجودہ نظام سے فائدہ اٹھا رہے ہیں وہ اسے کیوں تبدیل کریں؟ تبدیلی کی خواہش تو غریب اور متوسط طبقہ کی ہے جن کا اقتدار میں عملاکوئی حصّہ نہیں۔ سیاسی جماعتیں جُھوٹے وعدے کرکے عوام کو بے وقوف بنانے کے فن میں ماہر ہوچکی ہیں۔ ریاستی نظام میں چیزیں ایک دوسرے سے جُڑی ہوئی ہیں۔ ہمارا حکمران طبقہ نہیں چاہتا کہ ایسے ادارے وجود میں آئیں جن سے اس کا پولیس پر اثر و رسوخ کم ہوجائے‘ ملک میں قانون کی حکمرانی قائم ہو۔ پولیس کا موجودہ نظام اپنی تمام تر خرابیوں اور طور طریقوں کے ساتھ ہماری جاگیردارانہ معاشرت اور پارلیمانی سیاست کا لازمی حصہ ہے۔ پولیس کو عوام دوست بنانے کا مطلب سیاسی اشرافیہ کاکنٹر ول کم کرنا ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے حکومت میں آنے سے پہلے پولیس اصلاحات کے جو سنہرے خواب عوام کو دکھائے تھے اُنہیں اُس صورت میں تعبیر دی جاسکتی ہے اگر وہ جرات سے کام لیں ۔ ارکانِ اسمبلی اور افسر شاہی کے دباو سے نکلیں۔ فی الحال اِس کے آثار نظر نہیں آتے۔