17 فروری 2020ء سے ملک بھر میں پولیو خاتمے کی تین روزہ مہم شروع ہو رہی ہے۔ حکومت کی طرف سے گھر گھر جا کر پولیو کے قطر پلانے کے لئے انتظامات ہو رہے ہیں ۔ اس کے ساتھ آگاہی مہم کا سلسلہ بھی شروع ہے ۔ پولیو کے خاتمے کیلئے عالمی سطح پر اقدامات کا سلسلہ شروع ہوا جس کے نتیجے میں دنیا کے باقی ممالک پولیو فری ہو چکے ہیں مگر پاکستان اور افغانستان میں پولیو کا مرض ختم نہیں ہوا، نائیجیریا میں بھی اثرات باقی ہیں ۔ ان تینوں ممالک میں پولیو ناکامی میں مذہبی حلقوں کا ہاتھ ہے کہ ان کی طرف سے مذہبی پروپیگنڈہ حکومت کی طرف سے شروع کی گئی آگاہی مہم کو ناکام بناتا آ رہاہے ۔ دیکھا جائے تو پاکستان میں پولیو کا مرض ہر جگہ موجود ہے مگر پسماندہ علاقوں خصوصاً سرائیکی وسیب میں اس کے مہلک اثرات پائے جاتے ہیں ۔ پولیو ایسا موذی مرض ہے جو انسان کو اپاہج بنا دیتا ہے ۔ سرائیکی وسیب میں عظیم سرائیکی شاعر شاکر شجاع آبادی سمیت پولیو کے مریضوں کی بڑی تعداد موجود ہے ۔ پولیو کے خاتمے کیلئے اقدامات ہونے کے ساتھ پولیو کے مریضوں کے علاج کا چارہ بھی ہونا چاہئے ۔ حکومتی سطح پر پولیو کے خاتمے کے اقدامات خوش آٗئند ہیں مگر ان کو زیادہ مربوط بنانے کی ضرورت ہے ۔ وزیراعظم کے معاون برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا نے لوگوں کو صحت سے متعلقہ معلومات کی فراہمی کیلئے صحت تحفظ ہیلپ لائن 1166 کا آغاز کردیا ہے۔ اس ہیلپ لائن سے عوام فوری طور پر پولیو، حفاظتی ٹیکہ جات کے بارے میں فوری معلومات حاصل کرسکتے ہیں۔صحت تحفظ ہیلپ لائن کے آغاز کے موقع پر وزیراعظم کے معاون برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا نے کہا کہ صحت تحفظ ہیلپ لائن حکومت پاکستان کا ایک احسن اقدام ہے جس سے پاکستانی عوام فوری طور پر صحت سے متعلقہ معلومات حاصل کرسکیں گے۔ جس سے پولیو، حفاظتی ٹیکہ جات اور دوسری بیماریوں سے متعلقہ پروپیگنڈا اور افواہوں کا خاتمہ ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ اس طرح کی ہیلپ لائن سے والدین کا اعتماد بحال ہوگا جس سے صحت کے مسائل میں بڑی حد تک بہتری آئے گی۔نیشنل ایمرجنسی آپریشنز سنٹر اسلام آباد میں قائم اپنی نوعیت کی منفرد ہیلپ لائن سے عوام پولیو اور صحت سے متعلقہ دوسری معلومات حاصل کر سکیں گے۔ خصوصی ماہرین کی ٹیم ہمہ وقت صحت سے متعلق لوگوں کے سوالات کے جوابات دینے کیلئے موجود رہے گی۔کوآرڈینیٹر نیشنل ایمرجنسی آپریشنز سنٹر ڈاکٹر رانا صفدر نے صحت تحفظ ہیلپ لائن کی تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ ہیلپ لائن پر لوگوں کو انگریزی، اردو اور مقامی زبانوں میں معلومات کی فراہمی کیلئے صبح 8 سے رات 12 بجے تک متعلقہ عملہ موجود رہے گا۔ پولیو جیسے موذی مرض کے خاتمے کے لیے بین الاقوامی ادارے ورلڈ ہیلتھ اسمبلی کے ہنگامی اقدام کے بعد سال 1988ء سے لیکر اب تک پولیو کے خلاف جاری عالمی جنگ میں گراں قدر کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں۔ محتاط اعدادو شمار کے مطابق اس جنگ کے نتیجے میں دنیا بھر میں پولیو کیسز کی تعداد میں %99 تک کمی واقع ہوئی ہے۔ سال 1988ء میں پوری دنیا سے لگ بھگ 350000 کے قریب پولیو کیسز ریکارڈ کیے گئے جو کہ حیران کن حد تک کمی کے بعد سال 2012ء میں صرف 223 رہ گئے تھے۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ سال 1988ء میں پولیو سے متاثرہ ممالک کی تعداد 125 سے زائد تھی جو کہ اب صرف جنوبی ایشیا کے دو ممالک پاکستان اور افغانستان تک محدود ہو کررہ گئی ہے۔ سال 1988ء سے اب تک 200 سے زائد ممالک،2 کروڑرضاکاروں کے غیرمعمولی تعاون اور20ارب ڈالر کی بین الاقوامی مالی امداد کے ذریعے تقریباَ 5.2ارب بچوں کوپولیوکے خلاف حفاظتی حصارفراہم کیا جاچکا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ 1کروڑ سے زائد ایسے بچے جو کہ ممکنہ طور پراس مرض کے باعث معذوری کا شکارہوسکتے تھے وہ آج پولیو کے خاتمے کے لیے جاری اس پروگرام کے باعث صحت مند زندگی گزار رہے ہیں۔ پولیو کے خاتمے کے لیے جاری کوششوں کے باعث بہت سے ممالک میں تندرست و توانا معاشرے کے قیام کی جدوجہد میں صحت سے متعلق سہولتی نظام کومزید مستحکم کرنیکے لیے بین الاقوامی برادری کی جانب سے خطیررقم کی سرمایہ کاری بھی کی جا رہی ہے۔ اس پروگرام سے وابستہ ہزاروں ہیلتھ ورکرزکوتربیت کی فراہمی، لاکھوں رضاکاروں کوپولیو کے خاتمے کے لیے جاری حفاظتی خطرے پلانے کی مہم میں متحرک کر نے کے ساتھ ساتھ کولڈچین ٹرانسپورٹ کے سامان کی معیاری حالت میں دستیابی کو یقینی بنا دیا گیا ہے۔پولیو کے موذی وائرس کی وجہ سے جسمانی معذوری کا شکار ہونے والے بچوں کی تعداد میں رواں سال گذشتہ تین سالوں کے مقابلے میں بتدریج اور مسلسل کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ سال 2014ء میں پولیو وائرس کا شکار بننے والے بچوں کی تعداد 306، سال 2015ء میں 54، سال 2016ء میں 20 جبکہ رواں سال 2017ء میں اس موذی وائرس کی وجہ سے صرف ایک ہے۔ پولیو کے تدارک کے لیے جاری کوششوں سے بچوں کی قوت مدافعت کو بہتر کیا جارہا ہے اور پروگرام رواں سال میں پاکستان سے پولیو وائرس کی مکمل روک تھام اور خاتمے کی طرف مثبت طور پر پیش رفت کر رہا ہے۔ پاکستان میں پولیو کے تدارک کے لیے جاری جدوجہد کو والدین، مقامی عمائدین، مذہبی رہنماؤں، پیشہ وارانہ افراد اور ماہرین اطفال کا بھی بھرپور تعاون حاصل ہے۔ انتہائی تشویشناک قرار دیے گئے علاقوں کے صرف 0.05% والدین بچوں کو پولیو سے بچاؤکے حفاظتی قطرے پلوانے سے انکار کرتے ہیں۔ پولیو وائرس کے مکمل تدارک کے لیے جاری جدوجہد کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے پاکستان پولیو تدارک پروگرام سے منسلک شعبہ صحت سمیت مقامی اور بین الاقوامی اداروں نے اپنی تمام تر توجہ بچوں کو قطرے پلانے کی بجائے اس بات کو یقینی بنانے پر مرکوز کی ہے کہ کوئی بھی بچہ پولیو سے بچاؤ کے حفاظتی قطرے پینے سے محروم نہیں رہنا چاہیے۔ اس نئے عزم نے پولیو تدارک پروگرام کو حوصلہ افزاء نتائج سے ہمکنار کیا ہے۔ پولیو سے بچا ؤکی مختلف مہمات کے دوران حفاظتی قطرے پینے سے محروم رہ جانے والے بچے یا پھر کسی وجہ سے صحت محافظوں کی دسترس سے دور رہ جانے والے بچوں کی شرح سال 2016ء کے سیزن کے دوران کل بچوں کی تعداد کا صرف 4% تک رہ گئی ہے۔اس موذی وائرس کی باقیات پاکستان کے تین مختلف علاقوں میں ابھی بھی موجود ہیں جن میں کراچی اور کوئٹہ سمیت خیبر پختونخواہ کے کچھ علاقے شامل ہیں۔ تاہم ان مذکورہ علاقوں کے علاوہ بھی پاکستان کے دیگر علاقوں میں اس موذی وائرس کے پھیلنے کے خدشات اپنی جگہ موجود ہیں لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ اعلیٰ معیار کی پولیو کے تدارک کی مہم کے انعقاد کو یقینی بنانے پر تمام تر توجہ مرکوز کی جائے اور پولیو وائرس کے مزید پھیلاؤکی روک تھام کے لیے تمام بچوں کی پولیو ویکسینیشن کرانا اس لیے بھی انتہائی ضروری ہے کیونکہ ہر وہ بچہ جو پولیو کے قطرے پینے یا پولیو سے بچاؤ کا حفاظتی ٹیکہ لگوانے سے محروم رہ جائے گا وہ پولیو وائرس کے پھیلاؤ کا سبب بن سکتا ہے۔