بلاشبہ کورونا کے بعد دنیا بدل رہی ہے ، بعد از کورونا مسائل پر غور ضروری ہے اور صرف کورونا نہیں پولیو سمیت تمام بیماریوں کے علاج کیلئے اقدامات ہونے چاہئیں ، یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ پولیو جیسے موذی مرض کے خاتمے کے لیے بین الاقوامی ادارے ورلڈ ہیلتھ اسمبلی کے ہنگامی اقدام کے بعد سال 1988ء سے لیکر اب تک پولیو کے خلاف جاری عالمی جنگ میں گراں قدر کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں۔ محتاط اعدادو شمار کے مطابق اس جنگ کے نتیجے میں دنیا بھر میں پولیو کیسز کی تعداد میں99 فیصد تک کمی واقع ہوئی ہے۔ سال 1988ء میں پوری دنیا سے لگ بھگ 350000 کے قریب پولیو کیسز ریکارڈ کیے گئے جو کہ حیران کن حد تک کمی کے بعد سال 2012ء میں صرف 223 رہ گئے تھے۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ سال 1988ء میں پولیو سے متاثرہ ممالک کی تعداد 125 سے زائد تھی جو کہ اب صرف جنوبی ایشیا کے دو ممالک پاکستان اور افغانستان تک محدود ہو کررہ گئی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ ترقی پذیر ممالک میں منفی پروپیگنڈے بھی بیماریوں میں اضافے کا باعث بنتے ہیں ، 21 ویں صدی میں غریبوں میں جہاں یہ سوچ پیدا ہوئی ہے کہ سرمایہ دار ممالک ان کا کس قدر استحصال کرتے ہیں ، وہاں ہمیں یہ سوچ بھی پیدا ہونی چاہئے کہ مذہبی تنگ نظر طبقے نے ان میں بلا جواز طور پر ایسے وسوسے بھی پیدا کر دیئے ہیں جو کہ بیماری کی روک تھام کی کوششوں کو سبوتاژ کرتے ہیں ، اس سے بچنا چاہئے اور مایوس نہیں ہونا چاہئے ، بہرحال یہ بات خوش آئند ہے کہ 1988ء سے اب تک 200 سے زائد ممالک،2 کروڑ رضاکاروں کے غیرمعمولی تعاون اور20ارب ڈالر کی بین الاقوامی مالی امداد کے ذریعے تقریباَ 5.2ارب بچوں کوپولیوکے خلاف حفاظتی حصار فراہم کیا جاچکا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک کروڑ سے زائد ایسے بچے جو کہ ممکنہ طور پراس مرض کے باعث معذوری کا شکارہوسکتے تھے وہ آج پولیو کے خاتمے کے لیے جاری اس پروگرام کے باعث صحت مند زندگی گزار رہے ہیں۔ پولیو کے خاتمے کے لیے جاری کوششوں کے باعث بہت سے ممالک میں تندرست و توانا معاشرے کے قیام کی جدوجہد میں صحت سے متعلق سہولتی نظام کومزید مستحکم کرنے کے لیے بین الاقوامی برادری کی جانب سے خطیررقم کی سرمایہ کاری بھی کی جا رہی ہے۔ اس پروگرام سے وابستہ ہزاروں ہیلتھ ورکرز کو تربیت کی فراہمی، لاکھوں رضاکاروں کوپولیو کے خاتمے کے لیے جاری حفاظتی قطرے پلانے کی مہم میں متحرک کر نے کے ساتھ ساتھ کولڈچین ٹرانسپورٹ کے سامان کی معیاری حالت میں دستیابی کو یقینی بنا دیا گیا ہے۔پولیو کے موذی وائرس کی وجہ سے جسمانی معذوری کا شکار ہونے والے بچوں کی تعداد میں رواں سال گزشتہ تین سالوں کے مقابلے میں بتدریج اور مسلسل کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ سال 2014ء میں پولیو وائرس کا شکار بننے والے بچوں کی تعداد 306، سال 2015ء میں 54، سال 2016ء میں 20 جبکہ رواں سال 2017ء میں اس موذی وائرس کی وجہ سے صرف ایک ہے۔ پولیو کے تدارک کے لیے جاری کوششوں سے بچوں کی قوت مدافعت کو بہتر کیا جارہا ہے اور پروگرام رواں سال میں پاکستان سے پولیو وائرس کی مکمل روک تھام اور خاتمے کی طرف مثبت طور پر پیشرفت کر رہا ہے۔ پاکستان میں پولیو کے تدارک کے لیے جاری جدوجہد کو والدین، مقامی عمائدین، مذہبی رہنماؤں، پیشہ وارانہ افراد اور ماہرین اطفال کا بھی بھرپور تعاون حاصل ہے۔ انتہائی تشویشناک قرار دیے گئے علاقوں کے صرف 0.05% والدین بچوں کو پولیو سے بچاؤکے حفاظتی قطرے پلوانے سے انکار کرتے ہیں۔ پولیو وائرس کے مکمل تدارک کے لیے جاری جدوجہد کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے پاکستان پولیو تدارک پروگرام سے منسلک شعبہ صحت سمیت مقامی اور بین الاقوامی اداروں نے اپنی تمام تر توجہ بچوں کو قطرے پلانے کی بجائے اس بات کو یقینی بنانے پر مرکوز کی ہے کہ کوئی بھی بچہ پولیو سے بچاؤ کے حفاظتی قطرے پینے سے محروم نہیں رہنا چاہیے۔ اس نئے عزم نے پولیو تدارک پروگرام کو حوصلہ افزاء نتائج سے ہمکنار کیا ہے۔ پولیو سے بچا ؤکی مختلف مہمات کے دوران حفاظتی قطرے پینے سے محروم رہ جانے والے بچے یا پھر کسی وجہ سے صحت محافظوں کی دسترس سے دور رہ جانے والے بچوں کی شرح سال 2016ء کے سیزن کے دوران کل بچوں کی تعداد کا صرف 4% تک رہ گئی ہے۔اس موذی وائرس کی باقیات پاکستان کے تین مختلف علاقوں میں ابھی بھی موجود ہیں جن میں کراچی اور کوئٹہ سمیت خیبر پختونخواہ کے کچھ علاقے شامل ہیں۔ پولیو کے خاتمے کیلئے جاپان کی حکومت پاکستان کی مدد کر رہی ہے ، 1996ء سے لیکر اب تک جاپانی حکومت نے 23 کروڑ ڈالر پولیو کے خاتمے کیلئے خرچ کئے ہیں ، حکومت پاکستان نے جاپان کی کوششوں کو سراہا ہے اور پاکستان کے سفیر نے کورونا تعطل کے بعد 20 جولائی سے ہونیوالی پولیو مہم کا خیر مقدم کیا ہے ، اس موقع پر یہ عرض کرنا بھی ضروری ہے کہ سرمایہ دار ممالک کو مہلک بیماریوں کے خاتمے کیلئے آگے آنا چاہئے اور کورونا ویکسین کی تیاری میں بھی غریب ملکوں کی مدد کرنی چاہئے اور ویکسین کو کاروبار کے طور پر نہیں بلکہ خدمت کے طور پر سامنے لانا چاہئے ۔ اس کے ساتھ ترقی یافتہ ممالک کو غربت کے خاتمے کیلئے اقدامات کرنے چاہئیں ، اس وقت سرمایہ دار دنیا کے اقدامات غربت کی بجائے غریب کے خاتمے کیلئے سامنے آئے ۔ اسی بناء پر پوری دنیا میں عذاب نازل ہو رہے ہیں۔