لاہور میں سندر کے علاقہ میں موہلنوال اڈاکے قریب ڈاکوئوں اور پولیس کے درمیان مقابلہ میں کانسٹیبل قیصر شہید جبکہ ساہیوال میں ایک پولیس مقابلہ میں ایک ڈاکو ہلاک ا ور پولیس اہلکار سمیت دو افراد زخمی ہو گئے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ پولیس اہلکار ایمرجنسی کال نمبر 15سے آنے والی اطلاعات پر فوری طور پر جائے وقوعہ پر پہنچتے ہیں اور ڈکیتی کی ایسی ہی اطلاع پر لاہور پولیس کے یہ متذکرہ پولیس اہلکار جائے واردات پر پہنچے تو ڈاکوئوں نے فائرنگ کر دی جس سے کانسٹیبل قیصر شہید ہو گئے۔ کانسٹیبل کے والد بھی 2011ء میں داتا دربار پر ہونے والے بم دھماکہ میں ڈیوٹی کے دوران شہید ہو گئے تھے۔ اب تک پولیس کے بیسیوں اہلکار ڈاکوئوں کے ساتھ مقابلوں میں شہید ہو چکے ہیں لیکن کبھی ان کو دیے جانے والے اسلحہ کی طرف توجہ نہیں دی گئی کہ اس اسلحہ کی حالت کیا ہے۔ سند ر پولیس مقابلہ میں بھی یہ انکشا ف ہوا ہے کہ جو پولیس اہلکار ڈاکوئوں کے مقابلہ پر گئے تھے، ان کی رائفلیں زنگ آلود تھیں ، کانسٹیبل قیصر کی رائفل سے گولی ہی نہیں چل سکی اور ڈاکو فائرنگ کر کے فرار ہو گئے۔ جب پولیس اہلکاروں کے ہاتھ زنگ آلود رائفلز اور ناقص اسلحہ او ر مجرموں کے پاس جدید اسلحہ ہو گا تو وہ ڈاکوئوں کا کیا مقابلہ کر سکیں گے ۔یہ تو’’ سنگ وخشت مقید ہیں اور سگ آزاد‘‘ والی بات ہے۔ لہذاضرورت اس امر کی ہے کہ مجرموں کی سرکوبی کے لئے پولیس کو جدید اور بے عیب ا سلحہ سے مسلح کیا جائے۔